خرچنے کا ٹائم آیا تو کپتان کے اے ٹی ایم ٹھس ہو گئے
وسی بابا
کپتان پانچ سیٹ سے ہار رہا ہے۔ کپتان کے مداحوں کو بتانا فرض تھا بتا دیا۔ سچی بات ہے کہ خود بھی اس خبر پریقین نہیں آ رہا۔ اس لیے تحقیق تفتیش جاری رکھی۔ کراچی رابطہ کیا۔
کپتان کے مدمقابل علی رضا عابدی ہیں۔ ٹویٹر پر مستقل طور پر سرگرم رہتے ہیں۔ کھل کر ڈٹ کر اپنی رائے دیتے ہیں۔ متحدہ پاکستان بنی تو ناراض ہو کر الطاف گروپ میں چلے گئے۔ بہت ترلوں سے واپس لائے گئے۔ ان کو نئی پرانی بہت پرانی ہر طرح کی ایم کیو ایم کے فالوور کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔
متحدہ جتنی بھی گئی گزری ہو۔ اب ایسا بھی وقت نہیں آیا کہ اس کا متفقہ امیدوار ہو اور لیٹ ہی جائے۔ امیدوار بھی علی رضا عابدی جیسا۔ تو مقابلہ ہے بھرپور ہے۔ پاپولر ووٹ کپتان کا زیادہ ہو سکتا ہے۔ پکا ووٹ علی رضا عابدی کا ہی زیادہ ہے۔ سیدھی بات کریں تو مقابلہ پھنسا ہوا ہے۔ سیٹ کسی کی بھی کلیئر نہیں ہے۔
اتا پتہ کرتے اک دوست کا شرانگیز جملہ سننے کو ملا۔ متحدہ والوں نے کیا کمپین کرنی ہے۔ ان کے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کس سے پکڑ کر پیسے لاتے ہیں درجن دو بینر لگاتے ہیں۔ وہ کمیٹی والے اتار کر لے جاتے ہیں۔ یہ پیسوں کے لیے دوبارہ ادھر ادھر جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔
پیسوں کا ذکر ہو ہمیں ہمارا مشر یاد نہ آئے یہ ہو نہیں سکتا۔ کارخانو مارکیٹ میں بیٹھا مشر دنیا جہاں کی خبریں اپنے اوٹ پٹانگ انداز میں سمجھتا اور سمجھاتا ہے۔ اس سے رابطہ کیا کہ مشرا بتا الیکشن کون جیتے گا۔ تو اس نے جواب دیا کونسا الیکشن؟
یہی جو ہو رہا۔ مشر نے کہا جہاں کا الیکشن نتیجہ جاننا ہے وہاں کسی صراف کو فون کر۔ اس سے پوچھ کہ ڈالر کون زیادہ تڑوا رہا ہے۔ جو زیادہ خرچہ کر رہا ہو گا۔ اس کی امید زیادہ ہو گی۔ وہ جیتنے کو داؤ لگا رہا ہو گا۔
سب سے پہلے اسلام آباد میں ایک دوست صراف ( منی چینجر ) کو فون کیا۔ اس نے صرف ایک سوال کی اجازت دی۔ ایک ہی سوال پوچھا کہ اسلام آباد میں ڈالر کے روپے کون زیادہ بنا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون والے دھڑا دھڑا لگے وے۔ پی ٹی آئی والے پیچھے ہیں۔
کپتان کے سپوٹروں کو شاید عین ل لڑائی میں ہوشیاری بھول گئی ہے۔ کنجوسی یاد آ گئی ہے کہ ہم تو پاپولر ہی بہت ہیں۔ پی ٹی آئی میں دلیری سے پیسہ لگانے خرچہ کرنے کی شہرت جہانگیر ترین کی تھی۔ وہ آج کل کپتان سے پرانی ٹوٹی محبت کی طرح پوچھتے پھرتے ہیں۔ ہائے کپتان تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔ جب سب کو کہتے تھے کہ میں بچ جاؤں گا ترین نا اہل ہو جائے گا تو مجھے کیوں نہیں بتایا۔
لاہور سے اطلاع یہ ہے کہ کپتان کے کسی نے ٹھیک کان بھرے ہیں۔ اسے بتایا ہے کہ آپ کا حلقے ایک تو ڈیفنس اتنا بڑا ہے لیکن ووٹ یہاں صرف بیس فیصد ہیں۔ سارے وہ بھی نہیں ملنے۔ باقی ستر فیصد علاقے میں نون لیگ کا زور ہے۔
یہ زور کتنا ہے تو بس جاننے کے لیے اتنا کافی ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے اپنے حلقے میں پارٹی لیڈر شپ کو بلانے کی زحمت نہیں کی۔ انہیں تسلی دی ہے کہ فکر نہ کریں یہ میں سنبھال لوں گا۔ بے وثوق ذرائع کی ٹوٹی بھجی مخبریاں ہیں کہ خواجہ سعد رفیق اور علیم خان پارٹنر بھی لگتے ہیں کہیں پیچھے سے۔ زمینوں کے کاروبار میں۔ ہوں گے یا نہیں ہوں گے لیکن یہ سب باتیں اس وقت ہی کیوں کی جا رہی ہیں۔
کپتان نے یہ سب جان کر علیم خان سے بہت پیار کیا ہے۔ آج کمپین کا آخری دن ہے اس سے زیادہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ کپتان کے سچے ساتھیوں کا اعتراض یہ ہے کہ علیم خان نے کپتان کی الیکشن مہم ویسے نہیں چلائی جیسے اپنی چلائی ہے۔ حالانکہ لیڈر کپتان ہے علیم خان تھوڑی ہے۔ بندہ پوچھے کہ جب کپتان ہار جائے گا تو پھر لیڈر وہی ہو گا جو جیتے گا۔
کپتان کو اس کے اپنوں نے پھنسا دیا ہے۔ اس سے ہمدردی ہو رہی ہے۔ اس کے حلقے میں اپنا ووٹ ہوتا تو اسے ہی دیتا ان حالات میں۔ اب کسی کے ساتھ شرط کپتان کی جیت ہار پر شرط لگا کر کمائی ہو گی۔ بیچارہ کپتان اس کی اے ٹیم ایم مشینیں تب ٹھس ہوئیں جب وہ شاپنگ کر بھی چکا تھا۔