Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)
![author_1343419662.jpg](/proxy.php?image=http%3A%2F%2Fwww.nawaiwaqt.com.pk%2Fauthor_picture%2F290%2Fauthor_1343419662.jpg&hash=522310114f08f700c0d91415c24d4251)
خدا سے فرار ممکن نہیں
بعض اصطلاحیں اور ترکیبیں معترضین کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ لوگوں کوگمراہ کرنے کے لئے ایسے نکات اٹھائیں او ر ایسے دلائل سامنے لائیں جن کا حقائق سے کوئی
تعلق نہیں ہوتا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ان اصطلاحوں اور ترکیبوں میں ایک اسلامی نظام بھی ہے۔ میں جن معترضین کی بات کررہا ہوں ان میں اکثریت ایسے دانشوروں کی ہے جن کی سوچ میں اسلام دوسرے مذاہب جیسا ہی ایک مذہب ہے اورریاست میں اس کا مقام دوسرے مذاہب جیسا ہی ہونا چاہئے اور اسے ایسے تمام معاملاتِ مملکت سے دور رکھا جانا چاہئے جن سے ریاست کی فکری اور سیاسی شناخت کی جاتی ہو۔ اس سوچ کو عرف ِعام میں سیکولرزم کہا جاتا ہے اور پاکستان کو اس سوچ کے ساتھ منسوب اور منسلک کرنے کے لئے بابائے قوم کے اُن الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے جو انہوں نے 11اگست1947ءکو ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ادا کئے تھے۔ قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے خواہ وہ مسلمان ہوں عیسائی ہوں ہندو ہوں یا کسی اور مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔
میں اپنے اس تجزیے میں اس سوال پر زیادہ دلائل صرف نہیں کروں گا کہ قائداعظم ؒ کے اِن الفاظ سے کہاںیہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے سے اس کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں یا ان کی شہریت کا درجہ گھٹ جاتا ہے۔؟
قائداعظم ؒ کے محض ایک بیان کو ایک خاص مقصد کے لئے استعمال کرتے وقت متذکرہ معترضین ایک ایسی بات فراموش کردیتے ہیں جسے ہر مسلمان کے ایمان میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلمانانِ برصغیر نے قائداعظم ؒ کو اپنا فکری رہنما اور سالارِ قافلہ بنایا لیکن روئے زمین پر کوئی بھی ایسا شخص مسلمانی کا دعویٰ نہیں کرسکتا جو اپنی سوچ اور اپنے عمل سے پیغمبرِ اسلام کو ہادی ءاعظم اور رشدوہدایت کا آخری سرچشمہ نہ مانتا ہو۔
جو لوگ پاکستان کو ایک واضح اسلامی تشخصّ دینے کے تصور سے اتفاق نہیں رکھتے انہیں اپنے اندازِ فکر کے حق میں دلائل کے انبار لگاتے وقت یہ حقیقت بہرحال مدنظر رکھنی ہوگی کہ جس ملک کو وہ سیکولر کردار عطا کرنے کے خواہش مند ہیں اس کے اٹھارہ کروڑشہری اپنی پہچان مسلمانوں کی حیثیت سے کراتے ہیں اور ” مسلمانی“ کی سب سے زیادہ ناقابلِ تردید پہچان یہ ہے کہ اس کا کوئی بھی دعویدار زندگی معاشرت سیاست اور ریاست کے معاملات میں انسپریشن یا رشد و ہدایت حاصل کرنے کے لئے جو مقام آنحضرت کی ذاتِ اقدس کو دیتا ہے وہ کسی اور شخص کو نہ تو دیتا ہے اور نہ ہی دے سکتا ہے۔ جہاں تک قائداعظم ؒ کا تعلق ہے انہیں ہم قائداعظم ؒ مانتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ دو قومی نظریہ پر پورا یقین رکھتے تھے مسلمانوں کو ایک الگ قوم سمجھتے تھے اور پاکستان کے قیام کو اس لئے اپنا نصب العین قرار دیتے تھے کہ ان کی رائے میں یہی واحد راستہ تھا جس پرچل کر توحید ِ رسالت اور قرآن پر ایمان رکھنے والے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین و ضوابط کے مطابق بسر کرسکتے ہیں۔اگر تحریکِ پاکستان کے پیچھے اور کوئی مقصد ہوتا تو محمد علی جناح کبھی ” قائداعظم ؒ “ کے اعلیٰ وارفع مقام پر فائز نہ ہوتے۔
جہاں تک اسلامی نظام کا تعلق ہے اس کا کوئی وجود قرآن حکیم کے ذریعے صادر ہونے والے احکامات خداوندی سے باہر نہیںہوسکتا۔ جو کچھ خدا نے قرآن میں ارشاد فرمایا وہی اسلامی نظام ہے۔ جو کچھ حضرت محمد نے اپنے عمل کے ذریعے پیش کیا وہی اسلامی نظام ہے۔ اسلامی نظام کی تلاش اور دریافت کے لئے ہمیں کوئی کٹھن راستہ یا کوئی طویل سفر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں آنحضرت کی حیات ِ مبارکہ پر نظر ڈالنی چاہئے۔ وہ محض ایک دین کے پیامبر بانی اور معمار نہیں تھے ایک عظیم جرنیل بھی تھے جنہوں نے اپنی عسکری بصیرت کے ذریعے دنیا کا نقشہ تبدیل کرڈالا۔ اس کے علاوہ آپ نے مدینہ میں دنیا کی پہلی ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو کسی فرد یا افراد کے کسی گروہ کی منشا کی بجائے قوانین خداوندی اور بہبودِ خلق خدا کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔گویا آپ کے عظیم پیغمبرانہ کردار میں ایک تاریخ ساز جرنیل اور ایک حکمت ساز سٹیٹمین کی شخصیات بھی موجود تھیں۔
اگر آپ محض ایک پیغمبر ہوتے تو اسلامی کے معترضین یہ کہنے میں قدرے حق بجانب ہوتے کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب جیسا ایک مذہب ہے۔
لیکن کون اس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی کی آخری دہائی دشمنانِ اسلام سے جنگیں کرتے اور روئے زمین پر پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھتے گزری؟ آپ کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ایک حصہ ہجرت سے پہلے کا زمانہ۔دوسرا حصہ وہ دور جو مدینہ میں آپ کی آمد سے شروع ہوتا ہے اور غزوہ ءبدر کے لئے اختیار کئے جانے والے سفر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔اور تیسرا دور وہ جو بدر کی عظیم فتح سے شروع ہو کر فتحِ مکہ اور نُصرتِ حنین سے ہوتا ہوا اس تاریخی خطبہ پر ختم ہوتا ہے جس میں آپ نے اپنی امت کو تسخیرِ عالم کی بشارت دی تھی۔جب ہم اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی حیاتِ مبارکہ کے تینوں ادوار اور آپ کی ذاتِ اقدس کے تینوں پہلو نظروں کے سامنے رکھنے چاہئیں۔
خدا کے آخری نبی اورکلامِ الٰہی کے امین کی حیثیت سے آپ نے ان حدود کا نقشہ واضح طور پر کھینچا جن کے اندر رہ کر ہمیں اپنی زندگی بسر کرنی تھی۔ جو لوگ فرمودات ِ الٰہی کے اندر ابہام تلاش کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں وہ میری حقیر رائے میں ” خدا قرآن اور رسول “ سے فرار کا راستہ تلاش کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔
ایک جرنیل اور ایک سٹیٹمین کی حیثیت سے آپ نے ” مردِ مومن“ کی پوری زندگی کے مقاصد راستوں اور منزلوں کا تعین کردیا۔جو لوگ جہاد کو اسلام سے نکالنا چاہتے ہیں یا اسلام کو سیاست سے دور رکھنے کے متمنی ہیں انہیں میں زیادہ سے زیادہ ایسے مسلمانوں کا درجہ دیتا ہوں جن کا رہنما عبداللہ ابن ابی کو تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن جن کے مقدر میں آنحضرت کی غلامی کا شرف نہیں لکھا۔
اسلامی نظام کی ترکیب کو متنازعہ بنانے والے معترضین پر پوری قوت کے ساتھ یہ حقیقت واضح کرنے کا وقت آگیا ہے کہ آنحضرت کی حیاتِ مبارکہ کا مقصد خدا کے پیغام کو خلقِ خدا تک پہنچانے اور خدائی قوانین کو معاشرے اور ریاست میں نافذ کرنے کے سوا کوئی نہیں تھا۔ بات اسلامی نظام نافذ کرنے کی نہیں معاشرے کو خدائی احکامات کے سانچے میں ڈھالنے کی ہے۔ بات یہ طے کرنے کی ہے کہ انسانی فطرت کو اس کا خالق بہتر طور پر سمجھتا ہے یا کوئی ایسا قانون ساز جو حکم الٰہی کے بغیر پیدا بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
اسلام محض ایک مذہب نہیں۔ ایک جامع نظامِ حیات ہے جس میں کردار سازی معاشرت سیاست اور ریاست سازی کے تمام اصول جامع طور پر واضح کئے گئے ہیں۔ جہاں تک خدا اور انسان کے درمیان رشتے کا تعلق ہے اوراس رشتے کے حوالے سے جنم لینے والی عبادات کا معاملہ ہے‘ اسے ہم ضرور ”مذہب “ کے دائرے میںرکھ سکتے ہیں۔ ہر مذہب کا اس ضمن میں اپنا اپنا انداز ہے۔ مگر اسلام اس سے کافی آگے کی بات ہے۔ اسلام معاشرے کے ساتھ آدمی کے تعلق کو بھی متعین کرتا ہے اور ریاست کے سامنے اس کی ذمہ داریوں کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔
جب تک پاکستان ایک ایسی ریاست اور ایک ایسی مملکت کے روپ میں نہیں ڈھلتا جس کا نقشہ ریاستِ مدینہ کی صورت میں دورِ رسالت اور دورِ خلافت میں کھینچا گیا تھا اس کا وجود ان مقاصد کی نفی کرتا رہے گا جو اس کے قیام کا باعث بنے تھے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/14-Sep-2013/240800
Last edited: