jani1
Chief Minister (5k+ posts)

http://facebook.com/JANI1JANI1/
دورِ جدید کے تاتاری ۔۔
برما والوں تمہیں دیکھ کر تو ہمیں افغانستان ، عراق، شام، فلسطین اور کشمیر کا دُکھ چھوٹا لگنے لگا۔ بلکہ وہ خُوش قسمت لگنے لگے۔کہ ایک ہی گولی کھائی اور جہان فانی سے کوچ کرگئے، یا کوئی آوارہ سا ڈرون ایک ہی ساعت میں پُورے کے پُورے گاوں کو نگل گیا۔
مگر تمہارا واسطہ تو اُن بھوُکے ننگوں سے پڑا ہے جن کی اوقات تم پر ایک گولی خراب کرنے کی بھی نہیں۔ تمہارا واسطہ اُس مزہب کے پیروکاروں سے پڑا ہے جو خُود کو دُنیا کا پُرامن ترین مزہب مشہور کیئے ہوئے تھے۔ مگر یہ ہے اُن کی اصلیت کہ جنہیں دیکھ کر چنگیز خان کی رُوح بھی تڑپ گئی ہوگی۔
حالیہ تاریخ میں اس درندگی کی مثال کہیں نہیں ملتی مگر جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں۔ اس کے پیچھے ایک ہی کہانی معلُوم ہوتی ہے۔ کہ ایک تیر سے جتنے زیادہ شکار کرسکو اُتنا اچھا ہے۔اس کو سمجھنے کے لیئے بڑی پکچر دیکھنی ہوگی۔ مُودی مردُود اور اُس کے گروہ کا اس کہانی کے لکھے جانے میں ایک بڑا کردار نظر آتا ہے۔اُس نے ایک تیر سے کئی شکار کیئے اور شاید مزید کرنا چاہتا ہو۔ مگر کامیاب نہیں ہوگا ۔ انشااللہ۔
مُودی کے گروہ میں ٹرمپ، حسینہ واجد، آنگ سان سُوکی اور ساڈہ نااہل نوازشریف۔ حسینہ واجد کی بھارت نوازی، ٹرمپ کی مُودی سے مُحبت، ساڈے نااہل اور مُودی کا عشق اور اب سُوکی کی مُودی پالیسیوں کی پُشت پناہی کرتے ہوئے مُسلمانوں کا کُچھلنا۔ سب ایک ہی مالا کے باسی پھول معلُوم ہوتے ہیں۔۔اگرچہ برما میں یہ بربریت کے واقعات کافی عرصے سے جاری تھے مگر ان میں اچانک شدت لائی گئی۔ تاکہ ان انٹرنیشل کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔۔
مودی کو اس ظُلم کی داستان سے فائدہ اس طرح کہ۔ قتل کو اتنا بھیانک بنادو کہ کشمیر میں ہوتے مظالم معمُول کی جھڑپیں لگیں۔اور لوگ اُنہیں بھول جائیں۔حسینہ کو فائدہ یہ کہ اُس کی اسلام مُخلالف پالیسیوں اور اُس کے نتیجے میں پھانسیوں کو لوگ بھول کر اُسے ایک مسیحا کے طور پر لینے لگیں۔ ٹرمپ کو فائدہ یہ کہ لوگ افغانستان اور باقی مڈل ایسٹ میں بم گرائے جانے کو بالکُل آسان موت تصور کریں اور ورلڈ میڈیا کا دھیان اُس کی ناکام پالیسیوں سے ہٹ کر دوسری طرف کو ہو جائے ۔ سُوکی کو سُو کھا فائدہ کہ ایک تو ایک بڑی زمین خالی ہوجائے دوسرا اپنے انتہا پسند خُوش ہوں جن کی اکثریت ہے وہاں اور ڈالروں کی بھرمار الگ سے۔۔ مگر ساڈے نااہل کو کیا فائدہ۔۔ دیکھا نہیں کہ نااہل تو چلو نااہل اُس کے کسی ایک گماشتے نے بھی کوئی لفظ نہ کہا برما میں موت کے راج پر۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میڈیا یا کم از کم سوشل میڈیا سے وہ غائب اور برما ہی برما موجود ہے۔اور اگر کوئی فائدہ نہ بھی ہوا تو چلو مُودی خوش تو وہ بھی خُوش۔
اس کا سب سے خطرناک مقصد میری ناقص اور ناسمجھ رائے میں شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی طرح پاکستان کی افواج کو اس آگ میں دھکیلا جائے۔ جسے پہلے ہی دونوں اطراف سےدُشمنوں کی غلیظ نظر اور یلغار کا سامنا ہے۔
یا کم از کم فیس بُک کی حد تک تو ایسا ہی دکھ رہا ہے۔ جہاں پاک فوج کو اس آگ میں کُودنے کی منتیں ترلے اور تعنے دیئے جارہے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ۔اس فوج کی ذمے داری پہلے اپنے بیس بائیس کروڑ کی حفاظت کرنا ہے۔ نہ کہ ملت اسلامیہ کا لیڈر بننا۔ لیڈری کے لیئے چونتیس مُلکوں کا اتحاد کیونکر بنایا تھا۔
اُن کی باتوں سے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ہمسائے اب ہمارے ہم خیال و ہمنوا ہوگئے۔ کہ ہم اپنا چھوڑ کر بھاگم بھاگ جائیں اور کئی مُلک پھلانگتے ہوئے کسی کی دادرسی کریں۔ کسی کا سہارا بنیں۔ پہلے اپنا سہارا تو بنیں۔اللہ کا شُکر کرو کہ اُس نے کم از کم ایسی فوج دی جس کے ہوتے ہوئے دُشمن کُتوں کی طرح تمہیں بھوکی نظروں سےدیکھ تو سکتا ہے بھونک تو سکتا ہے مگر اس سے زیادہ کُچھ نہیں کرسکتا۔ کیا ہر مسئلے کا علاج اسلحے میں ہوتا ہے۔تمہارے خیال میں کیا ہندوستان خاموش تماشائی بنارہے گااگر پاک فوج نے برما پر حملہ کردیا۔
یا پھر یہ اُردگان کے ایک بیان سے ایسے جزباتی ہورہے ہیں۔ او میرے بھائیو۔ اُردگان کے مُلک کی معیشت دیکھو اور اُس کی فوجی طاقت دیکھو اور اُس پر اُس کی چھوٹی سی آفر دیکھو۔میں یہ نہیں کہتا کہ اُس نے بُرا کیا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جب اُس نے اپنی اوقات سے اتنا کم کیا۔ تو ہماری کیا اوقات ہے۔پاک فوج کو تو اپنے حُسین حقانیوں ۔ عاصمہ جہانگیراوں ۔ امتیاز عالموں و نجم سیٹیوں جیسے سانپُوں کا سامنا ہے۔
اب یہ نہ کہہ دینا کہ معیشت سے کیا ہوتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ رُوس کیوں ٹُوٹا تھا۔ اسلحے کے تو اُس وقت بھی اُس کے پاس ڈھیر تھے۔ اُس کی بیکریوں میں روٹی تک ختم ہونے لگی تھی۔ ایسا معیشت کا بیڑا غرق ہُوا تھا اُس کا ۔ جس سے وہ سُپر پاور کہلانے والا بھی ریزہ ریزہ ہوگیا۔
اس کا حل وہ ہے جس کی کوشش عمران خان نے اپنی اوقات کے حساب سے کی۔ کہ ساری اقوام یا کم از کم اُمت مُسلمہ ایک ہوکر اقوام مُتحدہ سے رابطہ کرے۔باقی یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ اُمت مُسلمہ کتنی بہادُر ہے۔ساتھ مل کر برما پر حملہ تو کرنے سے رہے کم از کم برما سے اپنے سفارتی تعلُقات فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام برمی غیر مُسلمانوں کو مُلک بدر کریں۔ اور اُن سے ہر قسم کا تجارت بند کریں۔ اُن پر اپنا تیل تک بند کردیں۔ یقین مانو کسی فوج بھیجنے کی ضرُورت نہیں پڑے گی ان بندروں کو درختوں پر واپس چڑھانے کے لیئے۔اور یہ ایک دم سیدھے ہوجائیں گے۔
برما والوں تمہیں دیکھ کر تو ہمیں افغانستان ، عراق، شام، فلسطین اور کشمیر کا دُکھ چھوٹا لگنے لگا۔ بلکہ وہ خُوش قسمت لگنے لگے۔کہ ایک ہی گولی کھائی اور جہان فانی سے کوچ کرگئے، یا کوئی آوارہ سا ڈرون ایک ہی ساعت میں پُورے کے پُورے گاوں کو نگل گیا۔
مگر تمہارا واسطہ تو اُن بھوُکے ننگوں سے پڑا ہے جن کی اوقات تم پر ایک گولی خراب کرنے کی بھی نہیں۔ تمہارا واسطہ اُس مزہب کے پیروکاروں سے پڑا ہے جو خُود کو دُنیا کا پُرامن ترین مزہب مشہور کیئے ہوئے تھے۔ مگر یہ ہے اُن کی اصلیت کہ جنہیں دیکھ کر چنگیز خان کی رُوح بھی تڑپ گئی ہوگی۔
حالیہ تاریخ میں اس درندگی کی مثال کہیں نہیں ملتی مگر جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں۔ اس کے پیچھے ایک ہی کہانی معلُوم ہوتی ہے۔ کہ ایک تیر سے جتنے زیادہ شکار کرسکو اُتنا اچھا ہے۔اس کو سمجھنے کے لیئے بڑی پکچر دیکھنی ہوگی۔ مُودی مردُود اور اُس کے گروہ کا اس کہانی کے لکھے جانے میں ایک بڑا کردار نظر آتا ہے۔اُس نے ایک تیر سے کئی شکار کیئے اور شاید مزید کرنا چاہتا ہو۔ مگر کامیاب نہیں ہوگا ۔ انشااللہ۔
مُودی کے گروہ میں ٹرمپ، حسینہ واجد، آنگ سان سُوکی اور ساڈہ نااہل نوازشریف۔ حسینہ واجد کی بھارت نوازی، ٹرمپ کی مُودی سے مُحبت، ساڈے نااہل اور مُودی کا عشق اور اب سُوکی کی مُودی پالیسیوں کی پُشت پناہی کرتے ہوئے مُسلمانوں کا کُچھلنا۔ سب ایک ہی مالا کے باسی پھول معلُوم ہوتے ہیں۔۔اگرچہ برما میں یہ بربریت کے واقعات کافی عرصے سے جاری تھے مگر ان میں اچانک شدت لائی گئی۔ تاکہ ان انٹرنیشل کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔۔
مودی کو اس ظُلم کی داستان سے فائدہ اس طرح کہ۔ قتل کو اتنا بھیانک بنادو کہ کشمیر میں ہوتے مظالم معمُول کی جھڑپیں لگیں۔اور لوگ اُنہیں بھول جائیں۔حسینہ کو فائدہ یہ کہ اُس کی اسلام مُخلالف پالیسیوں اور اُس کے نتیجے میں پھانسیوں کو لوگ بھول کر اُسے ایک مسیحا کے طور پر لینے لگیں۔ ٹرمپ کو فائدہ یہ کہ لوگ افغانستان اور باقی مڈل ایسٹ میں بم گرائے جانے کو بالکُل آسان موت تصور کریں اور ورلڈ میڈیا کا دھیان اُس کی ناکام پالیسیوں سے ہٹ کر دوسری طرف کو ہو جائے ۔ سُوکی کو سُو کھا فائدہ کہ ایک تو ایک بڑی زمین خالی ہوجائے دوسرا اپنے انتہا پسند خُوش ہوں جن کی اکثریت ہے وہاں اور ڈالروں کی بھرمار الگ سے۔۔ مگر ساڈے نااہل کو کیا فائدہ۔۔ دیکھا نہیں کہ نااہل تو چلو نااہل اُس کے کسی ایک گماشتے نے بھی کوئی لفظ نہ کہا برما میں موت کے راج پر۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میڈیا یا کم از کم سوشل میڈیا سے وہ غائب اور برما ہی برما موجود ہے۔اور اگر کوئی فائدہ نہ بھی ہوا تو چلو مُودی خوش تو وہ بھی خُوش۔
اس کا سب سے خطرناک مقصد میری ناقص اور ناسمجھ رائے میں شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی طرح پاکستان کی افواج کو اس آگ میں دھکیلا جائے۔ جسے پہلے ہی دونوں اطراف سےدُشمنوں کی غلیظ نظر اور یلغار کا سامنا ہے۔
یا کم از کم فیس بُک کی حد تک تو ایسا ہی دکھ رہا ہے۔ جہاں پاک فوج کو اس آگ میں کُودنے کی منتیں ترلے اور تعنے دیئے جارہے ہیں۔ حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ۔اس فوج کی ذمے داری پہلے اپنے بیس بائیس کروڑ کی حفاظت کرنا ہے۔ نہ کہ ملت اسلامیہ کا لیڈر بننا۔ لیڈری کے لیئے چونتیس مُلکوں کا اتحاد کیونکر بنایا تھا۔
اُن کی باتوں سے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ہمسائے اب ہمارے ہم خیال و ہمنوا ہوگئے۔ کہ ہم اپنا چھوڑ کر بھاگم بھاگ جائیں اور کئی مُلک پھلانگتے ہوئے کسی کی دادرسی کریں۔ کسی کا سہارا بنیں۔ پہلے اپنا سہارا تو بنیں۔اللہ کا شُکر کرو کہ اُس نے کم از کم ایسی فوج دی جس کے ہوتے ہوئے دُشمن کُتوں کی طرح تمہیں بھوکی نظروں سےدیکھ تو سکتا ہے بھونک تو سکتا ہے مگر اس سے زیادہ کُچھ نہیں کرسکتا۔ کیا ہر مسئلے کا علاج اسلحے میں ہوتا ہے۔تمہارے خیال میں کیا ہندوستان خاموش تماشائی بنارہے گااگر پاک فوج نے برما پر حملہ کردیا۔
یا پھر یہ اُردگان کے ایک بیان سے ایسے جزباتی ہورہے ہیں۔ او میرے بھائیو۔ اُردگان کے مُلک کی معیشت دیکھو اور اُس کی فوجی طاقت دیکھو اور اُس پر اُس کی چھوٹی سی آفر دیکھو۔میں یہ نہیں کہتا کہ اُس نے بُرا کیا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جب اُس نے اپنی اوقات سے اتنا کم کیا۔ تو ہماری کیا اوقات ہے۔پاک فوج کو تو اپنے حُسین حقانیوں ۔ عاصمہ جہانگیراوں ۔ امتیاز عالموں و نجم سیٹیوں جیسے سانپُوں کا سامنا ہے۔
اب یہ نہ کہہ دینا کہ معیشت سے کیا ہوتا ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ رُوس کیوں ٹُوٹا تھا۔ اسلحے کے تو اُس وقت بھی اُس کے پاس ڈھیر تھے۔ اُس کی بیکریوں میں روٹی تک ختم ہونے لگی تھی۔ ایسا معیشت کا بیڑا غرق ہُوا تھا اُس کا ۔ جس سے وہ سُپر پاور کہلانے والا بھی ریزہ ریزہ ہوگیا۔
اس کا حل وہ ہے جس کی کوشش عمران خان نے اپنی اوقات کے حساب سے کی۔ کہ ساری اقوام یا کم از کم اُمت مُسلمہ ایک ہوکر اقوام مُتحدہ سے رابطہ کرے۔باقی یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ اُمت مُسلمہ کتنی بہادُر ہے۔ساتھ مل کر برما پر حملہ تو کرنے سے رہے کم از کم برما سے اپنے سفارتی تعلُقات فوری طور پر ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تمام برمی غیر مُسلمانوں کو مُلک بدر کریں۔ اور اُن سے ہر قسم کا تجارت بند کریں۔ اُن پر اپنا تیل تک بند کردیں۔ یقین مانو کسی فوج بھیجنے کی ضرُورت نہیں پڑے گی ان بندروں کو درختوں پر واپس چڑھانے کے لیئے۔اور یہ ایک دم سیدھے ہوجائیں گے۔
Last edited: