abidhassan
Voter (50+ posts)
دیسی شاپنگ
تحریر: عابد حسن
ایک گورا اپنی بیوی کے ساتھ سٹور میں گیا اور ایک شراب کی بوتل شاپنگ ٹرالی میں رکھی، بیوی نے فورا نکال کر واپس رکھ دی اور کہا کہ فضول خرچی کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد بیوی نے ایک فیس کریم ٹرالی میں رکھی تو شوہر نے پوچھا کیا یہ فضول خرچی نہیں؟ بیوی نے جواب دیا یہ کریم لگانے سے میں تمہیں خوبصورت نظرآؤں گی۔ میں جب شراب پی کر تمہیں دیکھتا ہوں تب بھی تم مجھے خوبصورت دکھائی دیتی ہو، شوہر نے جواب دیا۔
شاپنگ ہمیشہ سے خواتین کی کمزوری رہی ہے۔ ہمارے ہاں شوہر بیوی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، لیکن بیگم کی خریدی ہوئی چیزوں کا بل دیکھ کر ان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ فائدے کے بجائے الٹا نقصان کروا بیٹھے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ شادی ایک ورکشاپ کی طرح ہوتی ہے، جس میں شوہر ورک کرتا ہے اور بیوی ہمیشہ شاپ کرتی ہے۔
ہمارے ہاں اکثر خواتین کوئی چیز اس لیئے نہیں خریدتیں کہ ان کو اس کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس لیئے کہ وہ سیل پر ہوتی ہے۔سیل پر خریدی ہوئی چیزیں اکثر اوقات پڑی پڑی خراب ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔مردعموما صرف ضرورت کی چیز کے لیئے ہی شاپنگ کے لیئے جاتے ہیں، اور خواتین اس لیئے جاتی ہیں کہ دیکھ سکیں ان کو کس چیز کی ضرورت ہے۔کچھ مرد شاپنگ مالز میں اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کرچل رہے ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں تو یہ کافی رومانٹک نظر آتا ہے لیکن رومانس کا اس سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا، در حقیقت وہ اپنی بیویوں کی فضول خرچی کنڑول کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ بالآخر جیب تو ان کی ہی خالی ہونی ہوتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ، خواتین کی عمر اس لیئے بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ شاپنگ کرنے سے کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا، بلکہ بل دینے سے ہوتا ہے۔اب جان بچانے کے لیئے مرد اگرتھوڑی سی چیٹنگ کر لیتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
اگر آپ کو کسی شاپنگ سنٹر میں کوئی اکیلا مرد موبائل پر گیمز کھیلتا نظر آئے تو سمجھ لیں اس کی بیوی شاپنگ میں مصروف ہے۔ بعض اوقات شاپنگ کے دوران بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی شوہر کو دے دی جاتی ہے تاکہ بیوی مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ خریداری کر سکے۔لیکن یہ شوہروں پر دہرے ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔اکثر بچے شاپنگ مال پہنچتے ہی تمام اخلاق اور لحاظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی اودھم مچاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کچھ بچوں پر دیوانہ وار بھاگنے کا جنون سوار ہو جاتا ہے اور وہ تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ چوٹ کھا کر گر نہ جائیں۔اسی لیئے کئی شوہر بیگم سے یہ درخواست کرتے پائے جاتے ہیں کہ چاہے دو کے بجائے تین گھنٹے لگا لو، لیکن بچوں کو ساتھ لے جاؤ۔لیکن بیگم اکثر اس درخواست کو رد کرتے ہوئے بچوں کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے لیکن واپس پھر بھی سوا تین گھنٹے بعد ہی آتی ہے اور یہ احسان جتلاتی ہے کہ تم نے ہی تین گھنٹے کا کہا تھا میری شاپنگ تو آدھے گھنٹے میں ختم ہو گئی تھی۔
ہمارے ہاں اکثر خواتین وحضرات کو بھاؤ تاؤ کرنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔کئی لوگ تو میکڈونلڈز والے سے بھی برگر کا ریٹ کم کروانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، اللہ دتہ برگر والا تو اس سے آدھی قیمت میں دے رہا ہے۔یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہر چیز پر پرائس ٹیگ ہوتا ہے۔ گاہک اپنی مرضی کی چیز پسند کرتا ہے اور کاؤنٹر پر ٹیگ کے حساب سے قیمت ادا کرکے چلا جاتا ہے۔کوئی بھاؤ کروانے کے چکر میں نہیں پڑتا کیونکہ ریٹ سب کے لیئے ایک ہی ہوتا ہے۔وہاں مالز میں کیمرے بھی لگے ہوتے ہیں لیکن لوگ اخلاقی طور پر چوری کو برا سمجھتے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ میں ایک چور نے شاپنگ مال سے ایک پینٹ چرالی اور ایک نوٹ چھوڑا جس پر لکھا تھا سوری میں نے پینٹ چرائی، لیکن میرے پاس پہننے کے لیئے کپڑے نہیں تھے۔خیر چھوڑیں یہ تو امریکہ کی بات ہے اس سے ہمارا کیا موازنہ، ہمارے ہاں قومی خزانے کی چوری کرنے والا پکڑا جائے تووہ بھی شرمندہ ہونے کے بجائے جلسے شروع کر دیتا ہے۔
ہمارے ہاں شاپنگ کرتے ہوئے یہ اصول مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر دکاندار آپ کو بھائی بہن یا کسی اور رشتے سے بلانے کی کوشش کرے تو سمجھ جائیں وہ آپ سے خوب کمائی کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں کو نبھانے کے بجائے استعمال کرنے کا ذیادہ رواج ہے۔ایسی صورتحال میں وہاں شاپنگ سے گریز کریں۔ کچھ دکاندار حضرات آپ کو دیکھتے ہی جوس وغیرہ کا آرڈر دے دیتے ہیں اور اکثر گاہک اس کو دکاندار کی خوش اخلاقی سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ جوس پلا کرآپ کو مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ ان کی دکان سے ہی خریداری کریں، چاہے آپ کو چیز پسند آئے یا نہ آئے اور ریٹ چاہے جتنا بھی ہو۔
ہمارے ہاں یہ بھی رجحان ہے کہ جب بھی آپ کسی کو خریدی ہوئی چیز دکھاتے ہیں اور اس کی زیادہ قیمت بتاتے ہیں تودیکھنے والا اس سے مرعوب ہو کر اس کی کوالٹی کا معترف ہو جاتا ہے۔ لیکن جب آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ میں نے کتنی کم قیمت میں یہ چیز لی ہے تو وہ آپ کو یہ بتا کر پریشان کر دیتا ہے کہ آپ نے مہنگی لی ہے،اور وہ اس سے اچھی کوالٹی کی چیز اس سے کم قیمت میں لے دیتا۔
آج کل ہمارے ہاں آن لائن شاپنگ بھی مقبول ہو رہی ہے۔آن لائن شاپنگ کرنے والی اکثریت بھی خواتیں کی ہی ہوتی ہے جو ویب سائٹس پر پراڈکٹ کی تصویریں دیکھ کر آرڈر کر دیتی ہیں اورفورا اپنی سہیلیوں کو آگاہ کرنا نہیں بھولتیں کہ میں نے فلاں چیز آرڈر کی ہے۔کیونکہ اب آن لائن شاپنگ کو بھی سٹیٹس سمبل سمجھا جانے لگا ہے۔ پارسل ملنے پر اکثر اوقات چیز اس قابل نہیں ہوتی کہ اس کو استعمال کیا جا سکے ، اورپراڈکٹ کی تبدیلی یا واپسی تقریبا ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ لیکن خواتین کے لیئے اس سے ذیادہ پریشانی اس بات کی ہوتی ہے کہ اب سہیلیوں کو کیا بتایا جائے۔
میرا ایک دوست جب بھی شاپنگ مال میں جاتا ہے تو فلمز سیکشن میں ضرور جاتاہے لیکن میں نے آج تک اس کو کوئی فلم خریدتے نہیں دیکھا۔ میں نے پوچھا تمہیں فلمیں دیکھنے کا شوق ہے تو تم فلمیں خریدتے کیوں نہیں، بلاوجہ وہاں ٹائم کیوں ضائع کرتے ہو۔ وہ بولا میں فلمز سیکشن میں اس لیئے جاتا ہوں تاکہ نئی ہٹ فلموں کے نام دیکھ سکوں، جومیں گھر آ کر انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لیتا ہوں۔میں نے کہا کیا یہ چوری نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا، مجھے امریکی اور انڈین فلمیں پسند ہیں، اور میں نہیں چاہتا کہ دشمن ممالک کی فلمیں خرید کر ان کو فائدہ پہنچاؤں۔میں نے سوچا جس چیز میں ہمارہ فائدہ ہو اس کے حق میں ہم دلیل خود ہی بنا لیتے ہیں۔چلیں اب تک کے لیئے اتنا ہی، مجھے اپنے دوست سے نئی فلمیں کاپی کرنے بھی جانا ہے۔کیونکہ چوری تو اس نے کی، میں تو بس اس سے کاپی کروں گا۔
Source: http://www.dunyapakistan.com/82682/دیسی-شاپنگ/
تحریر: عابد حسن
ایک گورا اپنی بیوی کے ساتھ سٹور میں گیا اور ایک شراب کی بوتل شاپنگ ٹرالی میں رکھی، بیوی نے فورا نکال کر واپس رکھ دی اور کہا کہ فضول خرچی کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد بیوی نے ایک فیس کریم ٹرالی میں رکھی تو شوہر نے پوچھا کیا یہ فضول خرچی نہیں؟ بیوی نے جواب دیا یہ کریم لگانے سے میں تمہیں خوبصورت نظرآؤں گی۔ میں جب شراب پی کر تمہیں دیکھتا ہوں تب بھی تم مجھے خوبصورت دکھائی دیتی ہو، شوہر نے جواب دیا۔
شاپنگ ہمیشہ سے خواتین کی کمزوری رہی ہے۔ ہمارے ہاں شوہر بیوی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، لیکن بیگم کی خریدی ہوئی چیزوں کا بل دیکھ کر ان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ فائدے کے بجائے الٹا نقصان کروا بیٹھے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ شادی ایک ورکشاپ کی طرح ہوتی ہے، جس میں شوہر ورک کرتا ہے اور بیوی ہمیشہ شاپ کرتی ہے۔
ہمارے ہاں اکثر خواتین کوئی چیز اس لیئے نہیں خریدتیں کہ ان کو اس کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ اس لیئے کہ وہ سیل پر ہوتی ہے۔سیل پر خریدی ہوئی چیزیں اکثر اوقات پڑی پڑی خراب ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔مردعموما صرف ضرورت کی چیز کے لیئے ہی شاپنگ کے لیئے جاتے ہیں، اور خواتین اس لیئے جاتی ہیں کہ دیکھ سکیں ان کو کس چیز کی ضرورت ہے۔کچھ مرد شاپنگ مالز میں اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کرچل رہے ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں تو یہ کافی رومانٹک نظر آتا ہے لیکن رومانس کا اس سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا، در حقیقت وہ اپنی بیویوں کی فضول خرچی کنڑول کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ بالآخر جیب تو ان کی ہی خالی ہونی ہوتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ، خواتین کی عمر اس لیئے بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ شاپنگ کرنے سے کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا، بلکہ بل دینے سے ہوتا ہے۔اب جان بچانے کے لیئے مرد اگرتھوڑی سی چیٹنگ کر لیتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
اگر آپ کو کسی شاپنگ سنٹر میں کوئی اکیلا مرد موبائل پر گیمز کھیلتا نظر آئے تو سمجھ لیں اس کی بیوی شاپنگ میں مصروف ہے۔ بعض اوقات شاپنگ کے دوران بچوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی شوہر کو دے دی جاتی ہے تاکہ بیوی مکمل خشوع وخضوع کے ساتھ خریداری کر سکے۔لیکن یہ شوہروں پر دہرے ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔اکثر بچے شاپنگ مال پہنچتے ہی تمام اخلاق اور لحاظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی اودھم مچاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کچھ بچوں پر دیوانہ وار بھاگنے کا جنون سوار ہو جاتا ہے اور وہ تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ چوٹ کھا کر گر نہ جائیں۔اسی لیئے کئی شوہر بیگم سے یہ درخواست کرتے پائے جاتے ہیں کہ چاہے دو کے بجائے تین گھنٹے لگا لو، لیکن بچوں کو ساتھ لے جاؤ۔لیکن بیگم اکثر اس درخواست کو رد کرتے ہوئے بچوں کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے لیکن واپس پھر بھی سوا تین گھنٹے بعد ہی آتی ہے اور یہ احسان جتلاتی ہے کہ تم نے ہی تین گھنٹے کا کہا تھا میری شاپنگ تو آدھے گھنٹے میں ختم ہو گئی تھی۔
ہمارے ہاں اکثر خواتین وحضرات کو بھاؤ تاؤ کرنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے۔کئی لوگ تو میکڈونلڈز والے سے بھی برگر کا ریٹ کم کروانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، اللہ دتہ برگر والا تو اس سے آدھی قیمت میں دے رہا ہے۔یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہر چیز پر پرائس ٹیگ ہوتا ہے۔ گاہک اپنی مرضی کی چیز پسند کرتا ہے اور کاؤنٹر پر ٹیگ کے حساب سے قیمت ادا کرکے چلا جاتا ہے۔کوئی بھاؤ کروانے کے چکر میں نہیں پڑتا کیونکہ ریٹ سب کے لیئے ایک ہی ہوتا ہے۔وہاں مالز میں کیمرے بھی لگے ہوتے ہیں لیکن لوگ اخلاقی طور پر چوری کو برا سمجھتے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکہ میں ایک چور نے شاپنگ مال سے ایک پینٹ چرالی اور ایک نوٹ چھوڑا جس پر لکھا تھا سوری میں نے پینٹ چرائی، لیکن میرے پاس پہننے کے لیئے کپڑے نہیں تھے۔خیر چھوڑیں یہ تو امریکہ کی بات ہے اس سے ہمارا کیا موازنہ، ہمارے ہاں قومی خزانے کی چوری کرنے والا پکڑا جائے تووہ بھی شرمندہ ہونے کے بجائے جلسے شروع کر دیتا ہے۔
ہمارے ہاں شاپنگ کرتے ہوئے یہ اصول مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر دکاندار آپ کو بھائی بہن یا کسی اور رشتے سے بلانے کی کوشش کرے تو سمجھ جائیں وہ آپ سے خوب کمائی کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں کو نبھانے کے بجائے استعمال کرنے کا ذیادہ رواج ہے۔ایسی صورتحال میں وہاں شاپنگ سے گریز کریں۔ کچھ دکاندار حضرات آپ کو دیکھتے ہی جوس وغیرہ کا آرڈر دے دیتے ہیں اور اکثر گاہک اس کو دکاندار کی خوش اخلاقی سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ جوس پلا کرآپ کو مجبور کر دیتے ہیں کہ آپ ان کی دکان سے ہی خریداری کریں، چاہے آپ کو چیز پسند آئے یا نہ آئے اور ریٹ چاہے جتنا بھی ہو۔
ہمارے ہاں یہ بھی رجحان ہے کہ جب بھی آپ کسی کو خریدی ہوئی چیز دکھاتے ہیں اور اس کی زیادہ قیمت بتاتے ہیں تودیکھنے والا اس سے مرعوب ہو کر اس کی کوالٹی کا معترف ہو جاتا ہے۔ لیکن جب آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ میں نے کتنی کم قیمت میں یہ چیز لی ہے تو وہ آپ کو یہ بتا کر پریشان کر دیتا ہے کہ آپ نے مہنگی لی ہے،اور وہ اس سے اچھی کوالٹی کی چیز اس سے کم قیمت میں لے دیتا۔
آج کل ہمارے ہاں آن لائن شاپنگ بھی مقبول ہو رہی ہے۔آن لائن شاپنگ کرنے والی اکثریت بھی خواتیں کی ہی ہوتی ہے جو ویب سائٹس پر پراڈکٹ کی تصویریں دیکھ کر آرڈر کر دیتی ہیں اورفورا اپنی سہیلیوں کو آگاہ کرنا نہیں بھولتیں کہ میں نے فلاں چیز آرڈر کی ہے۔کیونکہ اب آن لائن شاپنگ کو بھی سٹیٹس سمبل سمجھا جانے لگا ہے۔ پارسل ملنے پر اکثر اوقات چیز اس قابل نہیں ہوتی کہ اس کو استعمال کیا جا سکے ، اورپراڈکٹ کی تبدیلی یا واپسی تقریبا ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ لیکن خواتین کے لیئے اس سے ذیادہ پریشانی اس بات کی ہوتی ہے کہ اب سہیلیوں کو کیا بتایا جائے۔
میرا ایک دوست جب بھی شاپنگ مال میں جاتا ہے تو فلمز سیکشن میں ضرور جاتاہے لیکن میں نے آج تک اس کو کوئی فلم خریدتے نہیں دیکھا۔ میں نے پوچھا تمہیں فلمیں دیکھنے کا شوق ہے تو تم فلمیں خریدتے کیوں نہیں، بلاوجہ وہاں ٹائم کیوں ضائع کرتے ہو۔ وہ بولا میں فلمز سیکشن میں اس لیئے جاتا ہوں تاکہ نئی ہٹ فلموں کے نام دیکھ سکوں، جومیں گھر آ کر انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لیتا ہوں۔میں نے کہا کیا یہ چوری نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا، مجھے امریکی اور انڈین فلمیں پسند ہیں، اور میں نہیں چاہتا کہ دشمن ممالک کی فلمیں خرید کر ان کو فائدہ پہنچاؤں۔میں نے سوچا جس چیز میں ہمارہ فائدہ ہو اس کے حق میں ہم دلیل خود ہی بنا لیتے ہیں۔چلیں اب تک کے لیئے اتنا ہی، مجھے اپنے دوست سے نئی فلمیں کاپی کرنے بھی جانا ہے۔کیونکہ چوری تو اس نے کی، میں تو بس اس سے کاپی کروں گا۔

Source: http://www.dunyapakistan.com/82682/دیسی-شاپنگ/
Last edited by a moderator: