دستورکی بالادستی اورآئینی اداروں کا کردا

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
images



چیف جسٹس سپریم کورٹ‘ جسٹس افتخارمحمدچودھری نے کہاہے کہ پارلیمنٹ آئین سے متصادم قانون سازی نہیں کرسکتی‘اگرپارلیمنٹ آئین‘ اسلامی تعلیمات اوربنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی کرے توسپریم کورٹ عدالتی نظرثانی کے تحت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالتی نظرثانی کابنیادی مقصد عوامی نمائندوں کے اختیارات کے غلط استعمال کاجائزہ لیناہے۔آئین مکمل دستاویزہے جس میں ہرسوال کا جواب موجود ہے ریاست کا ہرادارہ آئینی حدود کے اندررہتے ہوئے مکمل طورپرآزادہے ‘لیکن اختیارات کے غلط استعمال یا آئینی حدودسے تجاویزپرعدلیہ جانچ پڑتال کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری نے ان خیالات کا اظہارایک این جی اوپاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹوڈیولپمنٹ کی جانب سے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے لیے قائم کردہ مصنوعی ’’یوتھ پارلیمنٹ‘‘ کے 50 رکنی وفدسے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔ اس ادارے اور وفد کی قیادت موجودہ اورسابقہ پارلیمان کے ارکان سینئرایس ایم ظفراورسابق ڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی وزیراحمدجوگیزئی کررہے تھے۔ چیف جسٹس نے آئین اور اس کے تحت اداروں کی حدودکے بارے میں فکرانگیزخیالات کا اظہارایسے موقع پرکیاہے جب پہلی بارعدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں ایک وزیراعظم معزول ہوئے ہیں اور ان کی جگہ نئے وزیراعظم کا انتخاب ہواہے۔ موجودہ صورتحال کو جو ’’عدالتی فعالیت‘‘ کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے بعض عناصرعدالتی آمریت بھی قراردے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں خاص طورپر حکمران پیپلزپارٹی اور ان کے ہمدردعناصرکی جانب سے پارلیمان کی بات بہت زوروشورسے کی جارہی ہے۔ صدرآصف علی زرداری صاف الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ’’ایک فرد‘‘ مسئلہ ہے اور ان کا واضح اشارہ چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کی طرف ہے۔ اس لیے بعض ’’پراسرار‘‘ قوتوں نے براہ راست چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کو نشانہ بناکر پوری عدلیہ پر وارکیاتھا‘ لیکن نشانہ اوچھاپڑا اوردودھاری تلوارکی طرح حملہ آوروں ہی کو زخمی کرگیاہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری نے صاف اورواضح الفاظ میں حکمرانی اورقانون سازی کے بارے میں حدودبھی بیان کردی ہیں اورکہاہے کہ اصل بالادستی آئین‘ کو حاصل ہے۔ آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے جس میں اسلامی احکامات اور بنیادی حقوق شامل ہیں اس لیے پارلیمنٹ قانون سازی بھی اسی حدود میں کرسکتی ہے۔ یہ بہت ہی بنیادی بات ہے اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمدچودھری نے گزشتہ حکومت کے دوران میں سابقہ صوبہ سرحد اسمبلی کے منظورکردہ ’’حسبہ بل‘‘ کی بعض دفعات کو کالعدم قراردیاتھا۔ ہمیں یادہے کہ موجودہ عدلیہ پر تنقیدکرنے والے کسی بھی فردیا طبقے نے اس وقت عدلیہ کے اس فیصلے پر نہ تنقیدکی تھی اورناہی اس رائے کا اظہارکیاتھاکہ عدلیہ کسی منتخب ادارے کے منظورکیے ہوئے کسی قانون کو کالعدم کرنے کا اختیارنہیں اوراس فیصلے سے پارلیمان یا منتخب اداروں کی بالادستی پر زدپڑرہی ہے ویسے بھی ہمارے سیاستداں ‘تجزیہ نگاراورقومی امور پرنظر رکھنے والے افراد دستورسازاسمبلی اور قانون سازاسمبلی میں فرق کو بھول جاتے ہیں۔پاکستان کے بحران کی جڑبھی یہی ہے کہ اصولی طورپرتویہی کہاجاتاہے کہ آئین کو بالادستی حاصل ہے‘ لیکن عملاً 1958ء سے فوج کوبالادستی حاصل ہوگئی‘ حالانکہ قیام پاکستان اور آزادی کی بنیادی دستاویزیہ کہتی ہے کہ جس دن دستورسازاسمبلی دستوربنالے گی اسی روز پاکستان ’’ڈومینین‘‘اسٹیٹ سے آزاد ریاست میں تبدیل ہوجائے گا لیکن دستورکوکاغذکے ٹکڑے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی گئی۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کا دستوراس دستورسازاسمبلی نے بنایا جو اپنے انتخابات کے بعد نصف سے بھی کم تعداد کے ارکان پر مشتمل رہ گئی تھی۔ لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت نے ایک عظیم ترین سانحے کے بعد قومی سفرکوآگے بڑھانے کے لیے‘ اسی دستورسازاسمبلی کو برقراررکھا۔ 1973ء کا دستوربن گیالیکن بنیادی حقوق مسلسل معطل رہے۔ دوبارفوج نے قبضہ کیا‘ عدلیہ کی آزادی کی تحریک کی کامیابی کے بعد دستورکی بالادستی اورقانون کی حکمرانی کی طرف سفرکے امکانات روشن ہوئے ہیں لیکن اس راستے میں بدعنوانی اور ہوس دولت واقتدارسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اب بھی ریاست کے مختلف ستون آئین کی بالادستی اورقانون کی حکمرانی قبول کرنے کے لیے تیارنہیںہیں۔ اسی وجہ سے سیاسی بحران اور اس کی پے چیدگیوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔










 
Last edited: