انتخابات کے دوران سیاسی رہنما عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ انتخابات کے بعد نئی حکومت بنتے ہی عوام کا مقدر تبدیل ہوجائے گا۔ عوام کے سچے اور کھرے رہنما انتخاب جیت کر اقتدار میں آنے کے بعد پوری سنجیدگی اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ وہ عوام کی اُمیدوں کو مرنے نہ دیں اور حکومت کے پہلے سو دنوں میں ایسے اقدامات اُٹھائیں جن سے عوام میں اعتماد پیدا ہو اور ان کو ریلیف ملے۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کے جذبات کے بارے میں بڑے حساس تھے ان کو شکستہ اور ٹوٹے ہوئے پاکستان کا اقتدار ملا ۔ انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود پہلے سو دنوں میں شکست خوردہ فوج اور مایوس قوم کا اعتماد بحال کیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمن کمشن قائم کیا۔ ٹیکس فراڈ میں ملوث 19 صنعتی اداروں کے لائسنس منسوخ کیے۔ 70 ہزار عازمین حج کو روکنے کی بابت گزشتہ حکومت کا فیصلہ منسوخ کردیا۔ سوات میں زمرد کی کانیں اور 19کلیدی صنعتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ پہلے سو دنوں میں چین اور روس کے کامیاب دورے کیے۔ چھوٹے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ بلوچستان میں نئی بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ 13 سو نااہل اور عوام دشمن سرکاری افسروں کو جبری ریٹائر کردیا۔ تعلیمی، زرعی اور مزدور پالیسیوں کا اعلان کیا۔ بھٹو حکومت کی پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہے۔
میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران عوام کے جذبات کو اُبھارنے کے لیے بلند بانگ اور دلفریب دعوے کیے۔ انہوں نے 9مئی لاہور کے پرجوش انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں خوش نصیب ہوں نوجوان مجھ سے پیار کرتے ہیںمیں بھی آپ سے پیار کرتا ہوں۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک میں تبدیلی نہیں بلکہ انقلاب آئے گا۔ ایک اور موقع پر میاں صاحب نے کہا انتخابات کے بعد عوام کے لیے اچھے دن آئیں گے اور ان کو ریلیف ملے گا۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے 100دن مکمل ہوئے مگر افسوس میاں صاحب ابھی تک عوامی مفاد میں ٹھوس فیصلے نہیں کرسکے۔ انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ 100دن کے اندر روٹی دس روپے تک پہنچ گئی ہے۔ میاں صاحب اگر اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کے دوران مہنگائی کی لہر کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس تدابیر اختیار کرتے تو آج عوام اس قدر بے حال نہ ہوتے۔ عوام کے ووٹوں سے تیسری بار منتخب ہونیوالے تاجر وزیراعظم نے تاجروں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی۔ میاں صاحب نے کشکول توڑنے کا وعدہ کیا مگر اس وعدے کے برعکس آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرکے جی ایس ٹی میں اضافہ کرکے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی۔ عوام پر بجلی اور پٹرول بم گرا دیا یہ بھی نہ سوچا کہ مسلم لیگ(ن) کے ان ڈیڑھ کروڑ ووٹروں پر کیا گزرے گی جو انتخابی جلسوں میں ان کو دیکھ کر خوشی سے جھومتے اور ناچتے تھے۔ میاں صاحب نے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے اور ٹیکس نا دہندوں سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے انہی لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جو پہلے ہی ٹیکس دیتے تھے۔ مسلم لیگی قیادت نے کم سے کم تنخواہ 14ہزار روپے مقرر کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔
مسلم لیگ(ن) نے کرپشن کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ بنایا تھا۔ کرپٹ افراد کے بارے میں غیر پارلیمانی الفاظ بھی استعمال کیے تھے مگر اقتدار میں آنے کے بعد کسی ایک کرپٹ شخص کے خلاف بھی مقدمہ درج نہ کیا گیا بلکہ چیئرمین نیب کی نامزدگی میں سیاسی مصلحت پر مبنی غیر معمولی تاخیر کر دی تاکہ کرپٹ افراد کے خلاف مقدمات سرد خانے میں پڑے رہیں۔ اگر وہ اپنے انتخابی وعدوں کا خیال کرتے تو کڑے احتساب کا آغاز کرکے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لاتے۔ اب سپریم کورٹ نے 13 ستمبر تک چیئرمین نیب نامزد کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سو دن گزر گئے مگر بلوچستان کی کابینہ نہیں بن سکی۔ کیا یہ رویہ بلوچستان کے عوام کی توہین نہیں ہے؟ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اس تاخیر کی ذمے داری مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر عاید کی ہے۔
چیف ایگزیکٹو پاکستان کی بے حسی بلکہ بادشاہی ملاحظہ فرمائیے کہ چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی حکومت کو دس روز کے اندر پی ٹی اے کا چیئرمین نامزد کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ تھری جی لائسنس کی شفاف نیلامی ہوسکے اور اربوں روپے کا ملکی نقصان بچایا جاسکے۔ کیا ریاستی اداروں کو چلانے کے لیے کلیدی فیصلے کرنے کی ذمے داری چیف ایگزیکٹو پر عائد نہیں ہوتی اور وزیراعظم چیف جسٹس پاکستان کے احکامات کا انتظار کیوں کرتے ہیں۔حکومت ابھی تک امریکہ، برطانیہ اور یو این او میں سفیر تعینات نہیں کرسکی۔ کیا یہ غیر معمولی تاخیر حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق ہے کیا میاں صاحب اپنے تجارتی اور کاروباری اداروں کے بارے میں اس قدر غفلت کے متحمل ہوسکتے ہیں؟
حکومت نے پانچ سو ارب روپے سرکلرڈیٹ ادا کیا ہے مگر اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔ میاں شہباز شریف نے انتخابات سے پہلے سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر لاہور میٹرو بس کا منصوبہ 300 دنوں کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرالیا۔ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ جذبہ اور عزم ٹھنڈا کیوں پڑ گیا ہے؟۔ حکومت نے پہلے 100 دنوں کے لیے قوم کے سامنے دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا جن میں امن و امان کا قیام، افراط زر میں کمی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معیشت کی بحالی جیسے نکات شامل تھے۔ حکومت ابھی تک کسی ایک نکتے پر بھی عمل نہیں کرپائی۔ حکومت کے ترجمان بتائیں کہ پہلے سو دنوں میں عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں تاکہ اگلے کالم میں ان اقدامات کا ذکر کیا جاسکے۔
میاں نواز شریف دو روز سے کراچی میں قیام پذیر رہے اور کراچی میں امن کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوشش کرتے رہے ۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں ، میڈیا، تاجر برادری اور انتظامیہ سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور مشاورت کے بعد رینجرز کی نگرانی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا جو شروع ہوچکا ہے۔ امن و امان ہر چند کہ صوبائی مسئلہ ہے مگر وفاقی حکومت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے معاشی مرکز میں ہر روز لاشیں گرتی رہیں۔ آخری ذمے داری وفاق کو پوری کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان سنگین بحران کا شکار ہے۔ میاں نواز شریف سیاسی مصلحتوں سے باہر نکل آئیں۔ سندھ کے گورنر کو فوری طور پر تبدیل کریں تاکہ کراچی کی پولیس اور رینجرز سیاسی دباﺅ سے باہر نکل سکے۔ میاں صاحب امن کے لیے بڑے فیصلے تو کررہے ہیں مگر سندھ حکومت میں ان کا اپنا کوئی نمائندہ ہی نہیں ہے۔ چلے ہوئے کارتوس کبھی امن بحال نہیں کرسکتے۔ آخرکار میاں صاحب کو سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا پڑے گا۔
میاں نواز شریف نے صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں الوداعی ظہرانہ دے کر جمہوری سیاسی تاریخ میں ایک خوشگوار روایت کا ٓآغاز کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے صدر زرداری اور بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی خوشگوار یادوں کو تازہ کیا اور اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ صدر زرداری اپنی آئینی مدت پوری کرکے باوقار طور پر رخصت ہو رہے ہیں۔ صدر زرداری نے میاں نواز شریف کو آئندہ پانچ سال کے دوران تعاون کا یقین دلایا۔ ظہرانے میں بادل نخواستہ شریک میاں شہباز شریف کا احتجاجی چہرہ اندرونی داستان سنا رہا تھا۔
میاں صاحب آپ نے صدر پاکستان کو اپنے گھر پر ظہرانہ دے کر بصیرت کا ثبوت دیا ہے مگر یہ تو بتائیں کہ خوشگوار یادیں عوام کے نصیب میں کیوں نہیں ہیں اور عوام کب باوقار ہوں گے؟ صدر زرداری کی آئینی مدت ختم ہوئی پاکستان کے عوام نے ان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غیر جانبدار مورخ زرداری دور کے بارے میں کیا فیصلہ سناتا ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمن کمشن قائم کیا۔ ٹیکس فراڈ میں ملوث 19 صنعتی اداروں کے لائسنس منسوخ کیے۔ 70 ہزار عازمین حج کو روکنے کی بابت گزشتہ حکومت کا فیصلہ منسوخ کردیا۔ سوات میں زمرد کی کانیں اور 19کلیدی صنعتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ پہلے سو دنوں میں چین اور روس کے کامیاب دورے کیے۔ چھوٹے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ بلوچستان میں نئی بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ 13 سو نااہل اور عوام دشمن سرکاری افسروں کو جبری ریٹائر کردیا۔ تعلیمی، زرعی اور مزدور پالیسیوں کا اعلان کیا۔ بھٹو حکومت کی پہلے سو دنوں کی کارکردگی کے عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہے۔
میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران عوام کے جذبات کو اُبھارنے کے لیے بلند بانگ اور دلفریب دعوے کیے۔ انہوں نے 9مئی لاہور کے پرجوش انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں خوش نصیب ہوں نوجوان مجھ سے پیار کرتے ہیںمیں بھی آپ سے پیار کرتا ہوں۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک میں تبدیلی نہیں بلکہ انقلاب آئے گا۔ ایک اور موقع پر میاں صاحب نے کہا انتخابات کے بعد عوام کے لیے اچھے دن آئیں گے اور ان کو ریلیف ملے گا۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے 100دن مکمل ہوئے مگر افسوس میاں صاحب ابھی تک عوامی مفاد میں ٹھوس فیصلے نہیں کرسکے۔ انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان کو ایک نئے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ 100دن کے اندر روٹی دس روپے تک پہنچ گئی ہے۔ میاں صاحب اگر اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کے دوران مہنگائی کی لہر کو روکنے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس تدابیر اختیار کرتے تو آج عوام اس قدر بے حال نہ ہوتے۔ عوام کے ووٹوں سے تیسری بار منتخب ہونیوالے تاجر وزیراعظم نے تاجروں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے دی۔ میاں صاحب نے کشکول توڑنے کا وعدہ کیا مگر اس وعدے کے برعکس آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرکے جی ایس ٹی میں اضافہ کرکے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی۔ عوام پر بجلی اور پٹرول بم گرا دیا یہ بھی نہ سوچا کہ مسلم لیگ(ن) کے ان ڈیڑھ کروڑ ووٹروں پر کیا گزرے گی جو انتخابی جلسوں میں ان کو دیکھ کر خوشی سے جھومتے اور ناچتے تھے۔ میاں صاحب نے ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے اور ٹیکس نا دہندوں سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے انہی لوگوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جو پہلے ہی ٹیکس دیتے تھے۔ مسلم لیگی قیادت نے کم سے کم تنخواہ 14ہزار روپے مقرر کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔
مسلم لیگ(ن) نے کرپشن کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ بنایا تھا۔ کرپٹ افراد کے بارے میں غیر پارلیمانی الفاظ بھی استعمال کیے تھے مگر اقتدار میں آنے کے بعد کسی ایک کرپٹ شخص کے خلاف بھی مقدمہ درج نہ کیا گیا بلکہ چیئرمین نیب کی نامزدگی میں سیاسی مصلحت پر مبنی غیر معمولی تاخیر کر دی تاکہ کرپٹ افراد کے خلاف مقدمات سرد خانے میں پڑے رہیں۔ اگر وہ اپنے انتخابی وعدوں کا خیال کرتے تو کڑے احتساب کا آغاز کرکے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لاتے۔ اب سپریم کورٹ نے 13 ستمبر تک چیئرمین نیب نامزد کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ سو دن گزر گئے مگر بلوچستان کی کابینہ نہیں بن سکی۔ کیا یہ رویہ بلوچستان کے عوام کی توہین نہیں ہے؟ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اس تاخیر کی ذمے داری مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر عاید کی ہے۔
چیف ایگزیکٹو پاکستان کی بے حسی بلکہ بادشاہی ملاحظہ فرمائیے کہ چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی حکومت کو دس روز کے اندر پی ٹی اے کا چیئرمین نامزد کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ تھری جی لائسنس کی شفاف نیلامی ہوسکے اور اربوں روپے کا ملکی نقصان بچایا جاسکے۔ کیا ریاستی اداروں کو چلانے کے لیے کلیدی فیصلے کرنے کی ذمے داری چیف ایگزیکٹو پر عائد نہیں ہوتی اور وزیراعظم چیف جسٹس پاکستان کے احکامات کا انتظار کیوں کرتے ہیں۔حکومت ابھی تک امریکہ، برطانیہ اور یو این او میں سفیر تعینات نہیں کرسکی۔ کیا یہ غیر معمولی تاخیر حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق ہے کیا میاں صاحب اپنے تجارتی اور کاروباری اداروں کے بارے میں اس قدر غفلت کے متحمل ہوسکتے ہیں؟
حکومت نے پانچ سو ارب روپے سرکلرڈیٹ ادا کیا ہے مگر اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔ میاں شہباز شریف نے انتخابات سے پہلے سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر لاہور میٹرو بس کا منصوبہ 300 دنوں کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرالیا۔ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ جذبہ اور عزم ٹھنڈا کیوں پڑ گیا ہے؟۔ حکومت نے پہلے 100 دنوں کے لیے قوم کے سامنے دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا جن میں امن و امان کا قیام، افراط زر میں کمی، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور معیشت کی بحالی جیسے نکات شامل تھے۔ حکومت ابھی تک کسی ایک نکتے پر بھی عمل نہیں کرپائی۔ حکومت کے ترجمان بتائیں کہ پہلے سو دنوں میں عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں تاکہ اگلے کالم میں ان اقدامات کا ذکر کیا جاسکے۔
میاں نواز شریف دو روز سے کراچی میں قیام پذیر رہے اور کراچی میں امن کی بحالی کے لیے سنجیدہ کوشش کرتے رہے ۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں ، میڈیا، تاجر برادری اور انتظامیہ سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور مشاورت کے بعد رینجرز کی نگرانی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا جو شروع ہوچکا ہے۔ امن و امان ہر چند کہ صوبائی مسئلہ ہے مگر وفاقی حکومت اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے معاشی مرکز میں ہر روز لاشیں گرتی رہیں۔ آخری ذمے داری وفاق کو پوری کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان سنگین بحران کا شکار ہے۔ میاں نواز شریف سیاسی مصلحتوں سے باہر نکل آئیں۔ سندھ کے گورنر کو فوری طور پر تبدیل کریں تاکہ کراچی کی پولیس اور رینجرز سیاسی دباﺅ سے باہر نکل سکے۔ میاں صاحب امن کے لیے بڑے فیصلے تو کررہے ہیں مگر سندھ حکومت میں ان کا اپنا کوئی نمائندہ ہی نہیں ہے۔ چلے ہوئے کارتوس کبھی امن بحال نہیں کرسکتے۔ آخرکار میاں صاحب کو سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا پڑے گا۔
میاں نواز شریف نے صدر آصف علی زرداری کے اعزاز میں الوداعی ظہرانہ دے کر جمہوری سیاسی تاریخ میں ایک خوشگوار روایت کا ٓآغاز کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے صدر زرداری اور بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی خوشگوار یادوں کو تازہ کیا اور اس بات پر مسرت کا اظہار کیا کہ صدر زرداری اپنی آئینی مدت پوری کرکے باوقار طور پر رخصت ہو رہے ہیں۔ صدر زرداری نے میاں نواز شریف کو آئندہ پانچ سال کے دوران تعاون کا یقین دلایا۔ ظہرانے میں بادل نخواستہ شریک میاں شہباز شریف کا احتجاجی چہرہ اندرونی داستان سنا رہا تھا۔
میاں صاحب آپ نے صدر پاکستان کو اپنے گھر پر ظہرانہ دے کر بصیرت کا ثبوت دیا ہے مگر یہ تو بتائیں کہ خوشگوار یادیں عوام کے نصیب میں کیوں نہیں ہیں اور عوام کب باوقار ہوں گے؟ صدر زرداری کی آئینی مدت ختم ہوئی پاکستان کے عوام نے ان کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غیر جانبدار مورخ زرداری دور کے بارے میں کیا فیصلہ سناتا ہے۔