jani1
Chief Minister (5k+ posts)
دہشت گرد ۔۔..Dehshath Gard..
دہشت گرد ۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:جانی۔
بس تو وہی تھی جو میری روٹین کی تھی مگر کُچھ تو تھا جو روزانہ کی روٹین سے ہٹ کر تھا۔ شاید بس کا ڈرائیور۔ آج میں جس ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کا حُلیہ ۔عُمر و انداز پُرانے ڈرائیورسے مُختلف تھا۔ بکھری سی داڑھی و لمبے سے بال ۔یوں لگتا تھا جیسے کنگھی کو ان کے قریب سے گُزارے زمانہ گُزر گیا ہو ۔اور کُھلے آستین و گریبان۔جبکہ پُرانہ ڈرائیور ایک سُلجھا ہوا اور شریف انسان دکھتا تھا۔.
بس ڈرائیور کے علاوہ ایک اور شخص تھا جو میری توجہ کا مرکز بنا۔خُوبصُورت کالے تری پیس سُوٹ میں ملبُوس اس کلین شیوشخص کے بال خُوبصورتی سے بنائے گئے تھے اور اپنی کھڑی ناک پراُس نے کالاچشمہ رکھا تھا۔اس کے علاوہ چمک دار جوتوں کے قریب ایک کالے رنگ کا بریف کیس نُما بیگ رکھا ہوا تھا۔ مُجھ سے ایک نشست آگے کو بیٹھے اس شخص کو دیکھ مُجھے کُچھ عجیب سا لگا۔کیونکہ جو اُس کا حُلیہ تھا اُس حساب سے تو اُسے کم از کم کسی ہونڈائی اکارڈ یا ٹویوٹا کرولا میں ہونا چاہیئے تھا۔مگر یہ یہاں اس پٹیچر سے بس میں سفر کر رہا تھا۔
بس کُچھ دیر رینگتی رہی اور آخر میری منزل آ ہی گئی۔میں نے مکرانی کنڈیکٹر کو اشارہ کیا تو اُس نے پہلے تو زور سے دروازے پر ہاتھ مارا اور پھر پان کی پچکاری سے ایک راہگیر کو کمال مہارت سے رنگے جانے سے بچایا اور پھر۔۔روک کے اُستاد ۔۔کی سدا بُلند کی۔ اس کے ساتھ ہی بس ایک جھٹکے سے رُکی۔
جیسے ہی میں نے بس سے نیچھے قدم رکھا تو اگلے دروازے سے اُس سُوٹ بُوٹ والے کو بھی نیچھے اُترتے دیکھا۔۔مگر اُس کے ہاتھ میں کوئی بریف کیس نہیں تھا۔۔میں سمجھا شاید وہ اُسے بس میں ہی بھُول آیا ہوگا۔ ۔ابھی میں آگے کو بڑھنے ہی لگا تھا کہ اس سوٹ والے نے میری توجہ اپنی جانب کرائی۔ اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک ریموٹ نُما آلہ نکال کر۔۔
اُس نے ابھی اُس ریموٹ کے اینٹینے کو سیدھا ہی کیا تھا کہ ۔۔ عقب سےاچانک نُمودار ہوتے دو افراد میں سے ایک نے اُس کو پیچھے سے دبوچا اور دُوسرے نے اُس کے ہاتھ سے ریموٹ کو ایک تیز اور برقی قسم کی لات سے دور گرایا۔۔
بس جو کہ کُچھ دُور ہی گئی تھی کہ ایک دم سے رُکی۔ اور اُس کو چاروں اطراف سے پولیس اور خفیہ اداروں کی گاڑیوں نے گھیرا۔ اتنے میں اُس بس کا آوارہ قسم کا ڈرائیور بھی تقریبا دوڑ لگاتے اسی طرف آنے لگا۔۔جس طرف اُس سُوٹ بُوٹ والےکو دبوچا گیا تھا۔یہ سب کُچھ اتنی تیزی سے ہورہا تھا کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔۔
میں کہانی کو تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی دہشت گردی کی کاروائی ہے اور یہ ڈرائیور یقینا اس مُبینہ دہشت گرد کا ساتھی ہے جو اسے بچانے آرہا ہے۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے وہاں تھوڑی دیر میں جمع ہونے والے سیکیوریٹی اہل کاروں کو آواز لگائی کہ ۔۔ ارے دیکھو وہ ادھر ہی آرہا ہےاپنے ساتھی کو بچانے ۔۔
مگر اگلے ہی لمحے مُجھے شرمندگی سی ہوئی جب وہاں موجُود اہل کاروں کو اُس میلے کُچیلے داڑھی والے ڈرائیورکو سلیوٹ مارتے دیکھا۔۔
یہ خُفیہ اداروں کی طرف سے ایک مُنظم قسم کی کاروائی تھی۔جسے انتہائی خُفیہ طریقے سے سرانجام دیا گیا تھا۔وہ اس کلین شیو دہشت گرد کا پیچھا بڑے عرصے سے کر رہے تھے کہ آج رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔۔اور وہ میلا سا بکھری ہوئی داڑھی والا اس مشن کو لیڈ کر رہا تھا۔۔
یہ سب دیکھنے کے بعد۔میں نے پہلے تو اللہ کا شُکر ادا کیا کہ اُس نے جان سلامت رکھی۔ اور پھر یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھا کہ۔ کیا وقت آگیا ہے۔ جب داڑھی جو کہ مزہب اور بُزرگی کی نشانی ہوتی تھی ۔ کو رکھنے والے کو دہشت گرد مانا جاتا ہے اور کلین شیو جسے کرنے کے لیئے ایک زمانے میں اچھی خاصی ہمت درکار ہوتی تھی کیونکہ لوگ مزاق اُڑاتے تھے۔۔ کو بروڈ مائنڈڈ و لبرل مانا جاتا ہے۔ جبکہ ہر کلین شیو والا بروڈ مائنڈ والا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر داڑھی والا دہشت گرد۔۔
جس طرح سارےکراچی والے چند دہشت گردوں کی وجہ سے دہشت گرد نہیں بن جاتے اُسی طرح چندمسلح تنظیموں کی وجہ سے سارے بلوچی غدار نہیں بن جاتے۔۔ جس طرح پنجاب میں کئی قسم کی لشکری تنظیموں کی وجہ سے سارے پنجابی دہشت گرد نہیں بن جاتے بالکُل اُسی طرح قبائلی علاقوں میں طالبان یا دہشتگردوں کے ہونے سے پُورے مُلک کے پٹھان دہشت گرد نہیں بن جاتے۔
سب سے آخر اور اہم بات ۔کسی ایک مُلک یا گروہ کی دہشت گردی سے سارے جہاں کے مُسلمان بھی دہشت گرد نہیں بن جاتے۔۔
بس تو وہی تھی جو میری روٹین کی تھی مگر کُچھ تو تھا جو روزانہ کی روٹین سے ہٹ کر تھا۔ شاید بس کا ڈرائیور۔ آج میں جس ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کا حُلیہ ۔عُمر و انداز پُرانے ڈرائیورسے مُختلف تھا۔ بکھری سی داڑھی و لمبے سے بال ۔یوں لگتا تھا جیسے کنگھی کو ان کے قریب سے گُزارے زمانہ گُزر گیا ہو ۔اور کُھلے آستین و گریبان۔جبکہ پُرانہ ڈرائیور ایک سُلجھا ہوا اور شریف انسان دکھتا تھا۔.
بس ڈرائیور کے علاوہ ایک اور شخص تھا جو میری توجہ کا مرکز بنا۔خُوبصُورت کالے تری پیس سُوٹ میں ملبُوس اس کلین شیوشخص کے بال خُوبصورتی سے بنائے گئے تھے اور اپنی کھڑی ناک پراُس نے کالاچشمہ رکھا تھا۔اس کے علاوہ چمک دار جوتوں کے قریب ایک کالے رنگ کا بریف کیس نُما بیگ رکھا ہوا تھا۔ مُجھ سے ایک نشست آگے کو بیٹھے اس شخص کو دیکھ مُجھے کُچھ عجیب سا لگا۔کیونکہ جو اُس کا حُلیہ تھا اُس حساب سے تو اُسے کم از کم کسی ہونڈائی اکارڈ یا ٹویوٹا کرولا میں ہونا چاہیئے تھا۔مگر یہ یہاں اس پٹیچر سے بس میں سفر کر رہا تھا۔
بس کُچھ دیر رینگتی رہی اور آخر میری منزل آ ہی گئی۔میں نے مکرانی کنڈیکٹر کو اشارہ کیا تو اُس نے پہلے تو زور سے دروازے پر ہاتھ مارا اور پھر پان کی پچکاری سے ایک راہگیر کو کمال مہارت سے رنگے جانے سے بچایا اور پھر۔۔روک کے اُستاد ۔۔کی سدا بُلند کی۔ اس کے ساتھ ہی بس ایک جھٹکے سے رُکی۔
جیسے ہی میں نے بس سے نیچھے قدم رکھا تو اگلے دروازے سے اُس سُوٹ بُوٹ والے کو بھی نیچھے اُترتے دیکھا۔۔مگر اُس کے ہاتھ میں کوئی بریف کیس نہیں تھا۔۔میں سمجھا شاید وہ اُسے بس میں ہی بھُول آیا ہوگا۔ ۔ابھی میں آگے کو بڑھنے ہی لگا تھا کہ اس سوٹ والے نے میری توجہ اپنی جانب کرائی۔ اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک ریموٹ نُما آلہ نکال کر۔۔
اُس نے ابھی اُس ریموٹ کے اینٹینے کو سیدھا ہی کیا تھا کہ ۔۔ عقب سےاچانک نُمودار ہوتے دو افراد میں سے ایک نے اُس کو پیچھے سے دبوچا اور دُوسرے نے اُس کے ہاتھ سے ریموٹ کو ایک تیز اور برقی قسم کی لات سے دور گرایا۔۔
بس جو کہ کُچھ دُور ہی گئی تھی کہ ایک دم سے رُکی۔ اور اُس کو چاروں اطراف سے پولیس اور خفیہ اداروں کی گاڑیوں نے گھیرا۔ اتنے میں اُس بس کا آوارہ قسم کا ڈرائیور بھی تقریبا دوڑ لگاتے اسی طرف آنے لگا۔۔جس طرف اُس سُوٹ بُوٹ والےکو دبوچا گیا تھا۔یہ سب کُچھ اتنی تیزی سے ہورہا تھا کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔۔
میں کہانی کو تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی دہشت گردی کی کاروائی ہے اور یہ ڈرائیور یقینا اس مُبینہ دہشت گرد کا ساتھی ہے جو اسے بچانے آرہا ہے۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے وہاں تھوڑی دیر میں جمع ہونے والے سیکیوریٹی اہل کاروں کو آواز لگائی کہ ۔۔ ارے دیکھو وہ ادھر ہی آرہا ہےاپنے ساتھی کو بچانے ۔۔
مگر اگلے ہی لمحے مُجھے شرمندگی سی ہوئی جب وہاں موجُود اہل کاروں کو اُس میلے کُچیلے داڑھی والے ڈرائیورکو سلیوٹ مارتے دیکھا۔۔
یہ خُفیہ اداروں کی طرف سے ایک مُنظم قسم کی کاروائی تھی۔جسے انتہائی خُفیہ طریقے سے سرانجام دیا گیا تھا۔وہ اس کلین شیو دہشت گرد کا پیچھا بڑے عرصے سے کر رہے تھے کہ آج رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔۔اور وہ میلا سا بکھری ہوئی داڑھی والا اس مشن کو لیڈ کر رہا تھا۔۔
یہ سب دیکھنے کے بعد۔میں نے پہلے تو اللہ کا شُکر ادا کیا کہ اُس نے جان سلامت رکھی۔ اور پھر یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھا کہ۔ کیا وقت آگیا ہے۔ جب داڑھی جو کہ مزہب اور بُزرگی کی نشانی ہوتی تھی ۔ کو رکھنے والے کو دہشت گرد مانا جاتا ہے اور کلین شیو جسے کرنے کے لیئے ایک زمانے میں اچھی خاصی ہمت درکار ہوتی تھی کیونکہ لوگ مزاق اُڑاتے تھے۔۔ کو بروڈ مائنڈڈ و لبرل مانا جاتا ہے۔ جبکہ ہر کلین شیو والا بروڈ مائنڈ والا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر داڑھی والا دہشت گرد۔۔
جس طرح سارےکراچی والے چند دہشت گردوں کی وجہ سے دہشت گرد نہیں بن جاتے اُسی طرح چندمسلح تنظیموں کی وجہ سے سارے بلوچی غدار نہیں بن جاتے۔۔ جس طرح پنجاب میں کئی قسم کی لشکری تنظیموں کی وجہ سے سارے پنجابی دہشت گرد نہیں بن جاتے بالکُل اُسی طرح قبائلی علاقوں میں طالبان یا دہشتگردوں کے ہونے سے پُورے مُلک کے پٹھان دہشت گرد نہیں بن جاتے۔
سب سے آخر اور اہم بات ۔کسی ایک مُلک یا گروہ کی دہشت گردی سے سارے جہاں کے مُسلمان بھی دہشت گرد نہیں بن جاتے۔۔
Last edited: