jani1
Chief Minister (5k+ posts)

حوالدار کا ہاتھ۔۔
شاید گُجر نے سچ کو واقعی پالیا تھا ۔ کہ جب سے گنج پُور کےوڈے چوہدری کی چوری رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی تب سے کسی نے گُجر کو پنڈ کی گلیوں میں نہیں پایا تھا۔۔یا یہ بھی ممکن تھا کہ پنڈ میں ہی کسی اور رُوپ سے رہتا ہو۔۔
مورخین لکھتے ہیں کہ چوہدری کی چوری سے ناصرف اُس سے پنڈ کی سربراہی گئی بلکہ اُس کے ٹکڑوں پر پلنے والوں کو اُس کے سر پر بھی بٹھا دیا گیا ۔اُس کےخاص کارندے ماکا کے بھائی خاقا کو پنڈ کا سربراہ بنا کر۔دراصل جب قاضی نے حوالدار کے بندے چوہدری کے ڈیرے اور حویلی کی تلاشی کے لیئے بھیجے تو ڈیرے اور حویلی کی تلاشی پر تو وہ بعد میں آتے۔ پہلے اُنہوں نے چوہدری کی دھوتی و جامہ تلاشی لی۔ وجہ تھی چوہدری کی بدلی ہوئی سی چال۔
جو چیز اُس کی دھوتی کی خُفیہ جیب سے برآمد ہوئی وہ بعد میں اُس کی سربراہی سے بے دخلی کا سبب بھی بنی۔۔مگر چوہدری قاضی کے اس فیصلے پر سخت برہم و رنجیدہ تھا۔ ۔کہ تلاشی انہوں نے ڈیرے و حویلی کی لینی تھی اور بے دخل میری دھوتی سے برآمد ہونے والی معمُولی سی چیز پر کیا ۔ یہ تو ناانصافی ہے۔۔وہ معمُولی سی چیز تھی کیا۔۔اس پر اکثر تاریخدانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔۔ لہٰذا اُس چیز کی دُرست گیسنگ ہم قارئین پر چھوڑے دیتے ہیں۔۔
چوہدری کی مزید تلاشی ابھی جاری تھی اگر اُس میں بھی وہ چور ثابت ہوجاتا تو اُس کا ڈیرہ اور حویلی بھی ضبظ کیئے جاسکتے تھے۔ اور یہی وہ اصل وجہ تھی جس نے چوہدری کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔جس کی وجہ سے وہ رنجیدہ رنجیدہ سا رہنے لگا تھا۔
رنج تو اچھے بھلے آدمی کا گنج بنا دیتی ہے تو جن کا پہلے سے ہی گنج ہو اُس کا کیا بنایا ہوگا۔۔رنج میں یا تو وہ رنجیدہ ہو کر ایک کونے میں پڑا رہتا ہے یا پھر اُس رنج اور غم کو مٹانے یا اُسے ہلکہ کرنے کی سوچھتا ہے۔۔وڈہ چوہدری جو فرعون فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی پیدل تھا۔ اُس نے غم کو مٹانے کی ایک ترکیب سوچھی کہ اب دفاعی حکمت عملی کی جگہ جارحانہ حکمت عملی سے کام چلایا جائے اور اپنے کارندوں کے ذریعے قاضی پر دباو ڈالا جائے وغیرہ۔ شاید اسی سے میری لوہے کے چنوں والی دال گھل پائے۔ مگر وہ لوہا ہی کیا جو اتنی آسانی سے گھل جائے۔۔دوسرا طریقہ جو کہ اُس کا پُرانا اور آبائی و خاندانی تھا۔۔کہ اگر گریبان والا ہاتھ نہ چلے تو پیروں پر رکھے ہاتھ کو چلایا جائے۔۔
پہلے وہ پہلوان کو ہی اپنا دُشمن سمجھتا تھا۔ مگر اب قاضی اور حوالدار کو دُشمنوں کی فہرست میں ترقی دے کر پہلے دوسرے نمبر پر لے آیا تھا۔اُس کے خیال میں اُس کے ساتھ جو ہوا اُس میں حوالدار کا ہاتھ تھا۔۔بعض روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ چوہدری کی بدمعاشی اور جارحانہ انداز بس دکھاوے کا تھا۔ اور اندر سے اُس کی حالت پتلی ہوئی جارہی تھی۔۔اور کسی سمجھوتے یا معافی ملنے کا آرزُو مند تھا۔۔جسے آج کل این آر او کہا جاتا ہے۔۔ اُس زمانے میں بھی این آر او ہُوا کرتا تھا۔۔این آر او مطلب۔۔ نہ روکھ اوئے۔۔یعنی بھاگ جانے دے۔
وہ دن چوہدریوں کے لیئے انتہائی کرب کے تھے۔۔ ڈیرے پر خاموشیوں کے ڈیرے تھے۔ نکہ تھا وڈہ تھا اور اُن کے غمگین شام سویرے تھے۔۔سوری ۔ ابھی صرف وڈے کے سوگ اور غم کا عرصہ چل رہا تھا۔ کیونکہ جو کاروائی چل رہی تھی اُس میں نکہ بالکُل کسی مچھلی کی طرح پسل کے نکل گیا تھا۔بعد میں جو ہوتا وہ بعد کی بات تھی۔نکے ۔۔
سوچھتا ہوں یہ پنڈ اس کے کھیت کھلیان اور اس کی گلیوں کو خیر باد کہہ کر کہیں دُور جنگلوں کی طرف نکل جاوں ملنگ بن کے۔
وڈے چوہدری نے ڈیرے کی ایک چارپائی پر بیٹھے۔حُقے کا ایک زور دار دم بھرکر دھواں ناک اور مُنہ سے خارج کرتے ہوئےرنجیدہ اور جزباتی لہجے میں کہا۔
لوجی کرلو گل۔۔ اب یہ بھی گُجر کی طرح کہیں جنگلوں کی طرف نکلنا چاہتے ہیں۔۔ویسے اور چارہ بھی کیا ہے ان کے پاس۔۔ نکے نے دل میں سوچھا ۔ پھر جواب دیا کہ۔۔ نہیں پاجی سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ شان ہو اس پنڈ کی۔ آپ آن ہو۔آپ ایک آواز لگاو۔۔۔
بس۔۔بس کردے نکے۔ بہت ہوگئی یہ چاپلُوسانہ گُفتگُو۔ کوئی کام کی بات کر۔
وڈے نے نکے کی بات دھویں کو کھانس کر نکالتے ہوئے تُرش لہجے میں چلاتے ہوئے کاٹی۔
کام کی بات آپ کی سمجھ میں آتی کب ہے۔۔چاپُوسی اور تعریف کرانے کے بیمار ہیں آپ۔ ۔نکہ دل ہی دل میں وڈے پر چیخ پڑا۔۔مگر زبان سے کہا ۔جیسا آپ کہیں پاجی۔۔
ابھی ان کی باتیں چل رہی تھیں کہ ڈیرے کے دروازے پر ایک انسان نُما گینڈا سوری میرا مطلب گینڈے نُما انسان روتی صُورت بنائے نُمُودار ہوا۔۔جس کی گولائی اور حُجم کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اسے فُرصت میں کھلایا گیا ہے۔۔ آپ ٹھیک سمجھے۔ یہ وڈے کا وڈہ والا پُتر تھا ۔ببلُو۔ جو کہ الحمدُللہ پڑھ کے جھوٹ بولنے کی مہارت رکھتا تھا۔
آو پُتر ۔۔کی ہویا اے۔۔ وڈے نے لاڈ سے اُسے مُخاطب کیا۔۔
پپا۔۔پپا۔۔وہ نکے چاچُو کے نکے ۔کُکڑی نے مالا۔۔
وڈے کو سامنے پاکر اور اُس کے مُنہ سے لاڈ بھرے الفاظ سُن کر اُس کا دل ہی بھر آیا۔۔اور باقائدہ زارو قطار رونے لگ گیا تھا۔ ۔
مگر پپا۔۔میں نا۔اس بات پہ نہیں لو لہا۔۔
تو پھر کیا ہوا میرے لاڈلے کو۔۔ وڈہ چارپائی سے اُٹھ کر اُسے گلے لگانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ ۔ظاہر ہے کوشش اس لیئے کہ وڈے کے ہاتھ جو جُرائم کے معاملے میں تو کافی لمبے تھےمگر اپنے گینڈے بیٹے کی چوڑائی اور گولائی کے گرد گھومنے کے لیئے ناکافی تھے۔
وہ نہ ۔۔حوالدار انتل نے میری چھڈی میں بھی ہاتھ مالا ۔کہ میں بھی آپ کی طرح کُچھ چوری کر کے لے جا تو نہیں رہا۔۔ہہہہی۔۔مگر میری جیب سے چاکلیٹ اور ٹافیاں ہی نکلیں۔۔
اچھا پُتر ۔۔اب رو نہ۔۔یہ لے ۔دُکان سے اور چاکلیٹ لے لینا۔۔
وڈے نے جیب سے چند روپے نکال کر ببلُو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔
جس پر ببلُو راضی ہوکر چلاگیا۔۔
یار نکے ۔۔یہ حوالدار کا ہاتھ ہے یا کوئی جادُوئی چھڑی جو ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔۔ایک بچے کو بھی نہیں بخشہ۔۔کیا کیا جائے ۔۔اور کیسے اس کہانی سے ہی نکلا جائے۔۔
وڈے چوہدری نے چارپائی پر بیٹھ کر اور ایک طرف کو تکیئے پر ٹیک لگاکر فکر مندانہ انداز میں سوچھتے ہوئے نکے سےپُوچھا۔۔
پاجی شُکر کریں کہ یہ صرف حوالدار کا ہاتھ ہے اگر چھڑی ہوتی تو جانے دھوتی سے اور کتنے آگے چلی جاتی۔۔نکے چوہدری نے حسبِ عادت دل ہی دل میں وڈے کا تمسخر اُڑاتے ہوئے سوچھا۔۔پھر بولا۔۔ پاجی جو ہاتھ آپ کی طرف بڑھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔۔ پُورا پنڈ آپکے ساتھ کھڑا ہے۔۔
شاید نکہ چوہدری ٹنڈ کہنا چاہ رہا تھا۔۔پر مُنہ سے پنڈ نکل گیا۔۔کیونکہ اب اُن کے اپنے ٹنڈ ہی تھے جو اُن کے ساتھ تھے جبکہ پنڈ تو کب کا بیگانہ ہوچلا تھا۔۔
جاری ہے۔۔
کھلاڑیوں کی دعوت۔.Captionistan(30)
http://facebook.com/JANI1JANI1/
Last edited: