میں مس علی کے بیانات سے متفق ہوں اور ان کے خیالات پر ان کا شکریہ ادا کر تا ہوں۔
صرف متفق آپ کو تو بہت خوش ہونا چاہیے
ہم یو۔ اس۔ سنٹرل کمانڈ سے طالبان اور ان کی دہشت اور تشددکے بارے میں کافی دنوں سے لکھ رہے ہیں۔ وہ بغیر کسی ندامت کے قتل کرتے ہیں۔
آپکو کبھی ڈرون حملوں میں بے گھناہ مرنے والوں کی ندامت ہوئی
ہم سبھی اس خبرسے واقف ہیں، کچھ ہفتے پہلے ایک ۷ سالہ افغان بچے کو طالبان کے ظالموں نے سر عام پھا نسی دے دی تھی صرف اس لیے کہ ان کو شک تھا کہ اس بچے کے والدین "جاسوس" ہیں۔ شاید ان کا جرم اتنا تھا کہ انھوں نے ہمت کر کے دنیا کو طالبان کے مظا لم کے بارے میں بتانا چاہاہوگا یا پھر ان کے پاس ریڈیواور سيل فون ہو گا جوکہ اطلاعات کی آزادانہ ترسیل کی علامت ہے۔ اور ان کو وہ بھی گوارہ نہ تھا۔ وہ کمسن بچوں کو خودکش حملوں کے لیےاستمال کرتے رہے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے پاکستان حکام نے ایک بچہ پکڑا تھا اوراس نے بتایا تھا کہ اس کے ساتھ 6 اور بچوں کی وزیرستان میں تربیت کی گئی تھی تاکہ وہ پشاور کے علاقے میں جاکرتباہی مچاے۔ ایک حال ہی کی کہانی مینا کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ بی۔ بی۔ سی کی بنائ ہوئ یہ وڈیودیکھیں۔ اس کہانی میں مینا نے طالبان کی بربریت کی داستان بیان کی ہے۔
چاہے وہ ٹی۔ ٹی۔ پی ہو یا افغان طالبان ہوں، ان کا ايجنڈا خوف پھيلانا، تباہی مچانا اور موت ہے۔ وہ اپنا موت اورتباہی کا قانون رايج کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر آپ ان لوگوں سے پوچھيں گے جن کے عزيزواقارب لاتعداد دہشتگرد حملوں میں مارے گئے ہیں۔ ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے۔ طالبان کوروکنا ضروری ہے اور ان کے تشدد کے نیٹ ورک کو توڑنا بھی تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیےاس دنیا کوبہترکردیں۔ یہی ہم پاکستان اور افغانستان کے افواج کے ساتھ مل کر کررہے ہیں۔
طالبان کو آپ یا تو ایٹم بم مر کر ختم کر سکتے ہیں یا مسلمان ممالک مل کر ان کو سمجھا سکتے ہے آپ کے لئے بہتر ہو گا کہ آپ اپنی اکانومی کی طرف توجہ دیں اور غیر جانبدار لوگوں کو طالبان کا مسلہ ختم کرنے دیں
رازوان خان
ڈی ای ٹی