چھین کے بھاگا تھا روٹی بھوک سے جو گر گیا
کل کے اخباروں میں ہو گا، ایک ڈاکو مر گیا
کل کے اخباروں میں ہو گا، ایک ڈاکو مر گیا
"خطرناک" ڈکیت
میں تم سے اور بچوں سے بے پناہ محبت کرتا ہوں, جانتا ہوں تم لوگ سخت حالات میں ہو, فاقے کاٹ رہے ہو مگر میں یہاں بیٹھ کر کچھ نہیں کرسکتا.بس اتنا کرسکتا ہوں کہ کھانا پینا چھوڑ دوں تاکہ خود کو تمہارے ساتھ تو محسوس کروں.....
یہ وہ خط تھا جس نے سینٹرل جیل کراچی کی انتظامیہ کو مشکل میں ڈال دیا.خط لکھنے والا قیدی بھوک ہڑتال کرچکا تھا. انتظامیہ کوشش کے باوجود بھوک ہڑتال ختم نہ کرا سکی تو اعلیٰ حکام کو مطلع کیا جس کے بعد اس معاملے کی انکوائری ایک نوجوان پولیس افسر کے پاس آگئی.... یہ قصہ پولیس افسر نے اس دن سنایا جب میں اور ارمان صابر بھائی ایک اسٹوری کےحوالے سے ان سے ملنے گئے اور ساتھ وہ انکوائری رپورٹ ہمیں پڑھنے کو دیدی.
پولیس افسر کے مطابق....
میں نے خط پڑھا تو بے چین ہوگیا, فائل اپنے گھر لے گیا اور وہ خط اپنی اہلیہ کو دکھایا تو وہ رونے لگی..
میں نے اس قیدی کی فائل پڑھی, وہ قیدی ڈکیتی کے الزام میں سزا بھگت رہا تھا, حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جن کے گھر میں ڈکیتی ماری تھی انھوں نے مقدمہ کیا اور نہ تھانے آئے, سب کچھ سرکاری مدعیت میں ہوا اور ملزم کو سزا ہوگئی..
میں اگلے ہی روز ملیر میں اس قیدی کے گھر چلا گیا. اس کی اہلیہ اور تین بچے ملیر کھوکھرا پار میں ایک کمرے کے ٹین کی چھت والے گھر میں رہتے تھے, صحن ایک کونے میں چولہا رکھ کے کچن اور دوسرے کونے میں چادر کے پیچھے بالٹی اور اینٹیں رکھ کے واش روم اور ٹوائلٹ بنایا گیا تھا.
میں نے قیدی کی اہلیہ سے تفصیلات پوچھی تو کہنے لگی کہ وہ گدھا گاڑی چلاتا تھا, کراچی کے خراب حالات کے دوران فائرنگ سے اس کا گدھا مرگیا. وہ کئی دن تک مزدوری ڈھونڈتا رہا مگر اسے کام نہ ملا. ادھر بچے بھوک سے بلک رہے تھے, محلے والے مدد کررہے تھے مگر کب تک....
جب زیادہ تنگ ہوئے تو میں نے اسے کہا کہ کہیں سے بھی راشن لیکر آءو ورنہ میں بچوں کو مار دونگی..وہ خاموشی سے چلا گیا اور پھر شام کو اطلاع آئی کہ ڈکیتی مارتے ہوئے اسے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے, وہ ڈکیت نہیں ہے اسے میں نے ڈاکو بنادیا, خاتون روتے ہوئے بتارہی تھی...
اس گھر کی حالت خاتون کے بیان کی گواہی دے رہی تھی, میں وہاں سے نکل کے اس گھر میں گیا جس میں ڈکیتی ماری گئی تھی... انھوں نے جب تفصیلات بتائی تو میرے ہوش اڑ گئے...
انھوں نے بتایا کہ دوپہر کے وقت گھر میں خواتین تھیں, وہ شخص پستول کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور خواتین کو ایک جانب جمع ہونے کا کہا, بزرگ خاتون خانہ نے کہا کہ کسی کو کچھ مت کہنا, زیور اور رقم اس الماری میں ہے, وہ لے لو. مگر اس نے کہا مجھے رقم نہیں چاہئے میں بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا اس لئے شور مت مچانا اور مجھے صرف یہ بتائیں کہ کچن کس طرف ہے, خاتون خانہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے حیرانی اور پریشانی سے اسے کچن بتایا. وہ شخص کچن میں گیا , ہم سے ایک چادر لی اور کچن میں موجود راشن چادر میں جمع کرکے روانہ ہوگیا, جاتے ہوئے ہم سے معذرت بھی کرکے گیا.
خاتون خانہ نے کہا کہ ہم تو حیران رہ گئے تھے, اور خاموش ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک باہر شور ہوا. ہم نے پتا کیا تو معلوم ہوا کسی محلے والے نے مشکوک حالت میں چادر میں سامان سمیٹے اس گھر سے نکلتے دیکھا تو شور مچادیا, جس پر محلے والوں نے اسے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پولیس کے حوالے کردیا. خاتون خانہ اور اس گھر کے مردوں کا کہنا تھا کہ طریقہ واردات اور اور صرف راشن چوری کرنے سے ہمیں اندازہ ہوگیاتھا کہ وہ شخص ضرورت مند ہے اس لئے یم نے اس شخص کے خلاف تھانے گئے اور نہ مقدمہ کرایا.
میں نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو بلایا تو اس نے بتایا کہ محلے والے پکڑ کے لائے تھے, اس نے اعتراف بھی کیا کہ ڈاکہ مارا ہے اور اس کے پاس سے جو پستول براآمد ہوا وہ نقلی تھا. مقدمہ کرانے کوئی نہیں آیاتھا تو ہم نے سرکاری مدعیت میں مقدمہ عدالت میں پیش کیا اور عدالت نے سزا دیدی.
میں نے انکوائری رپورٹ تیار کی, ساتھ ہی اس گھرانے کے افراد کے بیان لگائے جن کے گھر ڈکیتی ہوئی تھی, اور تفصیل اعلیٰ حکام کو بھیج دی, مقدمہ عدالت میں دوبارہ چلا, اس شخص کو چند دن میں ہی ضمانت اور کچھ عرصے بعد رہائی مل گئی...
وہ شخص رہا ہوا تو میں نے اسے کہا کہ آئندہ ایسی حرکت مت کرنا, اور اسے کچھ رقم دینے کی کوشش کی تو اس نے رقم لینے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ مجھے کہیں مزدوری دلوا دیں,
اب وہ شخص اپنے گھر کی قریبی پولیس چیک پوسٹ پر سویلین ملازم ہے....
یہ ہڑتالیں کتنے گھر اجاڑتی ہیں, کتنے گھروں میں فاقے کراتی ہیں اور کتنے ڈاکو پیدا کرتی ہیں اس کا اندازہ بے غیرت و بےحس حکمران لگا سکتے اور نہ ہمارا غلیظ عدالتی نظام
یہ وہ خط تھا جس نے سینٹرل جیل کراچی کی انتظامیہ کو مشکل میں ڈال دیا.خط لکھنے والا قیدی بھوک ہڑتال کرچکا تھا. انتظامیہ کوشش کے باوجود بھوک ہڑتال ختم نہ کرا سکی تو اعلیٰ حکام کو مطلع کیا جس کے بعد اس معاملے کی انکوائری ایک نوجوان پولیس افسر کے پاس آگئی.... یہ قصہ پولیس افسر نے اس دن سنایا جب میں اور ارمان صابر بھائی ایک اسٹوری کےحوالے سے ان سے ملنے گئے اور ساتھ وہ انکوائری رپورٹ ہمیں پڑھنے کو دیدی.
پولیس افسر کے مطابق....
میں نے خط پڑھا تو بے چین ہوگیا, فائل اپنے گھر لے گیا اور وہ خط اپنی اہلیہ کو دکھایا تو وہ رونے لگی..
میں نے اس قیدی کی فائل پڑھی, وہ قیدی ڈکیتی کے الزام میں سزا بھگت رہا تھا, حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جن کے گھر میں ڈکیتی ماری تھی انھوں نے مقدمہ کیا اور نہ تھانے آئے, سب کچھ سرکاری مدعیت میں ہوا اور ملزم کو سزا ہوگئی..
میں اگلے ہی روز ملیر میں اس قیدی کے گھر چلا گیا. اس کی اہلیہ اور تین بچے ملیر کھوکھرا پار میں ایک کمرے کے ٹین کی چھت والے گھر میں رہتے تھے, صحن ایک کونے میں چولہا رکھ کے کچن اور دوسرے کونے میں چادر کے پیچھے بالٹی اور اینٹیں رکھ کے واش روم اور ٹوائلٹ بنایا گیا تھا.
میں نے قیدی کی اہلیہ سے تفصیلات پوچھی تو کہنے لگی کہ وہ گدھا گاڑی چلاتا تھا, کراچی کے خراب حالات کے دوران فائرنگ سے اس کا گدھا مرگیا. وہ کئی دن تک مزدوری ڈھونڈتا رہا مگر اسے کام نہ ملا. ادھر بچے بھوک سے بلک رہے تھے, محلے والے مدد کررہے تھے مگر کب تک....
جب زیادہ تنگ ہوئے تو میں نے اسے کہا کہ کہیں سے بھی راشن لیکر آءو ورنہ میں بچوں کو مار دونگی..وہ خاموشی سے چلا گیا اور پھر شام کو اطلاع آئی کہ ڈکیتی مارتے ہوئے اسے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے, وہ ڈکیت نہیں ہے اسے میں نے ڈاکو بنادیا, خاتون روتے ہوئے بتارہی تھی...
اس گھر کی حالت خاتون کے بیان کی گواہی دے رہی تھی, میں وہاں سے نکل کے اس گھر میں گیا جس میں ڈکیتی ماری گئی تھی... انھوں نے جب تفصیلات بتائی تو میرے ہوش اڑ گئے...
انھوں نے بتایا کہ دوپہر کے وقت گھر میں خواتین تھیں, وہ شخص پستول کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور خواتین کو ایک جانب جمع ہونے کا کہا, بزرگ خاتون خانہ نے کہا کہ کسی کو کچھ مت کہنا, زیور اور رقم اس الماری میں ہے, وہ لے لو. مگر اس نے کہا مجھے رقم نہیں چاہئے میں بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا اس لئے شور مت مچانا اور مجھے صرف یہ بتائیں کہ کچن کس طرف ہے, خاتون خانہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے حیرانی اور پریشانی سے اسے کچن بتایا. وہ شخص کچن میں گیا , ہم سے ایک چادر لی اور کچن میں موجود راشن چادر میں جمع کرکے روانہ ہوگیا, جاتے ہوئے ہم سے معذرت بھی کرکے گیا.
خاتون خانہ نے کہا کہ ہم تو حیران رہ گئے تھے, اور خاموش ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک باہر شور ہوا. ہم نے پتا کیا تو معلوم ہوا کسی محلے والے نے مشکوک حالت میں چادر میں سامان سمیٹے اس گھر سے نکلتے دیکھا تو شور مچادیا, جس پر محلے والوں نے اسے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پولیس کے حوالے کردیا. خاتون خانہ اور اس گھر کے مردوں کا کہنا تھا کہ طریقہ واردات اور اور صرف راشن چوری کرنے سے ہمیں اندازہ ہوگیاتھا کہ وہ شخص ضرورت مند ہے اس لئے یم نے اس شخص کے خلاف تھانے گئے اور نہ مقدمہ کرایا.
میں نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو بلایا تو اس نے بتایا کہ محلے والے پکڑ کے لائے تھے, اس نے اعتراف بھی کیا کہ ڈاکہ مارا ہے اور اس کے پاس سے جو پستول براآمد ہوا وہ نقلی تھا. مقدمہ کرانے کوئی نہیں آیاتھا تو ہم نے سرکاری مدعیت میں مقدمہ عدالت میں پیش کیا اور عدالت نے سزا دیدی.
میں نے انکوائری رپورٹ تیار کی, ساتھ ہی اس گھرانے کے افراد کے بیان لگائے جن کے گھر ڈکیتی ہوئی تھی, اور تفصیل اعلیٰ حکام کو بھیج دی, مقدمہ عدالت میں دوبارہ چلا, اس شخص کو چند دن میں ہی ضمانت اور کچھ عرصے بعد رہائی مل گئی...
وہ شخص رہا ہوا تو میں نے اسے کہا کہ آئندہ ایسی حرکت مت کرنا, اور اسے کچھ رقم دینے کی کوشش کی تو اس نے رقم لینے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ مجھے کہیں مزدوری دلوا دیں,
اب وہ شخص اپنے گھر کی قریبی پولیس چیک پوسٹ پر سویلین ملازم ہے....
یہ ہڑتالیں کتنے گھر اجاڑتی ہیں, کتنے گھروں میں فاقے کراتی ہیں اور کتنے ڈاکو پیدا کرتی ہیں اس کا اندازہ بے غیرت و بےحس حکمران لگا سکتے اور نہ ہمارا غلیظ عدالتی نظام