battery low
Chief Minister (5k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1890362232850248096
بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ عمران خان کے خطوط پر آرمی چیف کا جواب کسی
عام پاکستانی کے لیے ’ناقابل یقین‘ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے عمران خان نے یہ خطوط کسی پوسٹ آفس کے ذریعے نہیں بھیجے بلکہ سوشل میڈیا پر شیئر کیے ہیں تو جنرل عاصم منیر کی یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ انھیں یہ خطوط موصول نہیں ہوئے۔
مگر حامد میر کی رائے میں آرمی چیف کا یہ کہنا کہ انھوں نے خط نہیں پڑھے، یہ ماننا مشکل ہے۔
صحافی عاصمہ شیرازی نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے اپنے بیان کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ’کسی سیاسی رہنما کے ساتھ ایسی بات چیت نہیں کریں گے جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آرمی چیف نے ’گیمیکس‘ اور ’میڈیا آپٹکس‘ کی بات کی یعنی بظاہر وہ سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان جو بات چیت کر رہے ہیں وہ کس بنیاد پر ہے اور اس کے پیچھے کیا معاملات ہیں۔‘
صحافی و تجزیہ کار منیب فاروق نے ایک نجی ٹی وی شو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی ایک پالیسی ہے جو ڈھائی سال پہلے بن چکی تھی۔ دسمبر 2022 سے وہ اسی طرح آگے چل رہی ہے اور عمران خان اس میں کسی جگہ موجود نہیں ہیں۔‘
’پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ نہ عمران خان سے پہلے بات کرنا چاہتی تھی اور نہ اب بات کرنا چاہتی ہے۔ جو تلخی موجود تھی فی الحال تو اس میں اضافہ ہو رہا ہے فی الحال معاملہ درست ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان جنھیں خط لکھ رہے ہیں، وہ نہ پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ ان کا جواب دینا چاہتے ہیں۔‘
’یہ ایک بے کار کی مشق ہے۔‘
دوسری جانب پارلیمان میں اس بارے میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اصولاً تو میں آرمی چیف کو خط لکھنے کے خلاف ہوں۔ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آپ کی جدوجہد ہے اور دوسری طرف آپ انھیں خط لکھ رہے ہیں۔ خط لکھنا میرے نزدیک غیر مناسب ہے ان کا کام نہیں ہے، آپ نے خط لکھنا ہے تو آپ شہباز شریف صاحب کو لکھیں۔‘
بی بی سی اُردو سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ عمران خان کے خطوط پر آرمی چیف کا جواب کسی
عام پاکستانی کے لیے ’ناقابل یقین‘ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے عمران خان نے یہ خطوط کسی پوسٹ آفس کے ذریعے نہیں بھیجے بلکہ سوشل میڈیا پر شیئر کیے ہیں تو جنرل عاصم منیر کی یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ انھیں یہ خطوط موصول نہیں ہوئے۔
مگر حامد میر کی رائے میں آرمی چیف کا یہ کہنا کہ انھوں نے خط نہیں پڑھے، یہ ماننا مشکل ہے۔
صحافی عاصمہ شیرازی نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے اپنے بیان کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ’کسی سیاسی رہنما کے ساتھ ایسی بات چیت نہیں کریں گے جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آرمی چیف نے ’گیمیکس‘ اور ’میڈیا آپٹکس‘ کی بات کی یعنی بظاہر وہ سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان جو بات چیت کر رہے ہیں وہ کس بنیاد پر ہے اور اس کے پیچھے کیا معاملات ہیں۔‘
صحافی و تجزیہ کار منیب فاروق نے ایک نجی ٹی وی شو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی ایک پالیسی ہے جو ڈھائی سال پہلے بن چکی تھی۔ دسمبر 2022 سے وہ اسی طرح آگے چل رہی ہے اور عمران خان اس میں کسی جگہ موجود نہیں ہیں۔‘
’پاکستان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ نہ عمران خان سے پہلے بات کرنا چاہتی تھی اور نہ اب بات کرنا چاہتی ہے۔ جو تلخی موجود تھی فی الحال تو اس میں اضافہ ہو رہا ہے فی الحال معاملہ درست ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان جنھیں خط لکھ رہے ہیں، وہ نہ پڑھنا چاہتے ہیں اور نہ ان کا جواب دینا چاہتے ہیں۔‘
’یہ ایک بے کار کی مشق ہے۔‘
دوسری جانب پارلیمان میں اس بارے میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’اصولاً تو میں آرمی چیف کو خط لکھنے کے خلاف ہوں۔ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آپ کی جدوجہد ہے اور دوسری طرف آپ انھیں خط لکھ رہے ہیں۔ خط لکھنا میرے نزدیک غیر مناسب ہے ان کا کام نہیں ہے، آپ نے خط لکھنا ہے تو آپ شہباز شریف صاحب کو لکھیں۔‘