Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
ذوالنورینسیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اعلی سیرتو کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور حضرت عثمان غنی رض خلیفہ سوم کا تعلققریش کے معزز قبیلے بنوامیہ سے تھا۔ ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ عائشہ رضیاللہ تعالیٰ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم عائشہ رضی اللہ تعالیٰعنہا سے نکاح کیا۔
رسول اللہصلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھیعثمان رضى الله عنه ہوگا۔(ابن ماجہ)
حضرتعثمان رضى الله عنه کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نےاپنی صاحب زادی حضرت رقیہ رض کا نکاح آپ سے کردیا۔ آپ نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اجازت اورحکم الہی کے مطابق مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى الله عنها ہجرت حبشہ کی، جب ہجرتمدینہ کا حکم ہوا تو حضرت عثمان رض اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لےگئے، اس طرح آپ کو دوہجرت کرنے کی فضیلت حاصل ہوئی۔
آپ نےمدینہ منورہ میں نبی پاک ص کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقففرمایا ۔ غزوئہ بدر میں حضرت رقیہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علالت کے سبب نبیاکرم ص کی اجازت سے شرکت نہ کرسکے، محبوب بیوی اور وہ بھی رسول اکرم ص کی نورنظرکی جدائی کا غم اور دوسرا اسلام کی پہلی اور عظیم الشان جنگ غزوہ بدر سے محرومی کاغم کیوجہ سے آپ ہمیشہ افسردہ خاطر رہتے ۔
''رسولاکرم ص نے ان کی دونوں مصیبتوں کا ازالہ فرمایا کہ بدر کے مال غنیمت میں سے انہیںایک مجاہد کے برابر حصہ عنایت فرمایا اور بشارت سنائی کہ وہ اجر وثواب میں بھی کسیسے کم نہیں رہیں گے۔ پھر اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم عائشہ رضی اللہ تعالیٰعنہا سے ان کا نکاح کروا کر دوبارہ خاندانِ نبوت ص سے ان کارشتہ قائم کر دیا۔
آپ سے سےفرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، اس حال میں کہ آپ کیرانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں (اسی دوران) سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰعنہ نے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹےباتیں کررہے تھے،
پھرسیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت مانگیتو آپ نے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے، پھرسیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمبیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا،
روای محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایکدن کی بات ہے، پھر سیدناعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہےتو جب وہ سب حضرات نکل گئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا سیدناابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پرواہ کی،پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو بھی آپ نے کچھ خیال نہیں کیا اورنہ ہی کوئی پرواہ کی، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو آپ سیدھے ہو کربیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑوں کو درست کیا تو آپ نے فرمایا (اے عائشہ!) کیا میںاس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1708
حضرتعثمان ذوالنورین رض کو جامع القرآن کہا جاتا ہے۔حضرت علی رض کا فرمان ہے کہ حضرتعثمان رض کے بارے میں خیر ہی کہو ؛ کیونکہ انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھیکیا صرف اپنی رائے سے نہیں بلکہ ہماری ایک جماعت کے مشورہ سے کیا۔(ابن ابی داود )
اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کوخلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی. يہ منافق رسول اللہ سے بھی دنیاوی بادشاہوں کیطرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کر یں گے. ان منافقوں کیناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے حضرت ابوبکررض کو اسلام کا پہلا متفقہخلیفہ بنا لیا. حضرت ابو بکررض کی خلافت راشدہ کے بعد ان منافقوں کے سینے پر اسوقت سانپ لوٹ گیا جب امت نے کامل اتفاق سے حضرت عمر رض کو خلیفہ اسلام چن لیا.حضرتعمر کے بعد ٱپ کاخلیفہ ہوناگویاانکے لئے بجلی گرنے کے برابرہوگیاان مسلمان نما منافقوں کے لۓصدمہ عظیم سے کم نہ تھا۔
سیدناعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اورمسجد نبوی کی توسیع ہوئی، اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقہ اور قبرص فتحہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بیزنطینیوںکے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی
منافقیننے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور سیدناعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ رض کو سنہ 35 ھ، 18 ذیالحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران شہید کر دیاگیا، اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے.اس دلخراش سانحہ مين آپکی ذوجہ محترمہ حضرت نائلہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی انگشت مبارک بھی شھيد ھوگئیں.آپ نے 644ء سے 656ء تک خلافت کی ذمہ داریاں سر انجام دیں۔
سیدناعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﺟﺐ ﺑﺎﻏﯿﻮﮞﻧﮯﺁﭖﭘﺮﺣﻤﻠﮧکیا.
ﺗﻮﺁﭖﻗﺮﺁﻥﮐﯽﺗﻼﻭﺕﮐﺮﺭﮨﮯﺗﮭﮯ.
ﺁﭖﮐﮯﺧﻮﻥﮐﮯﭼﮭﯿﻨﭩﮯ.
ﻗﺮﺁﻥﮐﯽﺁﯾﺖﻓَﺴَﯿَﮑْﻔِﯿْﮑَﮫُﻡُﺍﻟﻠّٰﮧُﻭَﮬُﻮَﺍﻟﺴَّﻤِﯿْﻊُﺍﻟْﻌَﻠِﯿْﻢ( ﺍﻟﺒﻘﺮﮦ: ۱۳۷ ) ﭘﺮﭘﮍﮮ
سو تمہیںان سے اللہ کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
آپ اللہکی راہ میں دولت دل کھول کر خرچ کرتے۔اسی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہوسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔
حدیث:
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 1 جنازہ لایا گیا تو آپ نے اسکی نماز جنازہ نہیںپڑھائی، جب وجہ پوچھی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ عثمان(رضی اللہ عنہ) سے بغض رکھتا تھا، لہذا اللہ بھی اس شخص سےناراض ہے
جنت میںہر نبی کا ایک ساتھی ہوگا، اورجنت میں میرا ساتھی عثمان بن عفان ہو گا
ابن ماجہ،
**************************************************************