حکومتی مدت کے تین سال اور ادارہ جاتی اصلاحات
----------------------------------------------------
جس ایک پیمانے پر عمران خان (پی ٹی آئی نہیں) کی کارکردگی کو جانچا جانا چاہیے وہ ادارہ جاتی اصلاحات ہیں- معاشی بہتری اور سیاسی مثبت تبدیلی کی افادیت سے انکار ممکن نہیں مگر ترجیحات میں اصلاحات مقدم ہیں، سرفہرست ہیں
اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے انتہائی تجربہ کار بیوروکریٹ کا انتخاب کیا- ڈاکٹر عشرت حسین اہم ملکی وغیرملکی اداروں میں پانچ عشروں پرمحیط خدمات کا عملی تجربہ رکھتے ہیں- مشرف دور میں اسٹیٹ بنک کے گورنر رہے اور تعلیم وتحقیق سے منسلک بھی- پاکستانی معیشت کے حوالے سے کئی کتب بھی تصنیف کرچکے
Pakistan: The Economy of an Elitist State
ایسی شہکار کتاب میں مختلف حکومتی ادوار میں اٹھاۓ گۓ معاشی انتظامی فیصلے اور ان کے نتیجے میں ریاستی معاشی نظام میں در آنے والی خرابیوں کو تفیصل سے بیان کرتے ہیں- محض ناکامیوں و خامیوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ جامع اصلاحات بھی تجویز کرتے ہیں
وزیراعظم عمران خان نے انہیں اداروں میں اصلاحات متعارف کروانے کی بھاری بھرکم ذمہ داری سونپی- تین سال یہ ذمہ داری نبھانے کے بعد دو روز قبل انہوں نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ ارسال کر دیا جو تاحال منظور نہیں ہوا
پی ٹی آئی حکومت اصلاحاتی ایجنڈے کی دعوے دار رہی اور قوم کو آس دلاتی رہی کہ وہ اس بابت سنجیدہ ہے- نظام میں پیوست اور اپنے مفادات سے جڑی افسرشاہی ابتداء میں خوفزدہ بھی ہوئی- دیگر مفاداتی گروہوں کو ملا کر حکومت کو زچ بھی کیے رکھا تاآنکہ حکومت نے گھٹنے ٹیک نہیں دئیے اور نیب وایف آئی اے وغیرہ کو ان کے محاسبے سے روک نہیں دیا- دوسری جانب حکومت نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی- ضلعی انتظامی افسران میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ رہی- تین سالہ دور میں ہرضلع کا کمشنر چھ ماہ سے زیادہ ٹک نہیں پایا جو کہ قانونی ضابطوں کی مکمل خلاف ورزی رہی- افسران کی کارکردگی، مشاہرے، ترقیوں وتنزلیوں میں کیا اصلاحات تجاویز کی گئی، حکومت اس بارے مکمل خاموش ہے
اطلاعات ہیں کہ ڈاکٹرعشرت حسین اصلاحات پر حکومتی نیم دلی اور سست روی سے نالاں رہے اور قبل از وقت استعفٰی کی وجہ بھی یہی بنی- انہیں چاہیے کہ وہ ایک پریس میٹنگ میں اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کریں- اصلاحات کیا رہیں؟ کونسی رکاؤٹیں درپیش رہیں؟ حکومت کا تعاون کس قدر حاصل رہا؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اگر ادھ آدھوری صورت میں نافذ کی گئی ہیں تو اس کے واضح اثرات عوام کیوں نہیں محسوس کر رہی؟
ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ پر جہاں حکومتی نیک نامی داؤ پر لگی ہے وہیں یہ ڈاکٹرعشرت حسین کی لیگیسی کا سوال بھی ہے جو اپنی آخری اہم اننگ کھیل رہے ہیں۔ قوم کو اس معاملے پر آگاہ کرکے اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھائیں
----------------------------------------------------
جس ایک پیمانے پر عمران خان (پی ٹی آئی نہیں) کی کارکردگی کو جانچا جانا چاہیے وہ ادارہ جاتی اصلاحات ہیں- معاشی بہتری اور سیاسی مثبت تبدیلی کی افادیت سے انکار ممکن نہیں مگر ترجیحات میں اصلاحات مقدم ہیں، سرفہرست ہیں
اس مقصد کے لیے وزیراعظم نے انتہائی تجربہ کار بیوروکریٹ کا انتخاب کیا- ڈاکٹر عشرت حسین اہم ملکی وغیرملکی اداروں میں پانچ عشروں پرمحیط خدمات کا عملی تجربہ رکھتے ہیں- مشرف دور میں اسٹیٹ بنک کے گورنر رہے اور تعلیم وتحقیق سے منسلک بھی- پاکستانی معیشت کے حوالے سے کئی کتب بھی تصنیف کرچکے
Pakistan: The Economy of an Elitist State
ایسی شہکار کتاب میں مختلف حکومتی ادوار میں اٹھاۓ گۓ معاشی انتظامی فیصلے اور ان کے نتیجے میں ریاستی معاشی نظام میں در آنے والی خرابیوں کو تفیصل سے بیان کرتے ہیں- محض ناکامیوں و خامیوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ جامع اصلاحات بھی تجویز کرتے ہیں
وزیراعظم عمران خان نے انہیں اداروں میں اصلاحات متعارف کروانے کی بھاری بھرکم ذمہ داری سونپی- تین سال یہ ذمہ داری نبھانے کے بعد دو روز قبل انہوں نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا اور وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ ارسال کر دیا جو تاحال منظور نہیں ہوا
پی ٹی آئی حکومت اصلاحاتی ایجنڈے کی دعوے دار رہی اور قوم کو آس دلاتی رہی کہ وہ اس بابت سنجیدہ ہے- نظام میں پیوست اور اپنے مفادات سے جڑی افسرشاہی ابتداء میں خوفزدہ بھی ہوئی- دیگر مفاداتی گروہوں کو ملا کر حکومت کو زچ بھی کیے رکھا تاآنکہ حکومت نے گھٹنے ٹیک نہیں دئیے اور نیب وایف آئی اے وغیرہ کو ان کے محاسبے سے روک نہیں دیا- دوسری جانب حکومت نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی- ضلعی انتظامی افسران میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ رہی- تین سالہ دور میں ہرضلع کا کمشنر چھ ماہ سے زیادہ ٹک نہیں پایا جو کہ قانونی ضابطوں کی مکمل خلاف ورزی رہی- افسران کی کارکردگی، مشاہرے، ترقیوں وتنزلیوں میں کیا اصلاحات تجاویز کی گئی، حکومت اس بارے مکمل خاموش ہے
اطلاعات ہیں کہ ڈاکٹرعشرت حسین اصلاحات پر حکومتی نیم دلی اور سست روی سے نالاں رہے اور قبل از وقت استعفٰی کی وجہ بھی یہی بنی- انہیں چاہیے کہ وہ ایک پریس میٹنگ میں اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کریں- اصلاحات کیا رہیں؟ کونسی رکاؤٹیں درپیش رہیں؟ حکومت کا تعاون کس قدر حاصل رہا؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اگر ادھ آدھوری صورت میں نافذ کی گئی ہیں تو اس کے واضح اثرات عوام کیوں نہیں محسوس کر رہی؟
ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ پر جہاں حکومتی نیک نامی داؤ پر لگی ہے وہیں یہ ڈاکٹرعشرت حسین کی لیگیسی کا سوال بھی ہے جو اپنی آخری اہم اننگ کھیل رہے ہیں۔ قوم کو اس معاملے پر آگاہ کرکے اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھائیں