" خادمِ اعلٰی کا پیرس "
-----------------------------
By: Muhammad Tahseen
اس سال جولائی اور اگست میں مون سون بارشیں معمول سے کم رہیں لیکن ستمبر میں ہونے والی مون سون کی پہلی اچھی بارش نے ہی پنجاب میں اکتیس سالہ " گُڈ گورننس" کا پول کھول دیا۔ خادمِ اعلٰی کا پیرس (لاہور) اس وقت وینس کا منظر پیش کررہا ہے۔ تمام گلیاں اور سڑکیں کئی کئی فٹ تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ اب تک کی سرکاری اطلاعات کے مطابق پچاس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ املاک کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔
یاد رہے کے میں لاہور کی بات کر رہا ہوں اور تصاویر میں یہ مناظر لاہور کے ہیں۔ وہ لاہور جہاں سارے پنجاب کے کل بجٹ سے زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ باقی پنجاب کی حالت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ دوسری طرف کئی دنوں سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن چل رہا ہے جس میں " جمہوریت " پر گھنٹوں تقریریں ہو رہی ہیں۔ اپنی اپنی کرسی بچانے کے لیے ہر کوئی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش میں ہے۔ کیا آپ میں سے کوئی مجھے پارلیمنٹ کے کسی ایک ایسے جوائنٹ سیشن کا حوالہ دے سکتا ہے کہ جس میں پاکستان میں پانی کے بحران کے متعلق بحث کی گئی ہو؟
بڑھتی ہوئی آبادی اور بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جنہیں مستقبل قریب میں پانی کی کمی کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کی کچھ جھلک ہمیں چولستان اور صحراء تھر میں نظر آنی شروع ہو گئی ہے۔ مون سون کی بارشیں اس خطہ میں اللہ تعالٰی کی رحمت ہیں اور یہ سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ لیکن ہر سال اس موسم کے دوران ہمارا آدھا ملک پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں انسان اور مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کیا کبھی پارلیمنٹ میں اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ ہم سیلاب کے اس پانی کو ذخیرہ کرکے زحمت کی بجائے رحمت میں بدل دیں؟
اب شاید ہم مناظر دیکھیں کہ خادمِ اعلٰی صاحب بارش کے پانی میں بھیگتے پھرتے مختلف علاقوں میں فوٹو سیشن کروا رہے ہیں۔ " یار لوگوں" کو یہ مناظر بھی بہت متاثر کریں گے اور ایک بار پھر وہ تعریفوں کے وہ پُل باندھیں گے کے دورِ جاہلیت کے غلام بھی شرماجائیں۔ لیکن ان کی " عقلِ سلیم" میں اللہ تعالٰی یہ بات نہیں ڈالے گا کے یہ خادمِِ اعلٰی صاحب اکتیس سال سے بمعہ اہل وعیال کے اس صوبے پر مسلط ہیں اور اپنے آبائی شہر کے لیے ہی جہاں ان کی پارٹی کے دس ایم پی ایز بھی " منتخب" ہیں کو ایسا سیوریج سسٹم بھی نہیں دے سکے کہ ہر سال ہونے والے اس جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
لیکن غلاموں کی کبھی کوئی اپنی سوچ نہیں ہوتی۔ وہ شیکسپیر کا قول ہے نہ کہ " اُن غُلاموں کو آزادی دلانا بہت مشکل ہے جنہیں اپنی زنجیروں سے پیار ہو۔
(محمد تحسین)
-----------------------------
By: Muhammad Tahseen
اس سال جولائی اور اگست میں مون سون بارشیں معمول سے کم رہیں لیکن ستمبر میں ہونے والی مون سون کی پہلی اچھی بارش نے ہی پنجاب میں اکتیس سالہ " گُڈ گورننس" کا پول کھول دیا۔ خادمِ اعلٰی کا پیرس (لاہور) اس وقت وینس کا منظر پیش کررہا ہے۔ تمام گلیاں اور سڑکیں کئی کئی فٹ تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ اب تک کی سرکاری اطلاعات کے مطابق پچاس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں۔ املاک کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔
یاد رہے کے میں لاہور کی بات کر رہا ہوں اور تصاویر میں یہ مناظر لاہور کے ہیں۔ وہ لاہور جہاں سارے پنجاب کے کل بجٹ سے زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔ باقی پنجاب کی حالت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ دوسری طرف کئی دنوں سے پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن چل رہا ہے جس میں " جمہوریت " پر گھنٹوں تقریریں ہو رہی ہیں۔ اپنی اپنی کرسی بچانے کے لیے ہر کوئی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش میں ہے۔ کیا آپ میں سے کوئی مجھے پارلیمنٹ کے کسی ایک ایسے جوائنٹ سیشن کا حوالہ دے سکتا ہے کہ جس میں پاکستان میں پانی کے بحران کے متعلق بحث کی گئی ہو؟
بڑھتی ہوئی آبادی اور بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جنہیں مستقبل قریب میں پانی کی کمی کے سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس کی کچھ جھلک ہمیں چولستان اور صحراء تھر میں نظر آنی شروع ہو گئی ہے۔ مون سون کی بارشیں اس خطہ میں اللہ تعالٰی کی رحمت ہیں اور یہ سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ لیکن ہر سال اس موسم کے دوران ہمارا آدھا ملک پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں انسان اور مویشی ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کیا کبھی پارلیمنٹ میں اس بات پر بحث ہوئی ہے کہ ہم سیلاب کے اس پانی کو ذخیرہ کرکے زحمت کی بجائے رحمت میں بدل دیں؟
اب شاید ہم مناظر دیکھیں کہ خادمِ اعلٰی صاحب بارش کے پانی میں بھیگتے پھرتے مختلف علاقوں میں فوٹو سیشن کروا رہے ہیں۔ " یار لوگوں" کو یہ مناظر بھی بہت متاثر کریں گے اور ایک بار پھر وہ تعریفوں کے وہ پُل باندھیں گے کے دورِ جاہلیت کے غلام بھی شرماجائیں۔ لیکن ان کی " عقلِ سلیم" میں اللہ تعالٰی یہ بات نہیں ڈالے گا کے یہ خادمِِ اعلٰی صاحب اکتیس سال سے بمعہ اہل وعیال کے اس صوبے پر مسلط ہیں اور اپنے آبائی شہر کے لیے ہی جہاں ان کی پارٹی کے دس ایم پی ایز بھی " منتخب" ہیں کو ایسا سیوریج سسٹم بھی نہیں دے سکے کہ ہر سال ہونے والے اس جانی اور مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
لیکن غلاموں کی کبھی کوئی اپنی سوچ نہیں ہوتی۔ وہ شیکسپیر کا قول ہے نہ کہ " اُن غُلاموں کو آزادی دلانا بہت مشکل ہے جنہیں اپنی زنجیروں سے پیار ہو۔
(محمد تحسین)
https://www.facebook.com/MuhammadTahseen