دور جدید میں ہوا بازی ۔۔۔
٫٫۔ ۔۲۰۰۸۔کی بات ہے جب میں سڈنی کے نواح میں آباد بینکس ٹاون ائیر پورٹ پر واقع ایک نجی فلائنگ سکول گیا ۔۔ اپنی ہوابازی کا شوق لیے۔۔
اپنی بُکنگ سے چند منٹ پہلے پہنچ کر میں نے فارم پُر کیا اور ایک گھنٹے کی فیس ادا کی جس کے بعد مُجھے میرے انسٹرکٹر سے ملوایا گیا۔۔۔ جو کہ میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث بنا کیونکہ میرا انسٹرکٹر پاکستانی تھا۔۔
اُس نے احسن اور پروفیشنل طریقے سے مُجھے سی ون سیون ٹو کے کنٹرول سسٹم پر سمجھایا۔۔۔ اور جہاز ہوا میں بُلند ہونے کے بعد مُجھے اُس کا کنٹرول دیا۔۔۔ جو کہ میرے لیے ایک دلچسپ تجربہ تھا۔۔۔جہاز کو دُبارہ اُتارنے چلے تو کنٹرول اُس نے واپس لے لیا۔۔
جب بھی کہیں دور دراز ٫کے علاقے جانا ہوتا تو ہوائی سفر سے جانے کو ہی ترجیہہ دیتے کہ ایک تو اس سے وقت کی بچت ہوتی دوسری پیسے کی۔۔۔ پیسے کا اس طرح کہ ہوائی سفر زمینی سفرسے سستا پڑتا ۔۔
یعنی کہ ہوا بازی کو اُنہوں نے ایک عام سی چیز بنا دی تھی جس سے کوئی بھی فائدہ اُٹھا سکتا۔۔۔ کوئی بھی مُجھ سا عام شہری اپنا شوق پُورا کر سکتا تھا ۔۔۔ چلیں یہ رہنے دیں کہ یہ قصہ میرے کسی ترقی آفتہ مُلک میں قیام کا ہے۔۔۔ فلپائن کی بات کرتے ہیں ۔٫۔۔
جو کہ جزیرے ہی جزیروں پر آباد ہے اور ترقی پزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم سے رقبے میں بھی چھوٹا ہے ۔۔نہ اُن کی ہماری طرح کی پیداوار ہے اور نا صنعت۔۔۔۔۔۲۰۱۳۔میں جب وہاں پر اللہ کی طرف سے قیام و طعام کا بندوبست ہوا۔۔۔تو وہاں بھی شُمال سے جنوب یا جنوب سے شُمال تک کا سفر بذریعہ جہاز ہی کرتے ۔۔۔
وہی بات کہ اُس سے وقت اور پیسے کی بچت ہوتی۔۔۔ ٹکٹ کی قیمت٫۵۰۰پیسوزسے شُروع ہوتی جو کہ بمُشکل ۱۲ سے ۱۳ سو روپے بنتے ہیں۔۔۔
کیا ہمارے وطن میں اتنے روپوں میں کوئی آپکوجہازکے قریب بھی جانےدیگا۔۔۔ اتنی قیمتیں تو شاید آج سے بیس سال قبل بھی نہ تھیں۔۔
یہ تھیں صرف دو مُلکوں کی ہوا بازی کی ہلکی سی جھلک ۔۔۔ ایک ترقی پزیر تو دُوسرا ترقی آفتہ۔۔۔
٫ہمارا عام سا مڈل کلاس شہری خواب میں ہی جہاز اُڑاتا ہے اور اُس میں سفر کسی انتہائی مجبُوری کی حالت میں کرپاتا ہے۔۔۔
کیا وجہ ہے کہ ہمارے مُلک میں انتہائی مہینگے ٹکٹ ہونے کے باوجود ہوائی سفر کا معیار دن بدن بدمزہ اور غیرمحفُوظ ہوتا جارہا ہے۔۔۔
میرٹ کا قتل ۔۔۔ اداروں کی تباہی۔۔۔ کرپشن۔۔۔ بد انتظامی۔۔نالائقوں کو لائق افراد پر ترجیح۔۔۔
یہ وہ وجوہات ہیں جنہوں نے اس مُلک کی نہ صرف پی آئی اے اور سی اے اے کی بُنیادیں کھوکھلی کر دیں ہیں بلکہ باقی اداروں کی تباہی کا بھی سبب بن رہےہیں۔۔۔
یہ سب کون کر رہا ہے ۔۔۔یہ بتانے کی ضرُورت نہیں۔۔۔
ایک طرف تو جہاز کا سفر ایک خواب بنا کے رکھ دیا تو دوسری طرف اُنہیں انتہائی خطرناک بنا دیا۔۔ جو جہاز باقی دنیا نے رد کئے زمانے بیت گئے ہمارے راشی حکمران کمیشنوں کے چکر میں اُن کی خریداری میں مگن پائے جاتے ہیں۔۔۔
پھرجب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں ۔۔۔یہی تک ان کی زندگی تھی۔۔۔
اگر ایسا ہے تو پستول اُٹھاو اور بازار میں لوگوں پر فائرنگ شُروع کردو۔۔۔جس کی موت نہیں لکھی وہ بچ جائے گا باقی مارے جائینگے۔۔۔
قاتل کو پھانسی یا عُمر قید کیوں دیتے ہو۔۔۔ اُس نے جسے مارا ہوتا ہے اُس کی وہیں تک لکھی تھی۔۔ قسمت کے کئےپر کسی کو سزا کیوں۔۔۔
کسی بھی قومی سانحے پر ذمے دار کو سزا نہیں ہوتی بس لالا سراج کی طرح کا کوئی نیک دل آجاتا ہے کمیشن کی سفارش لئے۔۔۔
ان بے شرموں سے کوئی کہے کہ ترقی آفتہ مُمالک کیوں ترقی آفتہ ہیں۔۔۔ کیوں کہ وہاں پر کیپٹن سُولی جیسے ہیروز کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔۔۔ اپنے تمام مُسافروں کی جان بچانے کے باوجود۔۔۔