Rooh-e-Safar
Senator (1k+ posts)
دولتِ اسلامیہ ہے کیا؟
آخری وقت اشاعت: جمعرات 4 ستمبر 2014 ,* 16:47 GMT 21:47 PST
دولت اسلامی کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے
دولتِ اسلامیہ ایک شدت پسند اسلامی گروہ ہے جو گذشتہ کچھ عرصے میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں کو اپنے زیر نگیں کر چکا ہے۔
دوسری جانب دولتِ اسلامیہ کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے خلاف دنیا بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اب امریکہ بھی اس معاملے میں اپنی فوجی طاقت کے ساتھ داخل ہو چکا ہے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو مشرقی شام اور عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اقلیتی عقائد اور اقلیتی نسلوں کے افراد کے اغوا اور سرعام قتل جیسی بہیمانہ کارروائیوں کے علاوہ اب تک کئی فوجیوں اور دو صحافیوں کے سر بھی قلم کر چکے ہیں۔
دولت اسلامیہ کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے۔
اگرچہ فی الحال یہ گروہ عراق اور شام تک محدود ہے لیکن اس کا عہد ہے کہ وہ اردن اور لبنان کی سرحدوں کو مسمار کر کے فلسطین کو آزاد کرائے گا۔ دولت اسلامیہ کو دنیا بھر سے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ ہر مسلمان ان کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔
دولت اسلامیہ کا آغاز
سنہ 2010 میں جب ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو اس تنظیم کو تقویت ملی
دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے مرحوم ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے ملتی ہیں جنھوں نے سنہ 2002 میں توحید والجہاد نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔عراق پر امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کے حملے کے ایک سال بعد الزرقاوی نے اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر عراق میں القاعدہ قائم کی جو اتحادی فوجوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ثابت ہوئی۔
سنہ 2006 میں الزرقاوی کی وفات کے بعد القاعدہ فی العراق نے دولت اسلامیہ فی العراق یا آئی ایس آئی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جسے عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمائندہ تنظیم کہنا بے جا نہ ہوگا۔ امریکی افواج کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے آئی ایس آئی آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور پھر عراق کے سنی قبائل کی تنظیم سہوا کے منظر پر آنے سے آئی ایس آئی مزید ماند پڑ گئی۔
سنہ 2010 میں جب ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو اس تنظیم کو تقویت ملی اور اس کی استعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اور پھر سنہ 2013 میں یہ تنظیم دوبارہ اتنی منظم ہو گئی کہ اس نے ایک برس کے اندر اندر عراق میں درجنوں کامیاب حملے کر ڈالے۔ اس دوران آئی ایس آئی نے شام میں بشارالاسد کے خلاف جاری مزاحمت کے ساتھ روابط بنا لیے اور ایک نئی تنظیم النصرہ، بھی قائم کر لی۔
اپریل 2013 میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو یکجا کرنے کا اعلان کیا اوردولت اسلا میہ فی العراق ولشام یا داعش کے نام سے ایک بڑی تنظیم بنا لی۔ اس موقع پر النصرہ اور القاعدہ کے رہنماؤں نے البغدادی کی نئی تنظیم کو ماننے سے انکار کر دیا، لیکن النصرہ کے وہ جنگجو جو البغدادی کے حامی تھے انھوں نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی۔
سنہ 2013 کے اختتام پر داعش نے اپنی توجہ ایک مرتبہ پھر عراق پر مرکوز کر لی اور ملک کی شیعہ اکثریتی حکومت اور سنی آبادی کے درمیان موجود سیاسی تناؤ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہی وہ موقع تھا جب مقامی قبائل کی مدد سے داعش نے عراق کے مرکزی شہر فلوجہ پر قبضہ کر لیا۔ بات یہاں رکی نہیں بلکہ سنہ 2014 میں داعش کے جنگجو شمالی شہر موصل کو روندتے ہوئے بغداد کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔
داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام تبدیل کر کے دولتِ اسلامیہ رکھ لیا
اُس ایک ماہ کے دوران عراق کے درجنوں شہروں اور قصبوں پر کامیابی سے اپنی تنظیم کے جھنڈے گاڑرنے کے بعد داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام تبدیل کر کے دولتِ اسلامیہ رکھ لیا۔
دولت اسلامیہ کے زیر اثر علاقہ
کچھ اندازوں کے مطابق دولتِ اسلامیہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں جو کہ بیلجئم کے کل رقبے کے برابر ہے۔ دیگر کا خیال ہے کہ یہ رقبہ اس سے کہیں زیادہ، یعنی 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو کہ اردن کے کل رقبے کے برابر ہے۔ اندازوں میں یہ فرق اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عراق کے چار بڑے شہر موصل، تکریت، فلوجہ اور طل افعار اور شام میں رقہ کے بڑے علاقے کے علاوہ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے قابو میں ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت 80 لاکھ لوگ ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جو کہ کلی یا جزوی طور پر دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں اس تنظیم نے نہایت سخت گیر شریعت کا اطلاق کیا ہوا جس میں عورتوں کو پردے پر مجبور کیا جا رہا ہے، غیرمسلموں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں ورنہ جزیہ دیں اور چھٹے موٹے جرائم پر بھی سخت سزائیں دی جارہی ہیں جن میں مجرموں کو دُرے لگانا اور سرعام پھانسی یا گولی مار دینا بھی شامل ہیں۔
دولتِ اسلامیہ کے جنگجو
دولت اسلامیہ کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری لوگوں پر مشتمل ہے
امریکی افسران کا خیال ہے کہ دولت اسلامی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 15 ہزار ہے، تاہم عراقی ماہر ہشام الہشامی کہتے ہیں کہ ان کے اندازے کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں دولت اسلامیہ کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگجو موجود تھےجن میں سے تقریباً 30 فیصد پکے نظریاتی تھے جبکہ باقی وہ تھے جنہوں نے خوف یا دباؤ کے تحت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد نہ تو عراقی ہے اور نہ ہی شامی۔ ایک تازہ ترین اندازے کے مطابق دولت اسلامیہ میں 81 ممالک کے کم و بیش 12 ہزار جنگجو شامل ہیں جن میں سے 2,500 ایسے ہیں جو پچھلے تین سالوں میں مغربی ممالک سے شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے آئے تھے۔
دولتِ اسلامی کا اسلحہ
دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں بلکہ اس کے جنگجو ان ہتھیاروں کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنز، راکٹ لانچر، طیارہ شکن بڑی توپیں، اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی تھیں۔
اس کے علاوہ دولت اسلامیہ نے بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک نظام بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت وہ جب چاہیں نیا اسلحہ اور بارود منگوا سکتے ہیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی بے پناہ بارودوی طاقت ہی تھی جس کی بدولت انھوں نے اگست میں شمالی عراق میں کرد پیشمرگہ فوجی کی چوکیوں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
دولت اسلامیہ کی دولت
راق کے یزیدیوں کو دولتِ اسلامی نے بےگھر کیا ہے
اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں جو اسے دنیا کا امیر ترین شدت پسند گروہ بناتے ہیں۔ ابتدا میں اسے زیادہ تر مالی مدد خلیجی ریاستوں کے مخیر افراد سے ملی، تاہم آج کل یہ تنظیم کافی حد تک خو کفیل ہو چکی ہے اور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت، اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکسوں کی آمدنی ، چونگی، سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ تنظیم کے مختلف ذرائع آمدن ہیں۔
اتنے خوفناک ہتھکنڈے کیوں؟
دولت اسلامیہ کے ارکان ان جہادیوں پر مشتمل ہیں جو سنی اسلام کی سخت گیر تعبیر پر یقین کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
تنظیم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے، سرعام مصلوب کرنے اور کئی لوگوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے جیسے اقدامات سے مقالی لوگوں اور باقی دنیا میں خوف ہراس پھیلانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اگرچہ دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن باقی دنیا کے مسلمان ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے بھی الزرقاوی کو سنہ 2005 میں کہہ دیا تھا کہ اس قسم کی بہیمانہ کارروائیوں سے مسلمانوں کے دل و دماغ نہیں جیتے جا سکتے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014...state_sq.shtml
آخری وقت اشاعت: جمعرات 4 ستمبر 2014 ,* 16:47 GMT 21:47 PST

دولت اسلامی کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے
دولتِ اسلامیہ ایک شدت پسند اسلامی گروہ ہے جو گذشتہ کچھ عرصے میں شام اور عراق کے بڑے علاقوں کو اپنے زیر نگیں کر چکا ہے۔
دوسری جانب دولتِ اسلامیہ کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے خلاف دنیا بھر میں غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اب امریکہ بھی اس معاملے میں اپنی فوجی طاقت کے ساتھ داخل ہو چکا ہے۔ دولت اسلامیہ کے جنگجو مشرقی شام اور عراق کے شمالی اور مغربی علاقوں میں اقلیتی عقائد اور اقلیتی نسلوں کے افراد کے اغوا اور سرعام قتل جیسی بہیمانہ کارروائیوں کے علاوہ اب تک کئی فوجیوں اور دو صحافیوں کے سر بھی قلم کر چکے ہیں۔
دولت اسلامیہ کا ہدف ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے۔
اگرچہ فی الحال یہ گروہ عراق اور شام تک محدود ہے لیکن اس کا عہد ہے کہ وہ اردن اور لبنان کی سرحدوں کو مسمار کر کے فلسطین کو آزاد کرائے گا۔ دولت اسلامیہ کو دنیا بھر سے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ ہر مسلمان ان کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔
دولت اسلامیہ کا آغاز

سنہ 2010 میں جب ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو اس تنظیم کو تقویت ملی
دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے مرحوم ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے ملتی ہیں جنھوں نے سنہ 2002 میں توحید والجہاد نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔عراق پر امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کے حملے کے ایک سال بعد الزرقاوی نے اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر عراق میں القاعدہ قائم کی جو اتحادی فوجوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ثابت ہوئی۔
سنہ 2006 میں الزرقاوی کی وفات کے بعد القاعدہ فی العراق نے دولت اسلامیہ فی العراق یا آئی ایس آئی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جسے عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمائندہ تنظیم کہنا بے جا نہ ہوگا۔ امریکی افواج کی مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے آئی ایس آئی آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور پھر عراق کے سنی قبائل کی تنظیم سہوا کے منظر پر آنے سے آئی ایس آئی مزید ماند پڑ گئی۔
سنہ 2010 میں جب ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کے سربراہ بنے تو اس تنظیم کو تقویت ملی اور اس کی استعداد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اور پھر سنہ 2013 میں یہ تنظیم دوبارہ اتنی منظم ہو گئی کہ اس نے ایک برس کے اندر اندر عراق میں درجنوں کامیاب حملے کر ڈالے۔ اس دوران آئی ایس آئی نے شام میں بشارالاسد کے خلاف جاری مزاحمت کے ساتھ روابط بنا لیے اور ایک نئی تنظیم النصرہ، بھی قائم کر لی۔
اپریل 2013 میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو یکجا کرنے کا اعلان کیا اوردولت اسلا میہ فی العراق ولشام یا داعش کے نام سے ایک بڑی تنظیم بنا لی۔ اس موقع پر النصرہ اور القاعدہ کے رہنماؤں نے البغدادی کی نئی تنظیم کو ماننے سے انکار کر دیا، لیکن النصرہ کے وہ جنگجو جو البغدادی کے حامی تھے انھوں نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی۔
سنہ 2013 کے اختتام پر داعش نے اپنی توجہ ایک مرتبہ پھر عراق پر مرکوز کر لی اور ملک کی شیعہ اکثریتی حکومت اور سنی آبادی کے درمیان موجود سیاسی تناؤ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہی وہ موقع تھا جب مقامی قبائل کی مدد سے داعش نے عراق کے مرکزی شہر فلوجہ پر قبضہ کر لیا۔ بات یہاں رکی نہیں بلکہ سنہ 2014 میں داعش کے جنگجو شمالی شہر موصل کو روندتے ہوئے بغداد کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔

داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام تبدیل کر کے دولتِ اسلامیہ رکھ لیا
اُس ایک ماہ کے دوران عراق کے درجنوں شہروں اور قصبوں پر کامیابی سے اپنی تنظیم کے جھنڈے گاڑرنے کے بعد داعش نے خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام تبدیل کر کے دولتِ اسلامیہ رکھ لیا۔
دولت اسلامیہ کے زیر اثر علاقہ
کچھ اندازوں کے مطابق دولتِ اسلامیہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر چکی ہیں جو کہ بیلجئم کے کل رقبے کے برابر ہے۔ دیگر کا خیال ہے کہ یہ رقبہ اس سے کہیں زیادہ، یعنی 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو کہ اردن کے کل رقبے کے برابر ہے۔ اندازوں میں یہ فرق اپنی جگہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عراق کے چار بڑے شہر موصل، تکریت، فلوجہ اور طل افعار اور شام میں رقہ کے بڑے علاقے کے علاوہ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے قابو میں ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت 80 لاکھ لوگ ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جو کہ کلی یا جزوی طور پر دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں اس تنظیم نے نہایت سخت گیر شریعت کا اطلاق کیا ہوا جس میں عورتوں کو پردے پر مجبور کیا جا رہا ہے، غیرمسلموں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں ورنہ جزیہ دیں اور چھٹے موٹے جرائم پر بھی سخت سزائیں دی جارہی ہیں جن میں مجرموں کو دُرے لگانا اور سرعام پھانسی یا گولی مار دینا بھی شامل ہیں۔
دولتِ اسلامیہ کے جنگجو

دولت اسلامیہ کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری لوگوں پر مشتمل ہے
امریکی افسران کا خیال ہے کہ دولت اسلامی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 15 ہزار ہے، تاہم عراقی ماہر ہشام الہشامی کہتے ہیں کہ ان کے اندازے کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں دولت اسلامیہ کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگجو موجود تھےجن میں سے تقریباً 30 فیصد پکے نظریاتی تھے جبکہ باقی وہ تھے جنہوں نے خوف یا دباؤ کے تحت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد نہ تو عراقی ہے اور نہ ہی شامی۔ ایک تازہ ترین اندازے کے مطابق دولت اسلامیہ میں 81 ممالک کے کم و بیش 12 ہزار جنگجو شامل ہیں جن میں سے 2,500 ایسے ہیں جو پچھلے تین سالوں میں مغربی ممالک سے شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے آئے تھے۔
دولتِ اسلامی کا اسلحہ
دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں بلکہ اس کے جنگجو ان ہتھیاروں کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنز، راکٹ لانچر، طیارہ شکن بڑی توپیں، اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی تھیں۔
اس کے علاوہ دولت اسلامیہ نے بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک نظام بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت وہ جب چاہیں نیا اسلحہ اور بارود منگوا سکتے ہیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی بے پناہ بارودوی طاقت ہی تھی جس کی بدولت انھوں نے اگست میں شمالی عراق میں کرد پیشمرگہ فوجی کی چوکیوں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔
دولت اسلامیہ کی دولت

راق کے یزیدیوں کو دولتِ اسلامی نے بےگھر کیا ہے
اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں جو اسے دنیا کا امیر ترین شدت پسند گروہ بناتے ہیں۔ ابتدا میں اسے زیادہ تر مالی مدد خلیجی ریاستوں کے مخیر افراد سے ملی، تاہم آج کل یہ تنظیم کافی حد تک خو کفیل ہو چکی ہے اور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت، اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکسوں کی آمدنی ، چونگی، سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ تنظیم کے مختلف ذرائع آمدن ہیں۔
اتنے خوفناک ہتھکنڈے کیوں؟
دولت اسلامیہ کے ارکان ان جہادیوں پر مشتمل ہیں جو سنی اسلام کی سخت گیر تعبیر پر یقین کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ باقی دنیا مذہب سے عاری ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
تنظیم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے، سرعام مصلوب کرنے اور کئی لوگوں کو قطار میں کھڑے کر کے گولیاں مارنے جیسے اقدامات سے مقالی لوگوں اور باقی دنیا میں خوف ہراس پھیلانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اگرچہ دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی پیروی کر رہے ہیں، لیکن باقی دنیا کے مسلمان ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے بھی الزرقاوی کو سنہ 2005 میں کہہ دیا تھا کہ اس قسم کی بہیمانہ کارروائیوں سے مسلمانوں کے دل و دماغ نہیں جیتے جا سکتے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014...state_sq.shtml
Last edited by a moderator: