وزیر دفاع خواجہ آصف نے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کو ڈکیت کہنے پر قومی اسمبلی میں معذرت کرلی، انہوں نے کہا اسپیکر سے درخواست ہے میرے نامناسب لفظ کو حذف کیا جائے، وائس چانسلرز نے میرے لفظ کی مذمت ٹھیک کی،وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا میں نے تجاوز کیا تھا، میری تقریر میں کرپشن پر زور تھا،
کرپشن کسی بھی شعبے میں ہو اس کی بات کی،اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف نے وزیر ِدفاع خواجہ آصف کے طرزِ عمل پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا،اسپیکر راجہ پرویزاشرف نے کہا آپ نے کھلے دل کا مظاہرہ کرکے نامناسب لفظ حذف کرنے کی درخواست کی،مجھے ابھی تک وائس چانسلرز کا کوئی خط نہیں ملا مگر آپ نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا، اراکینِ پارلیمنٹ قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے دو روز پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا آٹوموبائل اور ٹائلزمیں50ارب روپے، چائےکی امپورٹ میں45ارب روپے اسٹیل سیکٹرمیں30ارب روپےکی چوری کی جارہی ہے،
جس ملک میں ہزاروں ارب روپے کا ٹیکس چوری ہو بجٹ کہاں سے بن پائے گا، پبلک سیکٹرز اور حکومت میں بے شمارفراڈز ہیں جن پر ہزاروں ارب روپے ضائع ہورہے ہیں، جو لوگ غربت ختم کرنے آرہے ہیں وہ پہلےخود بلینیئر،ملینئر بن رہے ہیں، ایسی ایسی یونیورسٹیز ہیں جہاں وائس چانسلر مدت پوری کرچکے مگر اسٹے لیا ہوا ہے۔
سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز اور سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین نے اسمبلی میں خواجہ آصف کی جانب سے وائس چانسلرز کو ڈکیت کہنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے، ان سے معافی کا مطالبہ کیا تھا،ایچ ای سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع،
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر امجد سراج میمن، شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹج کی وائس چانسلر اربیلا بھٹو اور زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر پروفیسر فتح محمد مری سمیت 22 جامعات کے وائس جانسلرز نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا تھا،
خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ خواجہ آصف کے اس بیان کو ایوان کی کارروائی سے حذف کیا جائے ، مہذب ممالک میں اساتذہ کی عزت کی جاتی ہے اور ہمارے ایوانوں میں انھیں ڈاکو کہا جارہا ہے۔
خط میں لکھا تھا اس طرح کا بیان وائس چانسلرز کی حیثیت کو ہی متاثر نہیں کررہا بلکہ یہ بیان نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع اور اسکالر شپ کے حصول پر بھی اثر انداز ہوگا، ملک کے اعلی تعلیمی حلقوں کے ذمے دار ہونے کی حیثیت سے ہم وائس چانسلرز حکومتی تعاون کے بغیر ایک ایسا ماحول تخلیق کررہے جس میں طلبا کو سیکھنے،
ایجاد کرنے اور اکیڈمک ایکسیلینس کے حصول کے مواقع سکیں، اس سلسلے میں ہمارے فیکلٹی اراکین ، عملے اور طلبہ کی مشترکہ جدوجہد بھی شامل ہے جس کے ذریعے ہم سب معاشرے کے متنوع شعبوں میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