کپتان کو روتے دیکھ کر فرعون کے آخری وقت یاد آتا ہے جب اس نے موسیٰ کے منع کرنے کے باوجود بچے قتل کیے اور اللہ نے اس کے بچے کی جان لے لی . فرعون کی گود میں اس کے بچے کی لاش تھی اور وہ چیخ چیخ کر اپنے دیوتاؤں سے اس کی زندگی مانگ رہا تھا . فرعون کو اس دن اپنی بے بسی کا احساس ہو گیا تھا وہ بے بس ہو کر ایک مظلوم سی حالت صدمہ میں پہنچ گیا تھا . ایسا ہی ایک فرعون صفت حکمران اس ملک کا بادشاہ بنا . غریبوں کے گھر گرا رہے ، سیاسی مخالفوں پر جھوٹے مقدمات بنا کر بے گناہ جیل میں رکھا ، مہنگائی کے بم گرا کر قوم کو زندہ درگور کردیا . باقی جو کسر رہ گئی تھی کرونا پھیلا کر پوری کر دی . بے شک حکمران وقت ہی کرونا مجرم ہے . اس کی غفلت کی بدولت سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں . ان افراد کا خون کپتان کے سر ہے . ا گر وه چاہتا تو وبا نہ پھیلتی جو بھی باہر سے آتا قرنطیہ کر دیا جاتا لیکن اسے اتنی عقل کہاں وہ بس بھیک مانگنا جانتا ہے . اس کی نا اہلیت کی بھینٹ یہ ملک چڑھ گیا ہے . آج اس کی اوقات اتنی سی رہ گئی ہے کر صرف اٹھائیس کروڑ جس میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بھی شامل ہیں جمع ہوا ہے . وہ رویا ضرور ہوگا عوام کے غم میں نہیں اقتدار کے غم میں . کیوں کے آج کل اس کی حیثیت ایک اجنبی سی رہ گئی ہے اسٹبلشمنٹ شہباز کو گرین سگنل دے چکی لیکن کون ہے جو اس دیوالیہ معیشت کو گلے لگائے . اور ماتھے پر ملک کی تباہی کا داغ سجائے . ادھر لوگ بھوک سے مر رہے ادھر وسیم اکرم پلس بچوں میں ٹیب بانٹ رہے . ایک دیوالیہ ملک کے حکمرانوں کے یہ مشاغل ہوں تو ملک کیوں نہ تباہ ہو . یہ ملک چلانے کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں اور اس کھیل میں عوام کا تماشا بن چکا ہے .