0وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ
0اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم!
0قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
0واقعی تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں
0إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ
0بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی
0وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ
0اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کر دیا
0وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ
0اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا
یہ ذکر خیر ہے میرے حسین کا ، قرآن میں ،
وہ ذبیح عظیم حسین کے علاوہ کون ہو سکتا ہے ، جس نے داستان حرم کو مکمل کیا. ابتدا اسمعیل ، انتہا حسین ، کہیں خلیل آنکھ بند کرے ، تو حسین, علی اصغر کو خود مقتل کو لے جاے.
صبر و استقامت اور خدا پر ایمان کی یہ داستان ، نہ تاریخ میں گزری اس سے پہلے نہ کبھی گزرے گی .
میرا حسین مظلوم نہیں ، کائنات کا شہزادہ مظلوم نہیں ، صابر تھا.
میرا حسین ، مشیت الہیہ کے سامنے پیکر تسلیم تھا ، شہزادہ علی اکبر نے پوچھا بابا ، اگر موت سر پر ہے تو کیا ہم حق پر نہیں ، اثبات پر علی اکبر نے فرمایا ، اگر موت یہی ہے تو شہد سے میٹھی ہے.
وگرنہ ، اسمعیل پاؤں رگڑے ، تو زمین پانی نکالے ، علی اصغر روے اور زمین کو شرم نہ اے ؟ طائف میں پتھروں پہ اترنے والا ، پہاڑوں کو ملا دینے والا ، تب نہ آ سکتا تھا ؟ جب اس جسم مبارک کو تیر لگے جسے سرور کونین نے پالا.
سب مشیت الہیہ. ورنہ یہ مسلمان قوم کبھی بیدار نہ ہوتی ، اور اسلاف کی وہ محنت ، جو غلبہ اسلام کے لئے تھی ، رائیگاں جاتی اور یزید پلید کا موقف مانا جاتا کہ بنی ہاشم پر نبوت نہیں اتری.
لوگ پوچھتے ہیں ، سجدے میں سر کٹوانا کیوں کر ہوا ؟ میں کہتا ہوں ، وہ ایک سجدہ اس کے بعد کے ارب ہا سجدوں کے لئے دلیل بنا ، جب یزید نے سجدے کو روکا ، تو ایسی حالت میں سجدہ ضروری تھا جب موت سر پر ہو ، خدا پر ایمان اور نانے کے دین پر عمل کی اس سے بہتر نہ جگہ تھی ، نہ وقت.
اے حسین تجھے سلام ، تیری عظمت کو ، تیری قربانی کو ہزار ہا سلام ، کے تیرا ایک سجدہ ، ہمیں زندگی عطا کر گیا.
اے ذبیح عظیم تجھے سلام ،
0اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم!
0قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
0واقعی تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ بے شک ہم محسنوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں
0إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ
0بے شک یہ بہت بڑی کھلی آزمائش تھی
0وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ
0اور ہم نے ایک بہت بڑی قربانی کے ساتھ اِس کا فدیہ کر دیا
0وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ
0اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کا ذکرِ خیر برقرار رکھا
وہ ذبیح عظیم حسین کے علاوہ کون ہو سکتا ہے ، جس نے داستان حرم کو مکمل کیا. ابتدا اسمعیل ، انتہا حسین ، کہیں خلیل آنکھ بند کرے ، تو حسین, علی اصغر کو خود مقتل کو لے جاے.
صبر و استقامت اور خدا پر ایمان کی یہ داستان ، نہ تاریخ میں گزری اس سے پہلے نہ کبھی گزرے گی .
میرا حسین مظلوم نہیں ، کائنات کا شہزادہ مظلوم نہیں ، صابر تھا.
میرا حسین ، مشیت الہیہ کے سامنے پیکر تسلیم تھا ، شہزادہ علی اکبر نے پوچھا بابا ، اگر موت سر پر ہے تو کیا ہم حق پر نہیں ، اثبات پر علی اکبر نے فرمایا ، اگر موت یہی ہے تو شہد سے میٹھی ہے.
وگرنہ ، اسمعیل پاؤں رگڑے ، تو زمین پانی نکالے ، علی اصغر روے اور زمین کو شرم نہ اے ؟ طائف میں پتھروں پہ اترنے والا ، پہاڑوں کو ملا دینے والا ، تب نہ آ سکتا تھا ؟ جب اس جسم مبارک کو تیر لگے جسے سرور کونین نے پالا.
سب مشیت الہیہ. ورنہ یہ مسلمان قوم کبھی بیدار نہ ہوتی ، اور اسلاف کی وہ محنت ، جو غلبہ اسلام کے لئے تھی ، رائیگاں جاتی اور یزید پلید کا موقف مانا جاتا کہ بنی ہاشم پر نبوت نہیں اتری.
لوگ پوچھتے ہیں ، سجدے میں سر کٹوانا کیوں کر ہوا ؟ میں کہتا ہوں ، وہ ایک سجدہ اس کے بعد کے ارب ہا سجدوں کے لئے دلیل بنا ، جب یزید نے سجدے کو روکا ، تو ایسی حالت میں سجدہ ضروری تھا جب موت سر پر ہو ، خدا پر ایمان اور نانے کے دین پر عمل کی اس سے بہتر نہ جگہ تھی ، نہ وقت.
اے حسین تجھے سلام ، تیری عظمت کو ، تیری قربانی کو ہزار ہا سلام ، کے تیرا ایک سجدہ ، ہمیں زندگی عطا کر گیا.
اے ذبیح عظیم تجھے سلام ،