Atif
Chief Minister (5k+ posts)
عزیزم، مرشدم تاری بھائی
آپکی تحریروں نے بہت سوں کو لکھنے، ہنسنے، گانے، آنسو بہانے پر مجبور کیا آپ نے دل اور دامن بھر بھر داد سمیٹی ، آپ مشعل راہ تھے، آپ اپنی جماعت کے صف اول کے لکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے آپ کے لکھے گئے ایک ایک طنز پر ایک ایک تلخی پر آپ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے تھے، آج آپ مطعون ہیں یہ نہیں کہ لفظ کچھ اور ہیں یہ نہیں کہ طنز کچھ اور ہیں یہ نہیں کہ سوچ کچھ اور ہے ۔ بس واقعہ یہ ہے کہ ناجائز کو ناجائز کہنے کا چلن بھی نہیں بدلہ آپکا۔ آپکا واسطہ ان سے پڑگیا ہے جنہیں مریم نواز پر کی گئی گھٹیا تنقید پر قلم اٹھانے کی توفیق کبھی نہ ہوئی، بلاول ، الطاف حسین، نواز شریف، پر کی جانے والی گندی گھٹیا پست تنقید پر ان میں سے کسی نے کبھی کسی کو نہیں کہا کہ تمہارا لہجہ تلخ ہے تمہارا انداز استہزائیہ ہے لیکن آپ کے ایک لفظ خارجی پر سب آپکو اخلاقیات کا سبق پڑھانے آگئے ہیں۔
یہ میری امیدوں کے خلاف نہیں، یہ کوئی انہونی نہیں جس آزدی جس انقلاب کے انتظار میں ان کی آنکھوں کا پانی خشک ہوتا جارہا ہے ہم جیسے پہلے جانتے تھے کہ یہ انقلاب کیسی فسطائیت ہمراہ لانے والا ہے۔
جہاں ایک شکست خوردہ لیڈر ٹہل ٹہل کر ایک اپنی حیثیت ایک آئی جی کو دھمکانے کی سطح پر لے آئے، جہاں وہ پولیس والوں کی منتیں کرنے لگ جائے، جہاں وہ بات بات پر اللہ کو دہائیاں دینے لگ جائے ایسے انقلاب سے ایسی ہی سوچ پیدا ہونی تھی کہ جو مخالف ہے اس کے دلائل کا جواب نہ دیا جائے بلکہ اسے دھمکی دے کر یا اس کے پاوں پکڑ کر اسے باز رکھا جائے۔
کہاں ہیں اخلاقیات کے وہ چمپئین جو ہمیں تو راہ راست کی تلقین کرتے ہیں لیکن عمران خان کی شلواریں گیلی ہونے والی بات پر تنقید کرتے ہوئے ان کمی شلواریں گیلی ہوتی ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنھیں اپنے جائز مطالبات پورا ہونے ہونے کے لئے اتنی تگ و دو کرنے کرنے پر حکومت سے گلہ ہے لیکن آج تک اپنے لیڈر کو یہ مشورہ نہیں دے سکے کہ دھاندلی ثابت کرنے لے لئے ثبوت بھی دینا پڑتے ہیں جو آج تک ان کا لیڈر نہیں دے سکا۔
کہاں ہیں وہ حق کے متلاشی جو نواز کی مخالفت میں جی ہاں صرف نواز کی مخالفت میں نفرت سے چور اپنے لیڈر کے بہکاوے میں آکر مارچ تو کر لیتے ہیں، انقلاب اور آزادی کے لئے گلے تو پھاڑ رہے ہیں مگر اسلام آباد کے شہریوں کو محصور کردینے پر انہیں کسی بنیادی جمہوری حق کا احساس نہیں ہوتا۔
یہ ایسے منافق ہیں جو اپنے لیڈر کے بار بار وعدے اور تحریری معاہدے توڑنے جیسی گھٹیا چالبازیوں پر واہ واہ کرتے ہیں ، اس کے یو ٹرن کو بطورِ تبرک چومتے چاٹتے ہیں، اس کی گلاٹیوں کے جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کر نڈھال ہیں لیکن ان کے منہہ سے ایک لفظ بطور خراجِ تحسین نہیں نکلتا کہ حکومت نے اردے کے باوجود ان خارجیوں کے اسلام آباد آنے پر کوئی طاقت کا استعمال نہیں کیا، انکو ریڈ زون میں آنے کے لئے جبرا" منع نہیں کیا، وزیراعظم ہاوس پر قبضے کی بڑھکوں کے باوجود کسی سخت ردِ عمل کا مطاہرہ نہیں کیا۔
کون سوچ سکتا تھا پرویز مشرف کے دور میں کہ ایسے میلے لگائے جائیں اور مشرف کو للکارا جائے؟؟ یہی جمہوریت کا حسن ہے یہی جمہوریت ہے یہی ارتقا ہے۔
