دنیا کیوں خاموش ہے؟
خالد القزاز
چند دنوں میں، مَیں اپنی قید کے ۳۶۵دن مکمل کرلوں گا جن میں سے نصف سے زائد قاہرہ میں، تورا قیدخانے کے انتہائی حفاظت والے اسکارپین ونگ میں، قیدتنہائی یا سخت پابندیوں میں گزرے۔ مَیں نے گذشتہ سال یہ سوچتے گزارا کہ مجھے کس چیز نے وہاں پہنچایا جہاں مَیں آج ہوں؟ میں اس بارے میں بھی سوچتا رہا ہوں کہ سیاست دانوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور میڈیا کی میرے کیس کے بارے میں خاموشی کی وجہ کیا ہے؟
مَیں تعلیم کے لحاظ سے انجینیر اور پیشے کے لحاظ سے استاد ہوں۔ ۲۰۱۱ء کے انقلاب مصر کے بعد مجھے سیاست سے دل چسپی ہوئی۔ میں نے صدارتی مہم میں حصہ لیا اور پھر جولائی ۲۰۱۲ء میں مصر کے پہلے جمہوری منتخب صدر کے لیے خارجہ تعلقات کے سیکرٹری کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔
جب فوج نے صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کیا تو اندازہ تھا کہ صدر اور اس کے معاونین کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ مَیں نے اپنے آٹھ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ہم ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو ان کی گرفتاری کے لمحے تک ان کے ساتھ انتظار کریں گے۔ نئے سیکرٹری دفاع کے احکامات پر ری پبلکن گارڈ کے سربراہ نے صدر مرسی اور ہم سب کو گرفتار کرلیا۔ مجھے اس کی توقع تھی لیکن جس چیز کی توقع نہیں تھی وہ وہ خاموشی تھی جو ہماری گرفتاریوں کے بعد رہی۔
صدر مرسی کے دورِ صدارت کے سال میں ہماری حکومت کے سرکاری دوروں میں یا عالمی کانفرنسوں میں بے شمار عالمی رہنماؤں سے رابطے رہے۔ صدر کے مترجم کی حیثیت سے مَیں نے تقریباً ہر ملاقات میں شرکت کی۔ ہم نے خطے میں امن کے لیے مغربی راہنماؤں اور ان کے سفیروں کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا۔
شام اور مالی بھی وہ علاقے تھے جہاں ہم امن کا قیام چاہتے تھے۔ چنانچہ ہم نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑے منصوبے پر کام کیا۔ ہم نے مصر کے لیے انسانی حقوق کا ایجنڈا طے کیا جس کو لے کر چلنے والا صدارتی دفتر تھا۔ اس نے اقوامِ متحدہ کو دعوت دی کہ قاہرہ میں مصر کے لیے یو این خواتین کا ہیڈکوارٹر کھولے۔ ہم نے ایک نئے مصر کی طرف پیش رفت کے لیے متعدد قانونی اصلاحات تجویز کیں۔ ہم مقامی اور عالمی سطح پر ان تمام افراد سے ملے جن سے ہم مل سکتے تھے اور جن کا اس میں کوئی حصہ ہوسکتا تھا تاکہ اس ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
اس سرگرمی اور ان روابط کی وجہ سے مَیں نے جولائی ۲۰۱۳ء میں اپنی گرفتاریوں پر عالمی برادری کی خاموشی کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ۔ جب فوج نے مرسی حکومت کو برطرف کیا تو ہمارے عالمی ساتھیوں میں سے کوئی بھی ہمارے لیے کھڑا نہ ہوا۔ بیش تر کے لیے ایسا تھا جیسے کہ ہم کبھی تھے ہی نہیں۔ خاموشی اتنی تھی کہ مَیں اپنے ساتھیوں سے مذاق کرتا تھا کہ ہم واقعی زندہ بھی ہیں؟
جب ہیومن رائٹس واچ نے دسمبر میں بیان جاری کیا جس میں ہمارے جبری طور پر لاپتا ہونے کی تفصیل بیان کی گئی تھی تو ہم نے اپنے آپ کو پھر زندہ محسوس کیا، مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے دوسینیرساتھی، یعنی صدر کے اسسٹنٹ اور مشیروں میں سے ایک نے بغیر کسی قانونی کارروائی کے اپنے کو صدر کے ساتھ ملزموں میں پایا۔ مجھے ایک انتہائی محفوظ قیدخانے میں فضول قسم کے الزامات کے تحت بھیج دیا گیا۔ میری یہ تحریر بھی میرے خلاف جوابی الزامات کا سبب بن سکتی ہے۔
میرے ساتھ یہ سلوک اس نمایندگی کی وجہ سے کیا جا رہا ہے جو میں کرتا ہوں۔ مَیں ایک ایسے عالمی منظرنامے کی نمایندگی کرتا ہوں جو تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان حقیقی تبادلے کی اساس پر تعمیر کیا گیا ہے۔ میں ایک ایسی نسل کا نمایندہ ہوں جو سرحدوں سے ماورا ہے ، جو عالمی برادری میں رہتا ہے، جو غیرجمہوری اداروں کی پابندیوں کی مزاحمت کرتا ہے۔ میں تین براعظموں میں رہتا ہوں۔
ایشیا میں (میرا بچپن متحدہ عرب امارات میں گزرا)، شمالی امریکا میں (کالج اور بعد کی تعلیم کے لیے میں کینیڈا گیا) اور افریقہ میں(مصر اپنے آبائی وطن میں)۔ میری اہلیہ کینیڈین ہیں اور ہمارے چار بچے مصری کینیڈین ہیں۔ میں مسلمان ہوں جو دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ اختلاف سے زیادہ مشترک اُمور دیکھتاہے۔ میں کینیڈا کو رواداری اور کثیرثقافتی زندگی کا ایک ماڈل سمجھتا ہوں۔ میں امریکا اور یورپ کو سائنس اور ایجادات کا مرکز اور عالمی امن کا نمایندہ سمجھتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ ان کی خارجہ پالیسی زیادہ بااصول ہو۔ میں ایشیا کو سائنسی ترقی میں ایسی اقدار کے ساتھ جو ہم سب کو بہت کچھ دے سکتی ہیں عالمی مسابقت کار سمجھتا ہوں۔ مَیں شرقِ اوسط کو تہذیبوں کے نقطۂ اتصال کی حیثیت سے دیکھتا ہوں جہاں انسانی رواداری اور باہمی امن کی بنیاد پر دیرپا امن ہمیشہ کے لیے یادگار ہوسکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ صدی گذشتہ صدیوں سے مختلف ہوگی۔ عالمی شہری زیادہ باحیثیت اور بااختیار ہوں گے اور ہماری خرابیوں کے لیے سیاست دانوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔
ہمیں مل کر خواب دیکھنا چاہیے۔کچھ خواب سچے بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک ایسے آمر کا تختہ اُلٹ دیا جو ۳۰سال سے اقتدار کا مالک تھا۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء کو پانچ افراد تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے اور انھوں نے تمام مصریوں سے کہا کہ وہ آزادی، انصاف اور عزت کے پرچم تلے ان کے ساتھ آجائیں۔ یہ تحریک تھی جس نے مجھے ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں مہم کے ایک رضاکار کے طور پر کام کرنے کا جذبہ دیا تھا۔
آج میرے خوابوں کو اس سوال نے حسرت سے دوچار کر دیا ہے۔انسانیت کے رشتے سے میرے بھائیو اور بہنو! مَیں جانتا ہوں کہ مصری فوجی حکومت میری مکمل خاموشی کیوں چاہتی ہے، مگر براہِ مہربانی مجھے اس سوال کا جواب دیجیے: آپ میرے بارے میں اتنے خاموش کیوں ہیں؟ (خالد القزاز کی یہ تحریر ان کے قیدخانے سے خفیہ طور پر حاصل کی گئی)۔ (انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز، ۲۸جون ۲۰۱۴ء، ترجمہ: مسلم سجاد)
خالد القزاز
چند دنوں میں، مَیں اپنی قید کے ۳۶۵دن مکمل کرلوں گا جن میں سے نصف سے زائد قاہرہ میں، تورا قیدخانے کے انتہائی حفاظت والے اسکارپین ونگ میں، قیدتنہائی یا سخت پابندیوں میں گزرے۔ مَیں نے گذشتہ سال یہ سوچتے گزارا کہ مجھے کس چیز نے وہاں پہنچایا جہاں مَیں آج ہوں؟ میں اس بارے میں بھی سوچتا رہا ہوں کہ سیاست دانوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور میڈیا کی میرے کیس کے بارے میں خاموشی کی وجہ کیا ہے؟
مَیں تعلیم کے لحاظ سے انجینیر اور پیشے کے لحاظ سے استاد ہوں۔ ۲۰۱۱ء کے انقلاب مصر کے بعد مجھے سیاست سے دل چسپی ہوئی۔ میں نے صدارتی مہم میں حصہ لیا اور پھر جولائی ۲۰۱۲ء میں مصر کے پہلے جمہوری منتخب صدر کے لیے خارجہ تعلقات کے سیکرٹری کی حیثیت سے منتخب کیا گیا۔
جب فوج نے صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کیا تو اندازہ تھا کہ صدر اور اس کے معاونین کو بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ مَیں نے اپنے آٹھ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ ہم ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو ان کی گرفتاری کے لمحے تک ان کے ساتھ انتظار کریں گے۔ نئے سیکرٹری دفاع کے احکامات پر ری پبلکن گارڈ کے سربراہ نے صدر مرسی اور ہم سب کو گرفتار کرلیا۔ مجھے اس کی توقع تھی لیکن جس چیز کی توقع نہیں تھی وہ وہ خاموشی تھی جو ہماری گرفتاریوں کے بعد رہی۔
صدر مرسی کے دورِ صدارت کے سال میں ہماری حکومت کے سرکاری دوروں میں یا عالمی کانفرنسوں میں بے شمار عالمی رہنماؤں سے رابطے رہے۔ صدر کے مترجم کی حیثیت سے مَیں نے تقریباً ہر ملاقات میں شرکت کی۔ ہم نے خطے میں امن کے لیے مغربی راہنماؤں اور ان کے سفیروں کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا۔
شام اور مالی بھی وہ علاقے تھے جہاں ہم امن کا قیام چاہتے تھے۔ چنانچہ ہم نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑے منصوبے پر کام کیا۔ ہم نے مصر کے لیے انسانی حقوق کا ایجنڈا طے کیا جس کو لے کر چلنے والا صدارتی دفتر تھا۔ اس نے اقوامِ متحدہ کو دعوت دی کہ قاہرہ میں مصر کے لیے یو این خواتین کا ہیڈکوارٹر کھولے۔ ہم نے ایک نئے مصر کی طرف پیش رفت کے لیے متعدد قانونی اصلاحات تجویز کیں۔ ہم مقامی اور عالمی سطح پر ان تمام افراد سے ملے جن سے ہم مل سکتے تھے اور جن کا اس میں کوئی حصہ ہوسکتا تھا تاکہ اس ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔
اس سرگرمی اور ان روابط کی وجہ سے مَیں نے جولائی ۲۰۱۳ء میں اپنی گرفتاریوں پر عالمی برادری کی خاموشی کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ۔ جب فوج نے مرسی حکومت کو برطرف کیا تو ہمارے عالمی ساتھیوں میں سے کوئی بھی ہمارے لیے کھڑا نہ ہوا۔ بیش تر کے لیے ایسا تھا جیسے کہ ہم کبھی تھے ہی نہیں۔ خاموشی اتنی تھی کہ مَیں اپنے ساتھیوں سے مذاق کرتا تھا کہ ہم واقعی زندہ بھی ہیں؟
جب ہیومن رائٹس واچ نے دسمبر میں بیان جاری کیا جس میں ہمارے جبری طور پر لاپتا ہونے کی تفصیل بیان کی گئی تھی تو ہم نے اپنے آپ کو پھر زندہ محسوس کیا، مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے دوسینیرساتھی، یعنی صدر کے اسسٹنٹ اور مشیروں میں سے ایک نے بغیر کسی قانونی کارروائی کے اپنے کو صدر کے ساتھ ملزموں میں پایا۔ مجھے ایک انتہائی محفوظ قیدخانے میں فضول قسم کے الزامات کے تحت بھیج دیا گیا۔ میری یہ تحریر بھی میرے خلاف جوابی الزامات کا سبب بن سکتی ہے۔
میرے ساتھ یہ سلوک اس نمایندگی کی وجہ سے کیا جا رہا ہے جو میں کرتا ہوں۔ مَیں ایک ایسے عالمی منظرنامے کی نمایندگی کرتا ہوں جو تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان حقیقی تبادلے کی اساس پر تعمیر کیا گیا ہے۔ میں ایک ایسی نسل کا نمایندہ ہوں جو سرحدوں سے ماورا ہے ، جو عالمی برادری میں رہتا ہے، جو غیرجمہوری اداروں کی پابندیوں کی مزاحمت کرتا ہے۔ میں تین براعظموں میں رہتا ہوں۔
ایشیا میں (میرا بچپن متحدہ عرب امارات میں گزرا)، شمالی امریکا میں (کالج اور بعد کی تعلیم کے لیے میں کینیڈا گیا) اور افریقہ میں(مصر اپنے آبائی وطن میں)۔ میری اہلیہ کینیڈین ہیں اور ہمارے چار بچے مصری کینیڈین ہیں۔ میں مسلمان ہوں جو دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کے ساتھ اختلاف سے زیادہ مشترک اُمور دیکھتاہے۔ میں کینیڈا کو رواداری اور کثیرثقافتی زندگی کا ایک ماڈل سمجھتا ہوں۔ میں امریکا اور یورپ کو سائنس اور ایجادات کا مرکز اور عالمی امن کا نمایندہ سمجھتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ ان کی خارجہ پالیسی زیادہ بااصول ہو۔ میں ایشیا کو سائنسی ترقی میں ایسی اقدار کے ساتھ جو ہم سب کو بہت کچھ دے سکتی ہیں عالمی مسابقت کار سمجھتا ہوں۔ مَیں شرقِ اوسط کو تہذیبوں کے نقطۂ اتصال کی حیثیت سے دیکھتا ہوں جہاں انسانی رواداری اور باہمی امن کی بنیاد پر دیرپا امن ہمیشہ کے لیے یادگار ہوسکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ صدی گذشتہ صدیوں سے مختلف ہوگی۔ عالمی شہری زیادہ باحیثیت اور بااختیار ہوں گے اور ہماری خرابیوں کے لیے سیاست دانوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔
ہمیں مل کر خواب دیکھنا چاہیے۔کچھ خواب سچے بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک ایسے آمر کا تختہ اُلٹ دیا جو ۳۰سال سے اقتدار کا مالک تھا۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب ۲۵جنوری ۲۰۱۱ء کو پانچ افراد تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے اور انھوں نے تمام مصریوں سے کہا کہ وہ آزادی، انصاف اور عزت کے پرچم تلے ان کے ساتھ آجائیں۔ یہ تحریک تھی جس نے مجھے ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں مہم کے ایک رضاکار کے طور پر کام کرنے کا جذبہ دیا تھا۔
آج میرے خوابوں کو اس سوال نے حسرت سے دوچار کر دیا ہے۔انسانیت کے رشتے سے میرے بھائیو اور بہنو! مَیں جانتا ہوں کہ مصری فوجی حکومت میری مکمل خاموشی کیوں چاہتی ہے، مگر براہِ مہربانی مجھے اس سوال کا جواب دیجیے: آپ میرے بارے میں اتنے خاموش کیوں ہیں؟ (خالد القزاز کی یہ تحریر ان کے قیدخانے سے خفیہ طور پر حاصل کی گئی)۔ (انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز، ۲۸جون ۲۰۱۴ء، ترجمہ: مسلم سجاد)