QaiserMirza
Chief Minister (5k+ posts)
رمضان میں پروگرامز میں چلنے والے ڈرامے

کہیں سے کوئی انتہائی مجبور یا کوئی عجیب و غریب بیماری کی شکار فیملی ڈھونڈی جائے۔
پھر کیمرے، لائٹس اور میک اپ کا سامان لے کر ان کے گھر جایا جائے۔
پھر ایک چرب زبان لیکن سخت دل اینکر مائیک لے کر اس گھرانے کے افراد کے پاس چلا جائے ۔ ۔ ۔زرا اپنے پولیو والے بچے کو آگے بٹھائیں، ارے بھئی دیکھنا، کیمرے میں پورا آرہا ھے یا نہیں۔ ۔ اچھا ایک منٹ ۔ ۔ ارے بی بی، زرا بچے کی پولیو والی ٹانگ سے شلوار اوپر کردو، اور ہاں، ٹانگ کے نیچے کوئی چیز رکھ کر اونچی کردو تاکہ کیمرے میں شاٹ صحیح آئے۔ ۔ ۔ا
ایکشن کٹ، کٹ کٹ ۔ ۔
دیکھو بی بی، اگر سیدھا سیدھا بولو گی تو پروگرام نہیں چلے گا۔ ۔ ۔ تھوڑے آنسو نکالو، آواز میں سوز پیدا کرو ۔ ۔ ۔اور ہاں، بال کھول دو، یہ گلے میں لاکٹ اتار دو، کہیں ایسا نہ لگے کہ تمہارے حالات ٹھیک ہیں ۔ ۔ اور ہاں، اپنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کیمرے کے آگے فریاد کرنا ۔ ۔ اور دیکھو، آنسو تھمنے نہ پائیں ۔ ۔ ۔ایکشن ۔ ۔
پھر ریکارڈنگ شروع ۔ ۔ ۔
اینکر کا مائیک اس خاتون کے منہ کے قریب، لائٹ چہرے پر پڑتی ہیں، کیمرے کی ریکارڈنگ شروع ہوتی ھے اور یوں یہ کلپ ریکارڈ ہوجاتی ھے۔
ضروری ایڈیٹنگ کے بعد ایک دل گداز سکرپٹ لکھا جاتا ھے جسے رمضان نشریات کے اینکر کو تھما دیا جاتا ھے۔
یہ حصہ افطار سے ٹھیک تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں چلایا جاتا ھے کیونکہ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہوچکے ہوتے ہیں، ایمانی جزبہ بیدار ہوچکا ہوتا ھے ۔ ۔ ۔پھر لائٹ مدھم ہوتی ھے، بیک گراؤنڈ میں اداسی والا میوزک چلتا ھے ۔ ۔اور وہ اینکر اپنا سکرپٹ گہری سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا شروع کردیتا ھے۔ ۔ ۔ پھر وہ ریکارڈنگ چلائی جاتی ھے۔ سٹوڈیو میں موجود کیمرہ مین وہاں بیٹھے ڈرامے باز لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تلاش کرتا ھے اور جونہی اسے ملتے ہیں، کلوزاپ وہیں ہوجاتا ھے ۔ ۔
پھر ایک کمرشل بریک اور واپسی پر جس خاتون کا انٹرویو لیا ہوتا ھے وہ سٹوڈیو میں آجاتی ھے۔
اس دفعہ اس کا اعتماد پہلے سے بہت بڑھ چکا ہوتا ھے۔ کپڑوں پر پیوند تو شاید ابھی بھی ہوتے ہوں لیکن فیبرک مہنگا ہوتا ھے۔ چہرے پر میک اپ بھی کردیا جاتا ھے اور پرفیوم بھی لگا ہوتا ھے۔ اس خاتون کی اداکاری میں پختگی آچکی ہوتی ھے۔ پھر وہ اپنی تمام اداکاری کے جوہر دکھانا شروع ہوجاتی ھے۔
وہی جڑے ہاتھ، وہی آنکھوں میں آنسو اور وہی لہجے میں سوز۔
وہاں موجود لوگوں اور ٹی وی پر دیکھنے والے عوام کے جزبات مچل جاتے ہیں، وہ چینل تبدیل نہیں کرتے، شاید اس آس میں کہ پروگرام کے اختتام تک اس خاتون سمیت سب کے حالات جادو کی چھڑی سے بدل چکے ہونگے۔
اس اینکر کا سینہ فخر سے پھولنا شروع ہوجاتا ھے، پروڈیوسر اور ڈائیریکٹر بھی خوش نظر آتے ہیں۔
اگلے دن 20 نئے کمرشل اس پروگرام کو مل جاتے ہیں اور چینل کی ٹیم نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ھے۔
(ماخوذ)
پھر کیمرے، لائٹس اور میک اپ کا سامان لے کر ان کے گھر جایا جائے۔
پھر ایک چرب زبان لیکن سخت دل اینکر مائیک لے کر اس گھرانے کے افراد کے پاس چلا جائے ۔ ۔ ۔زرا اپنے پولیو والے بچے کو آگے بٹھائیں، ارے بھئی دیکھنا، کیمرے میں پورا آرہا ھے یا نہیں۔ ۔ اچھا ایک منٹ ۔ ۔ ارے بی بی، زرا بچے کی پولیو والی ٹانگ سے شلوار اوپر کردو، اور ہاں، ٹانگ کے نیچے کوئی چیز رکھ کر اونچی کردو تاکہ کیمرے میں شاٹ صحیح آئے۔ ۔ ۔ا
ایکشن کٹ، کٹ کٹ ۔ ۔
دیکھو بی بی، اگر سیدھا سیدھا بولو گی تو پروگرام نہیں چلے گا۔ ۔ ۔ تھوڑے آنسو نکالو، آواز میں سوز پیدا کرو ۔ ۔ ۔اور ہاں، بال کھول دو، یہ گلے میں لاکٹ اتار دو، کہیں ایسا نہ لگے کہ تمہارے حالات ٹھیک ہیں ۔ ۔ اور ہاں، اپنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کیمرے کے آگے فریاد کرنا ۔ ۔ اور دیکھو، آنسو تھمنے نہ پائیں ۔ ۔ ۔ایکشن ۔ ۔
پھر ریکارڈنگ شروع ۔ ۔ ۔
اینکر کا مائیک اس خاتون کے منہ کے قریب، لائٹ چہرے پر پڑتی ہیں، کیمرے کی ریکارڈنگ شروع ہوتی ھے اور یوں یہ کلپ ریکارڈ ہوجاتی ھے۔
ضروری ایڈیٹنگ کے بعد ایک دل گداز سکرپٹ لکھا جاتا ھے جسے رمضان نشریات کے اینکر کو تھما دیا جاتا ھے۔
یہ حصہ افطار سے ٹھیک تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں چلایا جاتا ھے کیونکہ اس وقت لوگوں کے دل نرم ہوچکے ہوتے ہیں، ایمانی جزبہ بیدار ہوچکا ہوتا ھے ۔ ۔ ۔پھر لائٹ مدھم ہوتی ھے، بیک گراؤنڈ میں اداسی والا میوزک چلتا ھے ۔ ۔اور وہ اینکر اپنا سکرپٹ گہری سنجیدگی کے ساتھ پڑھنا شروع کردیتا ھے۔ ۔ ۔ پھر وہ ریکارڈنگ چلائی جاتی ھے۔ سٹوڈیو میں موجود کیمرہ مین وہاں بیٹھے ڈرامے باز لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تلاش کرتا ھے اور جونہی اسے ملتے ہیں، کلوزاپ وہیں ہوجاتا ھے ۔ ۔
پھر ایک کمرشل بریک اور واپسی پر جس خاتون کا انٹرویو لیا ہوتا ھے وہ سٹوڈیو میں آجاتی ھے۔
اس دفعہ اس کا اعتماد پہلے سے بہت بڑھ چکا ہوتا ھے۔ کپڑوں پر پیوند تو شاید ابھی بھی ہوتے ہوں لیکن فیبرک مہنگا ہوتا ھے۔ چہرے پر میک اپ بھی کردیا جاتا ھے اور پرفیوم بھی لگا ہوتا ھے۔ اس خاتون کی اداکاری میں پختگی آچکی ہوتی ھے۔ پھر وہ اپنی تمام اداکاری کے جوہر دکھانا شروع ہوجاتی ھے۔
وہی جڑے ہاتھ، وہی آنکھوں میں آنسو اور وہی لہجے میں سوز۔
وہاں موجود لوگوں اور ٹی وی پر دیکھنے والے عوام کے جزبات مچل جاتے ہیں، وہ چینل تبدیل نہیں کرتے، شاید اس آس میں کہ پروگرام کے اختتام تک اس خاتون سمیت سب کے حالات جادو کی چھڑی سے بدل چکے ہونگے۔
اس اینکر کا سینہ فخر سے پھولنا شروع ہوجاتا ھے، پروڈیوسر اور ڈائیریکٹر بھی خوش نظر آتے ہیں۔
اگلے دن 20 نئے کمرشل اس پروگرام کو مل جاتے ہیں اور چینل کی ٹیم نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ھے۔
(ماخوذ)