دوستو!ہمایوں اختر نے پی ٹی آئی چھوڑ دی اور 9 مئی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ان کا دل بھی اچانک رو پڑا تو سوچا کہ تھوڑی تسلی کرا دوں۔پاکستان کی بری فوج میں اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والے دو سابق جرنیلوں پر الزام ہے کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی دولت اکٹھی کی۔یہ الزامات بین الاقوامی نجی بینک ’کریڈٹ سوئز‘ کے صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ’دی سوئز سیکرٹس‘ کا حصہ ہیں جن میں دنیا بھر سے سیاست دانوں، فوجی آمروں، جرائم پیشہ افراد سمیت کئی دیگر افراد کا نام بھی شامل ہے۔ان افراد میں پاکستان کے دو سابق جنرلز کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سابق آئی ایس آئی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی "جنرل اختر عبد الرحمان" ( ہمایوں اختر کے والد محترم ) ہیں اور دوسرے جنرل زاہد علی اکبر۔جنرل اختر عبدالرحمٰن کو فوج میں ایک اعلی مقام حاصل تھا جنرل عبدالرحمٰن سابقہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے انتہائی قریبی ساتھی تھے اور جنرل ضیاء کی دور حکومت میں صدر ضیاء الحق کے بعد جنرل عبدالرحمٰن اختر ہی مضبوط شخصیت تھے اور تمام امور کو سر انجام دیتے تھے، جنرل اختر عبدالرحمٰن ہی وہ شخص تھے جس نے امریکہ سے آپریشن سائیکلون کے نام پر لاکھوں امریکی ڈالرز لیے۔ آپریشن سائیکلون کا مقصد روس کے خلاف افغانستان میں مجاہدین روس کے خلاف جہاد کی تربیت دینا تھا۔مجاہدین کو دیے جانے والے اسلحے میں سے آدھے سے زیادہ ایران سمیت افریقی ممالک کو بیچ کر خوب مال بنایا۔سوئیس سیکریٹ رپورٹ کے مطابق سوئس بینک میں 500 ملین ڈالر ( سستا زمانہ) ان کے اکاؤنٹ میں تھے جو اکاونٹ ان کے مرنے کے بعد دو سال تک ان کے بڑے صاحب زادے اکبر کے زیر استعمال رہا اور خبر لیک ہونے کے بعد وہ سرمایہ وہاں سے نکال لیا گیا۔آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئی ایس آئی کا سیکرٹ اکاؤنٹ تھا تو حضور والا!آئی ایس آئی کا اکاؤنٹ تھا تو جنرل صاحب کا بیٹا کیسے چلا رہا تھا؟اس کے علاؤہ ان کی تین آف شور کمپنیوں کا بھی انکشاف ہوا تھا جس کا جواب کسی نے نہیں دیا۔