مذہبی اسکالر اور معروف ٹی وی میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے اے آر وائے نیوز کے پروگرام میں براہ راست محرم الحرام میں جاری حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔
محرم الحرام کے اگلے تین دن میں امن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رحمان ملک صاحب یہ فالتو پابندیاں لگانا بیکار ہیں، اسکول بند، موبائل بند، اسپتال بند، بائک بند ۔۔۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ رحمان ملک پر ہی پابندی لگا دی جائے۔
میں نہیں سمجھتا کہ ہم حکومت کے ایسے بچگانہ اقدام کے علاوہ کوئی توقع رکھیں۔
امام عالی مقام کا قول ہے کہ علم ہی جہالت کی آگ کو بجھا سکتا ہے۔ علماء کا اہم کردار ہے، علماآگے آئیں، فرقہ ورانہ ہم آہنگی برقرار رکھیں۔
مسئلہ کا حل تو یہ نہیں ہے کہ آپ موبائل، سموں اور موٹر سائیکل پر پابندی لگادیں۔ جب علم میں ہے کہ وافر مقدار میں اسلحہ موجود ہے اور تین دن میں بڑی دہشت گردی کا واقعہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی سورش بپا کرنا چاہتا ہے، پاکستان کے استحکام پر بری نگاہ ڈالنا چاہتا ہے، تو حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں، حل اس طرح نہیں ہوتا کہ عوام کے باہر نکلنے پر پابندی لگادیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کون لوگ کررہے ہیں۔ یہ کہنے سے حل نہیں ہوگا کہ موٹر سائیکل پر پابندی لگادی تو دہشت گردی رک گئی۔ حکومت اگر کسی سیاسی مجبوری کی وجہ سے ان پر ہاتھ نہیں ڈال رہے تو یہ حکومت کی کمزوری ہے۔
شیعہ سنی فساد کا خدشہ نہیں ہے، علمی سطح پر اختلاف موجود ہے، اور باعث رحمت ہے، یہ اختلاف رہنا بھی چاہیے۔ مگر یہ سازش نہیں ہے، ہم کوئی بچے نہیں ہیں، ہم کیوں اغیار اور دشمنوں کی سازش کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ اغیار کی سازش ہے مگر آلہ کار تو ہم بن رہے ہیں، نوجوان کیوں خود کش حملوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ میں کیسے مان لوں کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں۔
کیا حضرت عثمان ، حضرت امام عالی مقام کا پانی بند کرنے والے مسلمان نہیں تھے، مسلمان ایسا کر سکتے ہیں اور ماضی میں ایسے کام ہوئے ہیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ایک وقت آئے گا کہ تم تعداد میں کثیر ہو گے مگر وہن کی بیماری کا شکار ہوجاءو گے۔ اور وہن یہ ہے کہ دنیا سے محبت اور آخرت سےنفرت۔
ملی یکجہتی کونسل جیسے ادارے ہیں، قاضی حسین احمد، منور حسن اور دیگر اکابرین ہیں، یہ میرے بھی اکابرین ہیں۔ میں سب کا احترام کرتا ہوں، سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہیے۔ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ مگر یزیدی فکر بھی تو موجود ہے، جو اختلاف پیدا کرنے والی فکر ہے۔ جو کہ خوارجی فکر ہے۔ ہمیں اس سوچ سے بچنا ہوگا۔میں نے خود اسلام آباد میں علمائے کرام کے اتحاد کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ ان کی نیت پر کہیں شبہ نہیں ہے۔ مگر ایک یزیدی فکر ہے جسے کوئی پروان چڑھا رہا ہے، کوئی دانہ ڈال رہا ہے۔ اس مخصوص ذہنیت سے بچنا ہوگا۔
جو سازشی عناصر اور باطل قوتیں کارفرما ہیں ان سازشوں کے پیچھے، اس کا کھل کے اظہار بھی کرنا چاہیے۔ جس طرح ملالہ کے مسئلے پر تمام مکاتب فکر نے ناجائز قرار دیا۔ ہمیں اسی طرح سب کو ساتھ چلنا چاہئے، ہم آواز ہوکر۔ اسی طرح سے عافیہ، باجوڑ، بچوں پر حملے، لال مسجد پر بھی ایک ہوجانا چاہئے تھا۔
یہ سب مغربی مفاد ہے جس کی وجہ سے کوئی نہیں بولا، جہاں مغربی پذیرائی ملے، امداد ملے، دیگر مراعات پوشیدہ ہیں۔ سب کچھ زباں بندی کے لیے کافی ہے۔ ہمیں ان سب سے بالاتر ہوکر ہم آواز ہونا چاہئے۔
میں آپ کی تجویز میں شامل ہوں۔ سب مکاتب فکر کو اتفاق سے ملکر بیٹھنا چاہیے۔ اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کا احیا کریں مگر جہاں متفق ہونا ہو وہاں سب کو ملکر ہم آواز ہونا چاہئے۔ جس طرح ملالہ کے مسئلے پر تحریک طالبان پاکستان ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو اس کے خلاف سب کو متحد ہوکر ہم آواز ہونا چاہئے۔
میں علمی طور پر اختلاف کرتا ہوں کہ یہ سب کچھ ڈرون اٹیک کا رد عمل ہے۔ مگر اس کا حل یہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں جو زیادتیاں ہوئی ہیں، وہ برباد ہو گئے ہیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا، مذاکرات، گفتگو ہوگی، کرمنل اور شرفاء کو الگ کرنا ہوگا۔ یہ حملے کرنے والے غنڈے اور بدمعاش دہشت گرد ہیں، انہوں نے صرف شیلٹر لیا ہے جہادیوں کا، طالبان کا۔ جہاد ہمارے دین کاجز ہے، مگر بدمعاشوں اور جہادیوں کو الگ کرنا ہوگا۔ ایک تو وہ ہیں جو اغیار کی سازشوں سے بدمعاش بنے، مگر ایک وہ ہیں جو غلیظ لٹریچر کے ذریعے غلاظت بھری بات کرتے ہیں، اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ قانون کی عملداری قائم کرنی چاہیے۔ ان میں سے بدمعاشوں غندوں اور دہشت گردوں کو الگ کریں ۔ مذاکرات گفتگو کے راستے کبھی بند نہیں ہوتے نہ ہونے چاہئیں، یہی حل ہے۔
محرم الحرام کے اگلے تین دن میں امن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رحمان ملک صاحب یہ فالتو پابندیاں لگانا بیکار ہیں، اسکول بند، موبائل بند، اسپتال بند، بائک بند ۔۔۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ رحمان ملک پر ہی پابندی لگا دی جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم حکومت کے ایسے بچگانہ اقدام کے علاوہ کوئی توقع رکھیں۔
امام عالی مقام کا قول ہے کہ علم ہی جہالت کی آگ کو بجھا سکتا ہے۔ علماء کا اہم کردار ہے، علماآگے آئیں، فرقہ ورانہ ہم آہنگی برقرار رکھیں۔