دھماکے یا خود کش حملے کرنے والوں پر ’لعنت‘ بھیجتے ہیں‘
عزیزاللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
آخری وقت اشاعت: بدھ 21 اگست 2013 ,* 17:19 GMT 22:19 PST
مدرسے کے مہتمم تریاسی سالہ بزرگ عالم شیر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی وجہ ان کا عقیدہ ہے
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے پشاور کے مدرسے پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کے بعد اس مدرسے کی انتظامیہ نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے لیے بم دھماکے یا خود کش جیکٹس پھاڑنے والوں پر ’لعنت‘ بھیجتے ہیں۔
امریکی وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پشاور کا مدرسہ جامعہ تعلیم القرآن والحدیث جو گنج مدرسہ کے نام سے بھی مشہور ہے، ایک تربیتی مرکز ہے اور یہ القاعدہ سمیت لشکر طیبہ اور طالبان کو مالی وسائل فراہم کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ تاہم اس مدرسے کے مہتمم تریاسی سالہ بزرگ عالم شیر کا کہنا ہے کہ ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی وجہ ان کا عقیدہ ہے۔
مدرسہ تعلیم القران والسنہ گنج مدرسے کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ سلفی اہلحدیث مسلک کا مدرسہ ہے۔ بظاہر اس مدرسے میں دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ بچے قران پاک حفظ کرتے ہیں اور مدرسے کی انتظامیہ کے مطابق یہاں پاکستان میں رائج نصاب کے تحت ہی دینی تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔
"یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے کہ دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو، بم بنائے جاتے ہوں یا جیکٹس تیار کی جاتی ہوں۔ ہم خود کش جیکٹس اور بم پھاڑنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں کیونکہ اس میں نشانہ ایک ہوتا ہے اور مرتے زیادہ ہیں۔ یہ لوگوں کی اپنی ذہنی بیماری ہے۔"
مہتمم عالم شیر
اس مدرسے کے مہتمم عالم شیر کا کہنا ہے کہ ’یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو، بم بنائے جاتے ہوں یا جیکٹس تیار کی جاتی ہوں۔ ہم خود کش جیکٹس اور بم پھاڑنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں کیونکہ اس میں نشانہ ایک ہوتا ہے اور مرتے زیادہ ہیں۔ یہ لوگوں کی اپنی ذہنی بیماری ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ یہاں مسجد کوئی بائیس سال پہلے بنائی تھی اور مدرسہ اس کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس مدرسے کے لیے انھوں نے اپنی ایک صابن کی فیکٹری وقف کر رکھی ہے۔ ’کسی سے میں مدد مانگتا نہیں ہوں لیکن جو لوگ مدد کرتے ہیں میں انکار نہیں کرتا۔
‘
اندرون پشاور شہر کی فصیل میں گنج دروازہ سے کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک تنگ گلی میں یہ مدرسہ چھوٹے چھوٹے مکانات میں گھرا ہوا ہے۔ مدرسے کی عمارت کا کل رقبہ کوئی تین سو گز ہے اور یہاں ایک وقت میں اوسطاً ایک سو کے لگ بھگ طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق اس مدرسے میں دہشت گردی کا تربیتی مرکز ہے اور یہ القاعدہ سمیت لشکر طیبہ اور طالبان کو مالی وسائل فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس بارے میں امریکہ کی ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دہشت گردی اسلام کے خلاف ہے۔ اگر کوئی اس میں ملوث ہے تو سزا ہونی چاہیے لیکن مدرسے اسلام کے قلعے ہیں اور پاکستان کی سرحدوں کے محافظ ہیں۔"
اس مدرسے کے مہتمم عالم شیر کا کہنا ہے کہ ’یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو، بم بنائے جاتے ہوں یا جیکٹس تیار کی جاتی ہوں۔ ہم خود کش جیکٹس اور بم پھاڑنے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں کیونکہ اس میں نشانہ ایک ہوتا ہے اور مرتے زیادہ ہیں۔ یہ لوگوں کی اپنی ذہنی بیماری ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ یہاں مسجد کوئی بائیس سال پہلے بنائی تھی اور مدرسہ اس کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس مدرسے کے لیے انھوں نے اپنی ایک صابن کی فیکٹری وقف کر رکھی ہے۔ ’کسی سے میں مدد مانگتا نہیں ہوں لیکن جو لوگ مدد کرتے ہیں میں انکار نہیں کرتا۔
‘
اندرون پشاور شہر کی فصیل میں گنج دروازہ سے کوئی ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک تنگ گلی میں یہ مدرسہ چھوٹے چھوٹے مکانات میں گھرا ہوا ہے۔ مدرسے کی عمارت کا کل رقبہ کوئی تین سو گز ہے اور یہاں ایک وقت میں اوسطاً ایک سو کے لگ بھگ طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خزانہ کے بیان کے مطابق اس مدرسے میں دہشت گردی کا تربیتی مرکز ہے اور یہ القاعدہ سمیت لشکر طیبہ اور طالبان کو مالی وسائل فراہم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس بارے میں امریکہ کی ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دہشت گردی اسلام کے خلاف ہے۔ اگر کوئی اس میں ملوث ہے تو سزا ہونی چاہیے لیکن مدرسے اسلام کے قلعے ہیں اور پاکستان کی سرحدوں کے محافظ ہیں۔"
وزیر مذہبی امور حاجی حبیب الرحمان
اس مدرسے میں بیس سال تک معلم رہنے والے شیخ امین اللہ کو امریکہ نے دو ہزار نو میں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔ مدرسے کی انتظامیہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ شیح امین اللہ کوئی سات ماہ پہلے یہاں سے چلے گئے تھے۔ خیبر پختونخوا حکومت میں وزیرِ مذہبی امور حاجی حبیب الرّحمان کا کہنا ہے مدرسے کے بارے میں پاکستان کے اپنے ادارے چھان بین کر سکتے ہیں۔
’اس بارے میں امریکہ کی ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دہشت گردی اسلام کے خلاف ہے۔ اگر کوئی اس میں ملوث ہے تو سزا ہونی چاہیے لیکن مدرسے اسلام کے قلعے ہیں اور پاکستان کی سرحدوں کے محافظ ہیں۔‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اس بارے میں معلومات حاصل کر کے خود واقعے کی چھان بین کر کے حقائق سامنے لائے۔