داعش کے سینکڑوں عسکریت پسند دیرالزور پہنچ گئے
شام اور لبنان کی سرحد سے انخلا کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے سینکڑوں جنگجو دیرالزور پہنچ گئے ہیں۔ ان جنگجووں کے ہمراہ اُن کے خاندان کے افراد بھی ہیں۔ یہ کئی بسوں پر سوار ہو کر دیرالزور پہنچے۔
[FONT=&]شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے مبصر گروپ سیرئین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے کہا ہے شامی و لبنانی سرحد سے ایک ڈیل کے تحت جن دو سو جہادیوں کو نکل جانے کی اجازت دی گئی تھی، وہ اب اس علاقے کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
یہ ڈیل شام کے صدر بشار الاسد کی حامی فوج، لبنان کی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ اور جہادیوں کے درمیان طے پائی تھی۔ اس ڈیل کے طے ہونے میں بھی روسی ثالثی عمل شامل بھی تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو اس وقت شامی صدر اسد کی فوج کے ہمراہ دوسرے شامی باغیوں کے خلاف جھڑپوں میں مصروف ہیں۔
داعش کے قافلے کے شرکا بس میں بیٹھے ہوئے
اس ڈیل کے تحت جہادیوں اور اُن کے خاندانوں کے دو سو سے زائد افراد کو گیارہ بسوں پر سوار کر کے مشرقی شامی علاقے دیرالزور پہنچایا۔ انہیں لبنان اور شام کے سرحدی علاقے القلمُون سے روانہ کیا گیا تھا۔
اِن گیارہ بسوں پر مشتمل جہادیوں کے قافلے کی دیرالزور کے مقام المیادین پہنچنے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس قافلے کو المیادین پہنچانے کے لیے کئی علاقوں میں سے روس اور امریکا کے تعاون سے آگے بڑھایا گیا۔اس قافلے کے دیرالزور پہنچنے کی امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے خاص طور پر مخالفت کی تھی۔ اس عسکری گروپ کا کہنا تھا کہ ان جہادیوں سے دیرالزور میں داعش کی قوت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کل جمعرات چودہ ستمبر کو المیادین میں ایسے مہاجرین کو امریکی حمایت یافتہ فائٹرز کے ایک حملے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس حملے میں چوبیس افراد مارے گئے، جن میں تیرہ بچے بھی شامل تھے۔ اس قبل المیادین ہی پر روسی فضائی حملے میں انتالیس شہری مارے گئے تھے۔
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے شامی تنازعے کی تازہ ترین صورت حال پر اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے جنگ زدہ ملک شام کے بحران اور وہاں قیام امن کے سلسلے میں تعاون کی موجودہ صورت حال پر بات کی۔ اس بیان میں بتایا گیا کہ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں جنگ سے محفوظ علاقوں کی ضرورت پر بھی غور کیا کیا گیا۔
[/FONT][FONT=&]Source [/FONT]
شام اور لبنان کی سرحد سے انخلا کے بعد ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے سینکڑوں جنگجو دیرالزور پہنچ گئے ہیں۔ ان جنگجووں کے ہمراہ اُن کے خاندان کے افراد بھی ہیں۔ یہ کئی بسوں پر سوار ہو کر دیرالزور پہنچے۔
[FONT=&]شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والے مبصر گروپ سیرئین آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے کہا ہے شامی و لبنانی سرحد سے ایک ڈیل کے تحت جن دو سو جہادیوں کو نکل جانے کی اجازت دی گئی تھی، وہ اب اس علاقے کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
یہ ڈیل شام کے صدر بشار الاسد کی حامی فوج، لبنان کی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ اور جہادیوں کے درمیان طے پائی تھی۔ اس ڈیل کے طے ہونے میں بھی روسی ثالثی عمل شامل بھی تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو اس وقت شامی صدر اسد کی فوج کے ہمراہ دوسرے شامی باغیوں کے خلاف جھڑپوں میں مصروف ہیں۔
داعش کے قافلے کے شرکا بس میں بیٹھے ہوئے
اس ڈیل کے تحت جہادیوں اور اُن کے خاندانوں کے دو سو سے زائد افراد کو گیارہ بسوں پر سوار کر کے مشرقی شامی علاقے دیرالزور پہنچایا۔ انہیں لبنان اور شام کے سرحدی علاقے القلمُون سے روانہ کیا گیا تھا۔
اِن گیارہ بسوں پر مشتمل جہادیوں کے قافلے کی دیرالزور کے مقام المیادین پہنچنے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس قافلے کو المیادین پہنچانے کے لیے کئی علاقوں میں سے روس اور امریکا کے تعاون سے آگے بڑھایا گیا۔اس قافلے کے دیرالزور پہنچنے کی امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے خاص طور پر مخالفت کی تھی۔ اس عسکری گروپ کا کہنا تھا کہ ان جہادیوں سے دیرالزور میں داعش کی قوت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کل جمعرات چودہ ستمبر کو المیادین میں ایسے مہاجرین کو امریکی حمایت یافتہ فائٹرز کے ایک حملے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس حملے میں چوبیس افراد مارے گئے، جن میں تیرہ بچے بھی شامل تھے۔ اس قبل المیادین ہی پر روسی فضائی حملے میں انتالیس شہری مارے گئے تھے۔
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے شامی تنازعے کی تازہ ترین صورت حال پر اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے جنگ زدہ ملک شام کے بحران اور وہاں قیام امن کے سلسلے میں تعاون کی موجودہ صورت حال پر بات کی۔ اس بیان میں بتایا گیا کہ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں جنگ سے محفوظ علاقوں کی ضرورت پر بھی غور کیا کیا گیا۔
[/FONT][FONT=&]Source [/FONT]