ارتقا کے لفظ پر تھریڈ در تھریڈ اُلٹیاں کرنے والو!تمہارا مقصد برا نہیں تمہارا طریقہ بہت برا ہے، تم لوگ اپنی ذات میں گلو بٹ ہو، آج یہ چند ہزار گلو بٹ پارلیمنٹ وغیرہ کا محاصرہ کئے بیٹھے ہیں ہیں کیونکہ ان بھوکی بلیوں کو امید ہے کہ ان کو اقتدار مل جائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہوگا بلکہ اب تو کبھی بھی نہیں ہوگا۔ شکر کرو انقلاب نہیں آیا ورنہ انقلاب کی تاریخ گواہ ہے اس کا نشانہ اس کے لانے والے ہی بنتے ہیں۔
سٹیج پر کھڑے ہو کر بکرے بلانے سے انقلاب نہیں آتے، لیڈر کو مٹی میں مل کر مٹی ہونا پڑتا ہے۔ پچھلے سال کنٹینر کو تضحیک کا نشانہ بنانے منافق کیوں چپ ہیں آج اس کنٹینرانہ انقلاب پر؟؟؟
خدا کی پناہ انقلابی بھی اب بے پیندے کے لوٹے بن چکے ہیں، ایک طرف فوج کو منتیں کر کے بلا رہے ہیں ، راحیل شریف کو "غیرت" کا سبق پڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف فرماتے ہیں اگر فوج آئی تو اس کا ذمہ دار نواز شریف ہوگا۔۔۔ کیا کہنے اس منطق کے واہ واہ
ایک طرف فوج کے آنے کی باتیں کرتے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں میری حکومت آئے گی تو ہم ان قرضوں کے ذمہ دار نہ ہوں گے جو دیگر ممالک پاکستان کو دے رہے ہں۔
ایک طرف دھمکاتے ہیں کہ اگر احتجاجی بےقابو ہوگئے تو میں ان کو قابو نہیں کرسکوں گا اور دوسری طرف کہتے ہیں ہم پرامن ہیں۔
ایک طرف کہتے ہیں کل وزیراعظم ہاوس میں گھس جائیں گے دوسری طرف کہتے ہیں پولیس والو میرے ورکرز کو ہاتھ بھی نہ لگانا۔
اسمبلیوں سے استعفے کا محض اعلان کرتے ہیں لیکن اتنی غیرت نہیں پیدا کرسکتے اپنے اندر۔
قومی اسمبلی سے بیزار اور خیبر پختونخواہ اسمبلی کو بھگوان سمجھتے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہ ہونے کے باوجود یہاں سے بھی استعفیٰ دے دیتے ہیں (ویسے ان کی اس حرکت سے متاثر ہو کر میں نے بھی امریکہ کی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ہے قوم میری یہ قربانی یاد رکھے اور مجھے بھی وزیر اعظم بنائے، کم از کم میں یوٹرن نہیں لوں گا، میرے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوگا)۔
بےکار و بےشعور بزدلوں کا ایک گروہ محض اپنی طاقت کے زور پرآج اپنی بچوں جیسی ضدیں منوانے کو ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ کل کو طالبان پورے پاکستان کے مدارس کے طلبا کو اکٹھے کرکے اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں گے کہ خلافت نافذ کرو پھر کرنا ان کے جائز مطالبات پورے اور یاد رکھنا ہم جیسےاس وقت ان کے ساتھ ہوں گے۔
چودہ لاشوں اور چار حلقوں پر اپنی سیاست چمکانے والوں، ان تمام دنوں میں ملک کو پہنچنے والے اقتصادی نقصان کے تم اور صرف تم ذمہ دار ہو، نواز اور زرداری جیسے حکمرانوں کی لوٹ مار کے باوجود یہ ملک پچھلے ایک سال میں ترقی کررہا تھا لیکن تم جیسے جنونیوں نے اس کی ترقی کا پہیہ روک دیا، کاش میرا اختیار ہوتا تو تمہارے ہی ڈنڈوں سے تمہارا وہ حال کرتا کہ آئیندہ کسی کی جرات نہ ہوتی کہ پاکستان کے ساتھ کھیلے، نفرت بھرے جنونیو! تم اس ملک کا ناسور ہو۔
محمود خان اچکزئی کی سیاست سے ہزار اختلاف سہی لیکن ایک بات بہت کام کی کہی اس نے کہ عمران خان اور قادری صاھب کی فالونگ لاکھوں میں ہو گی لیکن اس پارلیمنٹ کی فالونگ کروڑوں میں ہے"۔ یہ نقطہ جس انقلابی کو سمجھ آگیا اسے باشعور لوگوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے کے لئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی۔
اور ان باشعور لوگوں کے دل کی آواز ہے جو آپ لکھتے ہیں ہیں تاری بھائی، ایسا نہ ہو کہ طنز وتشنیع ، دشنام طرازی سے مایوس ہو جائیں، کروڑوں لوگوں کے دل کی آواز بنے رہیے گا لاکھوں نفرت بھرے دلوں کے کہنے پر مت چلنا، ہمارا قلم بِکنے، ڈرنے اور مایوس لوگوں کا ترجمان کبھی نہیں بننا چاہیے۔
یہ میری امیدوں کے خلاف نہیں، یہ کوئی انہونی نہیں جس آزدی جس انقلاب کے انتظار میں ان کی آنکھوں کا پانی خشک ہوتا جارہا ہے ہم جیسے پہلے جانتے تھے کہ یہ انقلاب کیسی فسطائیت ہمراہ لانے والا ہے۔
جہاں ایک شکست خوردہ لیڈر ٹہل ٹہل کر ایک اپنی حیثیت ایک آئی جی کو دھمکانے کی سطح پر لے آئے، جہاں وہ پولیس والوں کی منتیں کرنے لگ جائے، جہاں وہ بات بات پر اللہ کو دہائیاں دینے لگ جائے ایسے انقلاب سے ایسی ہی سوچ پیدا ہونی تھی کہ جو مخالف ہے اس کے دلائل کا جواب نہ دیا جائے بلکہ اسے دھمکی دے کر یا اس کے پاوں پکڑ کر اسے باز رکھا جائے۔
کہاں ہیں اخلاقیات کے وہ چمپئین جو ہمیں تو راہ راست کی تلقین کرتے ہیں لیکن عمران خان کی شلواریں گیلی ہونے والی بات پر تنقید کرتے ہوئے ان کمی شلواریں گیلی ہوتی ہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنھیں اپنے جائز مطالبات پورا ہونے ہونے کے لئے اتنی تگ و دو کرنے کرنے پر حکومت سے گلہ ہے لیکن آج تک اپنے لیڈر کو یہ مشورہ نہیں دے سکے کہ دھاندلی ثابت کرنے لے لئے ثبوت بھی دینا پڑتے ہیں جو آج تک ان کا لیڈر نہیں دے سکا۔
کہاں ہیں وہ حق کے متلاشی جو نواز کی مخالفت میں جی ہاں صرف نواز کی مخالفت میں نفرت سے چور اپنے لیڈر کے بہکاوے میں آکر مارچ تو کر لیتے ہیں، انقلاب اور آزادی کے لئے گلے تو پھاڑ رہے ہیں مگر اسلام آباد کے شہریوں کو محصور کردینے پر انہیں کسی بنیادی جمہوری حق کا احساس نہیں ہوتا۔
یہ ایسے منافق ہیں جو اپنے لیڈر کے بار بار وعدے اور تحریری معاہدے توڑنے جیسی گھٹیا چالبازیوں پر واہ واہ کرتے ہیں ، اس کے یو ٹرن کو بطورِ تبرک چومتے چاٹتے ہیں، اس کی گلاٹیوں کے جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کر نڈھال ہیں لیکن ان کے منہہ سے ایک لفظ بطور خراجِ تحسین نہیں نکلتا کہ حکومت نے اردے کے باوجود ان خارجیوں کے اسلام آباد آنے پر کوئی طاقت کا استعمال نہیں کیا، انکو ریڈ زون میں آنے کے لئے جبرا" منع نہیں کیا، وزیراعظم ہاوس پر قبضے کی بڑھکوں کے باوجود کسی سخت ردِ عمل کا مطاہرہ نہیں کیا۔
کون سوچ سکتا تھا پرویز مشرف کے دور میں کہ ایسے میلے لگائے جائیں اور مشرف کو للکارا جائے؟؟ یہی جمہوریت کا حسن ہے یہی جمہوریت ہے یہی ارتقا ہے۔
ارتقا کے لفظ پر تھریڈ در تھریڈ اُلٹیاں کرنے والو!تمہارا مقصد برا نہیں تمہارا طریقہ بہت برا ہے، تم لوگ اپنی ذات میں گلو بٹ ہو، آج یہ چند ہزار گلو بٹ پارلیمنٹ وغیرہ کا محاصرہ کئے بیٹھے ہیں ہیں کیونکہ ان بھوکی بلیوں کو امید ہے کہ ان کو اقتدار مل جائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہوگا بلکہ اب تو کبھی بھی نہیں ہوگا۔ شکر کرو انقلاب نہیں آیا ورنہ انقلاب کی تاریخ گواہ ہے اس کا نشانہ اس کے لانے والے ہی بنتے ہیں۔
سٹیج پر کھڑے ہو کر بکرے بلانے سے انقلاب نہیں آتے، لیڈر کو مٹی میں مل کر مٹی ہونا پڑتا ہے۔ پچھلے سال کنٹینر کو تضحیک کا نشانہ بنانے منافق کیوں چپ ہیں آج اس کنٹینرانہ انقلاب پر؟؟؟
خدا کی پناہ انقلابی بھی اب بے پیندے کے لوٹے بن چکے ہیں، ایک طرف فوج کو منتیں کر کے بلا رہے ہیں ، راحیل شریف کو "غیرت" کا سبق پڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف فرماتے ہیں اگر فوج آئی تو اس کا ذمہ دار نواز شریف ہوگا۔۔۔ کیا کہنے اس منطق کے واہ واہ
ایک طرف فوج کے آنے کی باتیں کرتے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں میری حکومت آئے گی تو ہم ان قرضوں کے ذمہ دار نہ ہوں گے جو دیگر ممالک پاکستان کو دے رہے ہں۔
ایک طرف دھمکاتے ہیں کہ اگر احتجاجی بےقابو ہوگئے تو میں ان کو قابو نہیں کرسکوں گا اور دوسری طرف کہتے ہیں ہم پرامن ہیں۔
ایک طرف کہتے ہیں کل وزیراعظم ہاوس میں گھس جائیں گے دوسری طرف کہتے ہیں پولیس والو میرے ورکرز کو ہاتھ بھی نہ لگانا۔
اسمبلیوں سے استعفے کا محض اعلان کرتے ہیں لیکن اتنی غیرت نہیں پیدا کرسکتے اپنے اندر۔
قومی اسمبلی سے بیزار اور خیبر پختونخواہ اسمبلی کو بھگوان سمجھتے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہ ہونے کے باوجود یہاں سے بھی استعفیٰ دے دیتے ہیں (ویسے ان کی اس حرکت سے متاثر ہو کر میں نے بھی امریکہ کی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا ہے قوم میری یہ قربانی یاد رکھے اور مجھے بھی وزیر اعظم بنائے، کم از کم میں یوٹرن نہیں لوں گا، میرے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوگا)۔
بےکار و بےشعور بزدلوں کا ایک گروہ محض اپنی طاقت کے زور پرآج اپنی بچوں جیسی ضدیں منوانے کو ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ کل کو طالبان پورے پاکستان کے مدارس کے طلبا کو اکٹھے کرکے اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں گے کہ خلافت نافذ کرو پھر کرنا ان کے جائز مطالبات پورے اور یاد رکھنا ہم جیسےاس وقت ان کے ساتھ ہوں گے۔
چودہ لاشوں اور چار حلقوں پر اپنی سیاست چمکانے والوں، ان تمام دنوں میں ملک کو پہنچنے والے اقتصادی نقصان کے تم اور صرف تم ذمہ دار ہو، نواز اور زرداری جیسے حکمرانوں کی لوٹ مار کے باوجود یہ ملک پچھلے ایک سال میں ترقی کررہا تھا لیکن تم جیسے جنونیوں نے اس کی ترقی کا پہیہ روک دیا، کاش میرا اختیار ہوتا تو تمہارے ہی ڈنڈوں سے تمہارا وہ حال کرتا کہ آئیندہ کسی کی جرات نہ ہوتی کہ پاکستان کے ساتھ کھیلے، نفرت بھرے جنونیو! تم اس ملک کا ناسور ہو۔
محمود خان اچکزئی کی سیاست سے ہزار اختلاف سہی لیکن ایک بات بہت کام کی کہی اس نے کہ عمران خان اور قادری صاھب کی فالونگ لاکھوں میں ہو گی لیکن اس پارلیمنٹ کی فالونگ کروڑوں میں ہے"۔ یہ نقطہ جس انقلابی کو سمجھ آگیا اسے باشعور لوگوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے کے لئے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی۔
اور ان باشعور لوگوں کے دل کی آواز ہے جو آپ لکھتے ہیں ہیں تاری بھائی، ایسا نہ ہو کہ طنز وتشنیع ، دشنام طرازی سے مایوس ہو جائیں، کروڑوں لوگوں کے دل کی آواز بنے رہیے گا لاکھوں نفرت بھرے دلوں کے کہنے پر مت چلنا، ہمارا قلم بِکنے، ڈرنے اور مایوس لوگوں کا ترجمان کبھی نہیں بننا چاہیے۔
Last edited by a moderator: