حمام کے ننگے
جرمن اخبار نے سب اخباروں کو، ذلیل اشرافیہ کی مالیاتی بد عنوانی کا کچا چتّا کھول کر، کل ٹی وی پر سب کو ننگا کر دیا ہے۔
اس بھیانک جرم میں پاکستان کی ذلیل اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ آف شور کمپنیوں کے مالکان میں شریف خاندان، بے نظیر بھٹو، جاوید پاشا، رحمان ملک، سینیٹر عثمان سیف اللہ اینڈ فیملی، چودھری برادران کے رشتہ دار وسیم گلزار، حج اسکینڈل کے شریک ملزم زین سکھیرا بھی شامل ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں بنانے والوں میں پاکستان کی کئی اہم کاروباری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں بارایسوسی ایشن کے ارکان، ایک حاضر سروس جج اور ریٹائرڈ جج ملک قیوم کے نام بھی درج ہیں۔ پاکستانی شخصیات میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سیف اللہ خاندان کی ہیں۔
آئس لینڈ کا وزیرِ اعظم اپنی آدھی کابینہ سمیت کل شام ہی مستعفی ہو گیا تھا
دنیا کے کئی ممالک پانامہ پیپرز کے انکشاف پر ایکشن لے رہے ہیں، پاکستان میں کیا ایکشن لیا جاتا ہے؟ اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کیونکہ حمام میں سب ننگے ہیں، کیا حکمران، کیا اپوزیشن کیا جج، کیا بزنس مین، سب ایک تھیلی کے چتّے بٹّے ہیں۔
کینیڈا کے ریوینیو منسٹر نے ٹیکس حکام کو پانامہ پیپر دیکھنے کا حکم دیدیا ہے، جو اسبات کا جائزہ لے گا کہ کسی نے ٹیکس چوری تو نہیں کی ہے، کیونکہ قانون کے مطابق پیرون ملک انکم بھی شو کرنی ہوتی ہے۔
199 billion ڈالر تو پیپر پر شو ہے، لیکن اندزہ لگایا جارہا ہے کہ اس طرح حکومت کو تقریبا 7-8 بلین ڈالر سالانہ ٹیکس کی مد میں نقصان ہوتا ہے۔. ،
،
لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہوگا؟ کبھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ حکومت میں باریاں لینے والے ان سب کے ان کمپنیوں میں پیسے ہیں۔ قوم کے سامنے ان کے کپڑے اتر چکے ہیں اور مردوں کے کفن بھی اتر چکے ہیں۔ اب یہ سب ننگے ہوچکے ہیں، لیکن یہ شرمندہ نہ ہوں گے، کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، اور حمام کے ننگے شرمایا نہیں کرتے ہیں۔
+++
یہ ارب پتی کیسے بنتے ہیں؟
پہلے یہ ایک پراپرٹی خریدتے ہیں، رشوت دینے والا اس کو مہنگے داموں خرید لیتا ہے، اس طرح وائٹ منی ہوجاتی ہے، اور بزنس کی چھتری بھی مل جاتی ہے۔
اب عمر شیمہ ریسرچ کرکے یہ ثابت کرے گا، کہ کرپشن نہیں ہوئی ہے، بلکہ ہر سودے میں حسین نواز کو کئی کئی ملین ڈالر کا منافع ہوا ہے۔
جرمن اخبار نے سب اخباروں کو، ذلیل اشرافیہ کی مالیاتی بد عنوانی کا کچا چتّا کھول کر، کل ٹی وی پر سب کو ننگا کر دیا ہے۔
اس بھیانک جرم میں پاکستان کی ذلیل اشرافیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ آف شور کمپنیوں کے مالکان میں شریف خاندان، بے نظیر بھٹو، جاوید پاشا، رحمان ملک، سینیٹر عثمان سیف اللہ اینڈ فیملی، چودھری برادران کے رشتہ دار وسیم گلزار، حج اسکینڈل کے شریک ملزم زین سکھیرا بھی شامل ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں بنانے والوں میں پاکستان کی کئی اہم کاروباری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں بارایسوسی ایشن کے ارکان، ایک حاضر سروس جج اور ریٹائرڈ جج ملک قیوم کے نام بھی درج ہیں۔ پاکستانی شخصیات میں سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سیف اللہ خاندان کی ہیں۔
آئس لینڈ کا وزیرِ اعظم اپنی آدھی کابینہ سمیت کل شام ہی مستعفی ہو گیا تھا
دنیا کے کئی ممالک پانامہ پیپرز کے انکشاف پر ایکشن لے رہے ہیں، پاکستان میں کیا ایکشن لیا جاتا ہے؟ اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کیونکہ حمام میں سب ننگے ہیں، کیا حکمران، کیا اپوزیشن کیا جج، کیا بزنس مین، سب ایک تھیلی کے چتّے بٹّے ہیں۔
کینیڈا کے ریوینیو منسٹر نے ٹیکس حکام کو پانامہ پیپر دیکھنے کا حکم دیدیا ہے، جو اسبات کا جائزہ لے گا کہ کسی نے ٹیکس چوری تو نہیں کی ہے، کیونکہ قانون کے مطابق پیرون ملک انکم بھی شو کرنی ہوتی ہے۔
199 billion ڈالر تو پیپر پر شو ہے، لیکن اندزہ لگایا جارہا ہے کہ اس طرح حکومت کو تقریبا 7-8 بلین ڈالر سالانہ ٹیکس کی مد میں نقصان ہوتا ہے۔. ،
،
لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہوگا؟ کبھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ حکومت میں باریاں لینے والے ان سب کے ان کمپنیوں میں پیسے ہیں۔ قوم کے سامنے ان کے کپڑے اتر چکے ہیں اور مردوں کے کفن بھی اتر چکے ہیں۔ اب یہ سب ننگے ہوچکے ہیں، لیکن یہ شرمندہ نہ ہوں گے، کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، اور حمام کے ننگے شرمایا نہیں کرتے ہیں۔
+++
یہ ارب پتی کیسے بنتے ہیں؟
پہلے یہ ایک پراپرٹی خریدتے ہیں، رشوت دینے والا اس کو مہنگے داموں خرید لیتا ہے، اس طرح وائٹ منی ہوجاتی ہے، اور بزنس کی چھتری بھی مل جاتی ہے۔
اب عمر شیمہ ریسرچ کرکے یہ ثابت کرے گا، کہ کرپشن نہیں ہوئی ہے، بلکہ ہر سودے میں حسین نواز کو کئی کئی ملین ڈالر کا منافع ہوا ہے۔