حکمرانوں کو گالی دینے والوں کے نام
کبھی سوچا ہے کہ ہم کرپشن کے بارے میں اتنے نرم دل کیوں ہیں، کبھی ہم نے الیکشنز میں کرپٹ لوگوں کو رد کیوں نہیں کیا؟کرپشن کو ہم اتنا بڑا مسئلہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے بھی کرپشن ہورہی ہو تو ہم اس پر آواز نہیں اٹھاتے، برا نہیں مناتے۔ سوائے چند پرسنٹ لوگوں کے کرپشن پر کسی کا خون نہیں جلتا، کسی کا دل نہیں دکھتا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کبھی غور کیا؟
اس کی وجہ ہے یہ کہ ہماری قوم خود کرپٹ ہے، سر سے لے کر پاؤں تک کرپٹ ہے۔ ہماری قوم کا قریباً پچانوے فیصد طبقہ کرپٹ ہے۔ ایک ارب پتی بزنس مین سے لے کر چند سو کی دیہاڑی لگانے والے ریڑھی بان تک، سب کرپٹ ہیں۔ جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ اتنی کرپشن کرتا ہے۔ سرکاری ملازم رشوت لیتا ہے، اپنے اختیارات کا جائز و ناجائز استعمال کرکے مال بناتا ہے، پرائیویٹ ملازم مالک کی آنکھ بچا کر کام چوری کرتا ہے، جہاں مال ہاتھ آئے، کھیسے میں بھر لیتا ہے، ایک دوکان پر بیٹھا ہوا شخص کم تولتا ہے، گاہک کی نظر بچا کر ناقص مال شاپر میں ڈال دیتا ہے، بغیر ملاوٹ کے اشیا بیچنا گناہ سمجھتا ہے، ایک دودھ فروش دودھ میں صرف پانی ہی نہیں ملاتا ، بلکہ اس کو گاڑھا کرکے اس کی مقدار میں اضافہ کرنے کےلئے ایسے ایسے کیمیکلز ملاتا ہے کہ جو زہر سے کم نقصان دہ نہیں ہوتے، لیکن اسے انسانی زندگیوں سے نہیں بلکہ چند پیسوں سے غرض ہوتی ہے، یہاں پیسے کی ہوس اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ جعلی ادویات تک بیچنے سے باز نہیں آتے، جوکہ سیدھا سیدھا انسان کو قتل کرنے کے مترادف ہے، پیسے کے لئے انسانوں کو گھوڑوں، گدھوں، خچروں اور کتوں تک کا گوشت کھلا دیا گیا، کیا یہ کوئی معاشرہ ہے؟ کیا یہاں انسان بستے ہیں؟ کیا اسے انسانیت کہتے ہیں؟ یہاں تو کوئی اصول ہی نہیں، یہ تو بالکل جانوروں کا معاشرہ بن چکا ہے، یہاں جانوروں کے ہجوم، گروہ اور غول بستے ہیں، جن کا صرف ایک ہی اصول ہے جس میں جتنا دم ہے، جتنی طاقت ہے، اتنا ہتھیالے،۔
بات یہ نہیں کہ لوگوں کا کم پیسوں میں گزارا نہیں ہوتا، بات ضرورت کی نہیں، بات ہوس کی ہے، جن کے پاس سائیکل ہے، وہ موٹر سائیکل چاہتے ہیں، جن کے پاس موٹر سائیکل ہے، وہ گاڑی چاہتے ہیں، جن کے پاس گاڑی ہے، وہ اس سے بڑی گاڑی کے متمنی ہیں، حرص و ہوس بے قابو ہوئی جارہی ہے، اپنی بے کراں خواہشات کی تکمیل میں صحیح غلط، حرام حلال کی بالکل تمیز ختم ہوگئی ہے، ہر کسی کے سامنے اپنا مفاد کھڑا ہے، سامنے مرتا ہوا انسان ہے، نظر اس کی جیب پر ہے، اس کی اکھڑتی ہوئی سانس سے کوئی غرض نہیں۔ کیا ہم خود کو انسان کہہ سکتے ہیں؟
ہمارا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے، حکمرانوں کو گالی دو، کتنا آسان اور کتنا سستا طریقہ ہے، اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کا۔ یہ سستا کام سب جی بھر کر کرتے ہیں، جبکہ اس کے سدباب کا کبھی نہیں سوچتے نہ ہی اس کا سدِ باب چاہتے ہیں۔ کیونکہ کرپٹ حکمران ہی ان کرپٹ لوگوں کے حق میں بہتر ہیں۔ یہ کیوں ایسا حکمران چاہیں گے جو آکر ان کی کرپشن پر ہاتھ ڈالے۔ جبکہ ایسا ممکن بھی نہیں، ایک کرپٹ قوم سے منتخب ہوکر اوپر آنے والا حاکم کرپٹ نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔
جس دن یہ قوم خود ٹھیک ہوجائے گی اس دن اس قوم پر کلین حاکم بھی آجائیں گے، یہ ایک بالکل، سیدھا سادھا فارمولا اور اصول ہے، جس سے سب لوگ واقف ہیں، لیکن اس کو عمل میں لانا نہیں چاہتے۔ کبھی حکمرانوں کو گالی دینے سے وقت نکال کر اپنے گریبانوں میں بھی جھانکو، ایک ایک گالی خود کو بھی دو۔