پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے کیس میں جسٹس امین اور جسٹس نعیم نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، ایسا فیصلہ جو آئین کے مطابق نہ ہو کوئی بھی آئینی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں، 80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔
اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ریاستی ادارہ ایسے عدالتی حکم کا پابند نہیں جو آئین سے مطابقت نہ رکھتا ہو جس پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں تحریک انصاف کرے تو بغاوت کے کیسز بن جاتے ہیں، کیا ججز ایساکہہ کر الیکشن کمیشن اور حکومت کو فیصلے پر عمل نہ کرنیکی ترغیب دے رہے ہیں؟
محمد عمیر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ان دو ججز کی قابلیت چیک کریں کہ انہوں نے ان شواہد کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا جو سماعت میں سامنے آئے کہ 39 لوگوں نے حلف نامے اور سرٹیفکیٹ دونوں دئیے مگر ان کو بھی آزاد بنادیا گیا۔ وہ آزاد نہ بنائے جاتے تو تحریک انصاف پارلیمان میں ہوتی انکی لسٹیں بھی جمع تھیں تو باقی 41 بھی جوائن کرلیتے۔ یہ سادہ بات ان دو ججز کو کیوں سمجھ نہیں آرہی؟
مطیع اللہ جان نے تفصیلی تجزیہ دیتے ہوئے لکھا کہ اقلیت میں یہ دونوں جج اکثریتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کر کے حکومتی ادارے کو سنگین غداری کے مرتکب ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ یہ نااہلی کی انتہا ہے۔ یہ کالے کوٹ میں سیاہ تل ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ یہ ایک گندا عدالتی ذہن ہے جو عدالتی بددیانتی کی حدود سے بہت آگے جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کو افغانستان میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ کیا چیف جسٹس ایسے ظالمانہ عدالتی رویے کی حمایت کر سکتے ہیں؟ اگر اقلیتوں کے اس طرح کے فیصلوں کو اکثریتی نہیں بلکہ اداروں نے نافذ کرنا ہے تو مشرف کیس میں جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے پر بھی عمل در آمد ہونا چاہیے۔
حسنات ملک نے تبصرہ کیا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت کو واضح پیغام:دو اقلیتی ججوں کا موقف ہے کہ عدالت کا کوئی حکم جو نہیں ہے۔آئینی دفعات کے مطابق ریاست کے کسی دوسرے آئینی ادارے کا پابند نہیں ہے۔
صحافی سہیل رشید کا کہنا تھا کہ کوئی ریاستی ادارہ ایسے عدالتی حکم کا پابند نہیں جو آئین سے مطابقت نہ رکھتا ہو، سپریم کورٹ کے دو جج آٹھ ججوں کے فیصلے پر ریاست کو عمل نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے
ثمینہ پاشا نے سوال اٹھایا کہ یہ اختلافی نوٹ ہے یا لیگی وزیروں کی پریس کانفرنس کا ٹرانسکرپٹ؟
اسد طور نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ اختلافی نوٹ اور جعلی نوٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
راجہ محسن اعجاز نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بغاوت کے مشورے ( نوٹ ) کا سلسلہ انتخابات کیس سے شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔
وسیم ملک نے ردعمل دیا کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا "تاریخی" تفصیلی اقلیتی فیصلے کی وجوہات چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ مخصوص نشستوں پر 8 ججز کا اکثریتی فیصلہ بلکل درست تھا !
وسیم ملک کا مزید کہنا تھا کہ دو جج صاحبان کے اقلیتی فیصلے کے 29 صفحات میں وہی عمومی باتیں لکھی گئی ہیں جو حکمران اتحاد پریس کانفرنسز، ٹاک شوز میں متعدد مرتبہ کرچکا، بہتر ہوتا فیصلے میں یہ بتایا جاتا کہ آئین کے آرٹیکل 51 / متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو اضافی کیسے دی جاسکتی ہیں؟
سعید بلوچ نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سپریم کورٹ کے یہ دو جج صاحبان ریاستی اداروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر اکسا رہے ہیں جو آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے، آئین کا آرٹیکل چھ بہت واضح ہے کوئی بھی شخص کو آئین کی تنسیخ کرے/تخریب کرے/معطل کرے/ التوا میں رکھے وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا جس پر آرٹیکل چھ لگے گا، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ بھی آئین شکنی کو جائز قرار نہیں دے سکے گی
سعید بلوچ نے مزید کہا کہ میری رائے میں اس سطحی نوٹ کے بعد جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان سپریم کورٹ کے جج رہنے کے اہل نہیں رہے
اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ آج دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں جو یہ تحریر کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا غیر آئینی فیصلہ نہ مانیں تو یہ فیصلہ خود آئین کے آرٹیکل 190 کی خلاف ورزی ہے اور اداروں کو سپریم کورٹ کے خلاف اکسانا ہے جو ایک مس کنڈکٹ ہے اور آئین سے بغاوت ہے ،ایک شخص کی ایکسٹنسن کے لئیے یہ ملک کو داؤ پر لگانا ہے
سحرش مان کا کہنا تھا کہ اختلاف والے جج اپنے اختلافی نوٹ میں فارم سنتالیس والی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے اس حد چلے گئے ہیں کہ باقاعدہ طور پر اداروں کو سنگین غداری کا مرتکب ہونے کے لئے اکسا رہے ہیں۔