دو ججز کے اختلافی نوٹ پر صحافیوں کا ردعمل۔۔فیصلے پر شدید تنقید

sociah1h1m12.jpg

پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے کیس میں جسٹس امین اور جسٹس نعیم نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا

سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، ایسا فیصلہ جو آئین کے مطابق نہ ہو کوئی بھی آئینی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں، 80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا موقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔

اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ریاستی ادارہ ایسے عدالتی حکم کا پابند نہیں جو آئین سے مطابقت نہ رکھتا ہو جس پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا۔سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں تحریک انصاف کرے تو بغاوت کے کیسز بن جاتے ہیں، کیا ججز ایساکہہ کر الیکشن کمیشن اور حکومت کو فیصلے پر عمل نہ کرنیکی ترغیب دے رہے ہیں؟

محمد عمیر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ان دو ججز کی قابلیت چیک کریں کہ انہوں نے ان شواہد کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا جو سماعت میں سامنے آئے کہ 39 لوگوں نے حلف نامے اور سرٹیفکیٹ دونوں دئیے مگر ان کو بھی آزاد بنادیا گیا۔ وہ آزاد نہ بنائے جاتے تو تحریک انصاف پارلیمان میں ہوتی انکی لسٹیں بھی جمع تھیں تو باقی 41 بھی جوائن کرلیتے۔ یہ سادہ بات ان دو ججز کو کیوں سمجھ نہیں آرہی؟
https://twitter.com/x/status/1819730437293461842
مطیع اللہ جان نے تفصیلی تجزیہ دیتے ہوئے لکھا کہ اقلیت میں یہ دونوں جج اکثریتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کر کے حکومتی ادارے کو سنگین غداری کے مرتکب ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ یہ نااہلی کی انتہا ہے۔ یہ کالے کوٹ میں سیاہ تل ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ یہ ایک گندا عدالتی ذہن ہے جو عدالتی بددیانتی کی حدود سے بہت آگے جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کو افغانستان میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
https://twitter.com/x/status/1819769104888389975
مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ کیا چیف جسٹس ایسے ظالمانہ عدالتی رویے کی حمایت کر سکتے ہیں؟ اگر اقلیتوں کے اس طرح کے فیصلوں کو اکثریتی نہیں بلکہ اداروں نے نافذ کرنا ہے تو مشرف کیس میں جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے پر بھی عمل در آمد ہونا چاہیے۔

حسنات ملک نے تبصرہ کیا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت کو واضح پیغام:دو اقلیتی ججوں کا موقف ہے کہ عدالت کا کوئی حکم جو نہیں ہے۔آئینی دفعات کے مطابق ریاست کے کسی دوسرے آئینی ادارے کا پابند نہیں ہے۔
https://twitter.com/x/status/1819723613072757134
صحافی سہیل رشید کا کہنا تھا کہ کوئی ریاستی ادارہ ایسے عدالتی حکم کا پابند نہیں جو آئین سے مطابقت نہ رکھتا ہو، سپریم کورٹ کے دو جج آٹھ ججوں کے فیصلے پر ریاست کو عمل نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے
https://twitter.com/x/status/1819726985016537513
ثمینہ پاشا نے سوال اٹھایا کہ یہ اختلافی نوٹ ہے یا لیگی وزیروں کی پریس کانفرنس کا ٹرانسکرپٹ؟
https://twitter.com/x/status/1819772435035836438
اسد طور نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ اختلافی نوٹ اور جعلی نوٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
https://twitter.com/x/status/1819790837687222539
راجہ محسن اعجاز نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے بغاوت کے مشورے ( نوٹ ) کا سلسلہ انتخابات کیس سے شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔
https://twitter.com/x/status/1819770709591347480
وسیم ملک نے ردعمل دیا کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا "تاریخی" تفصیلی اقلیتی فیصلے کی وجوہات چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ مخصوص نشستوں پر 8 ججز کا اکثریتی فیصلہ بلکل درست تھا !
https://twitter.com/x/status/1819771833165496399
وسیم ملک کا مزید کہنا تھا کہ دو جج صاحبان کے اقلیتی فیصلے کے 29 صفحات میں وہی عمومی باتیں لکھی گئی ہیں جو حکمران اتحاد پریس کانفرنسز، ٹاک شوز میں متعدد مرتبہ کرچکا، بہتر ہوتا فیصلے میں یہ بتایا جاتا کہ آئین کے آرٹیکل 51 / متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت مخصوص نشستیں حکمران اتحاد کو اضافی کیسے دی جاسکتی ہیں؟
https://twitter.com/x/status/1819745930779775475
سعید بلوچ نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سپریم کورٹ کے یہ دو جج صاحبان ریاستی اداروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر اکسا رہے ہیں جو آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے، آئین کا آرٹیکل چھ بہت واضح ہے کوئی بھی شخص کو آئین کی تنسیخ کرے/تخریب کرے/معطل کرے/ التوا میں رکھے وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا جس پر آرٹیکل چھ لگے گا، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ بھی آئین شکنی کو جائز قرار نہیں دے سکے گی
https://twitter.com/x/status/1819768161706586533
سعید بلوچ نے مزید کہا کہ میری رائے میں اس سطحی نوٹ کے بعد جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان سپریم کورٹ کے جج رہنے کے اہل نہیں رہے
https://twitter.com/x/status/1819751628548800804
اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ آج دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں جو یہ تحریر کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا غیر آئینی فیصلہ نہ مانیں تو یہ فیصلہ خود آئین کے آرٹیکل 190 کی خلاف ورزی ہے اور اداروں کو سپریم کورٹ کے خلاف اکسانا ہے جو ایک مس کنڈکٹ ہے اور آئین سے بغاوت ہے ،ایک شخص کی ایکسٹنسن کے لئیے یہ ملک کو داؤ پر لگانا ہے
https://twitter.com/x/status/1819810433932620218
سحرش مان کا کہنا تھا کہ اختلاف والے جج اپنے اختلافی نوٹ میں فارم سنتالیس والی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے اس حد چلے گئے ہیں کہ باقاعدہ طور پر اداروں کو سنگین غداری کا مرتکب ہونے کے لئے اکسا رہے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1819765299111178499
 

Citizen X

(50k+ posts) بابائے فورم
Yeah to lagta hai ke us bandar ke puttar tarrar ne likh ke diya hai.

A judicial reference should be filed against these two clowns for instigating treason and contempt of court.
 

exitonce

Chief Minister (5k+ posts)
Yeah to lagta hai ke us bandar ke puttar tarrar ne likh ke diya hai.

A judicial reference should be filed against these two clowns for instigating treason and contempt of court.
Ajj tak khabi houya hay, in harmayon ko pata hay system ka.
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
Ab PTI ko chaiye ke khud nahi but kisi aur ke zariye ek behtreen complain Supreme Judicial Council me October ki 20 ke baad daley in 2 namono ke khilaf. Qazi ke jatey hi in ko fariq karna chaiye...

Yes, that is way to deal with such agenda driven characters in the judiciary of Pakistan.