حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ

ابابیل

Senator (1k+ posts)
ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن




حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ


نام و نسب:۔
سودہ نام تھا، قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں، جو قریش کا ایک نامور قبیلہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبدودبن نصربن مالک بن حسل بن عامر ابن لوی، ما کا نام شموس تھا، یہ مدینہ کے خاندان بنو نجار سے تھیں، انکا پورا نام و نسب یہ ہے، سشموس بنت قیس بن زیدبن عمرو بن لبید بن فراش بن عامر بن غنم بن عدی بن النجا۔
نکاح:۔
سکران رضی اللہ تعالی عنہ بن عمرو سے جو انکے والس کے ابن عم تھے، شادی ہوئی،
قبول اسلام:۔
ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہوئیں، انکے ساتھ انکے شوہر بھی اسلام لائے۔ اس بنا پر انکو قدیم السلام ہونے کا شرف حاصل ہے، حبشہ کی پہلی ہجرت کے وقت تک حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ اور انکے شوہر مکہ ہی میں مقیم رہے، لیکن جب مشرکین کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہ رہی اور مہاجرین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کے لیے آمادہ ہوئی تو ان میں حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ اور انکےشوہر بھی شامل ہو گئے۔
کئی برس حبشہ میں رہ کر مکہ کو واپس آئیں، اور سکران رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ دن کے بعد وفات پائی۔


حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ حرم نبوت بنتی ہیں:۔

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام ازواج مطہرات میں یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد سب سے پہلے وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے انتقال سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پریشان و غمگین تھے، یہ حالت دیکھ کر خولہ رضی اللہ تعالی عنہ بنت حکیم (عثمان بن مظعون کی بیوی) نے عرض کی کہ آپ کو ایک مونس و رفیق کی ضرورت ہے، آپ نے فرمایا ہاں، گھر بار بال بچوں کا انتظام سب خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ

کے متعلق تھا، آپکے ایماء سے وہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کے پاس گئیں، اور جاہلیت کے طریقہ پر اسلام کیا، انعم صباحا، پھر نکاح کا پیغام سنایا، انہوں نے کہا ہاں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) شریف کفو ہیں، لیکن سودہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی تو دریافت کرو، غرض سب مراتب طے ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے اور سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد نے نکاح پڑھایا، چار سو درہم مہر قرار پایا، نکاح کے بعد عبداللہ بن زمع(حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی) جو اس وقت کافر تھے، آئے اور انکو یہ حال معلوم ہوا تو سر پر خاک ڈال لی کہ کیا غضب ہو گیا، چنانچہ اسلام لانے کے بعد اپنی اس حماقت و نادانی پر ہمیشہ انکو افسوس آتا تھا،
(زرقانی ج3ص261)

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نکاح رمضان سن دس نبوی میں ہوا، اور چونکہ انکے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح کا زمانہ قریب قریب ہے، اسلیئے مؤرخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کو تقدم ہے اور عبداللہ بن محمد بن عقیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مقدم سمجھتے ہیں۔
(طبقات ابن سعد ج8ص36۔37۔38۔39وزرقانی ج3ص360)
بعض روائتوں میں ہے کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے پہلے شوہر کی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا، ان سے بیان کیا تو بولے کہ شائد میری موت کا زمانہ قریب ہے، اور تمھارا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گا، چنانچہ یہ خواب حرف بہ حرف پورا ہوا،
(زرقانی ج3ص260وطبقات ابن سعدج8ص38،39۔)

عام حالات:۔

نبوت کے تیرہویں سال جب آپ نے مدینہ منورہ میں ہجرت کی تو حضرت زیدرضی اللہ تعالی عنہ بن حارثہ کو مکہ بھیجا کہ حجرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کو لیکر آئیں، چنانچہ وہ اور حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالی عنہ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ مدینہ آئیں،
سن دس ہجری میں جب آنحجرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ساتھ تھیں، چونکہ وہ بلند و بالا و فربہ اندام تھیں اور اس وجہ سے تیزی کے ساتھ چل پھر نہیں

سکتی تھیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اور لوگوں کے مزدلفہ سے روانہ ہونے کے قبل انکو چلا جانا چاہیے، کیونکہ انکو بھیڑ بھاڑ میں چلنے سے تکلیف ہو گی،
(صحیح بخارج1ص22

وفات:۔

ایک دفعہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں، انہوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے سب سے پہلے کون مرے گا، فرمایا کہ جسکا ہاتھ سب سے بڑا ہے، لوگوں نے ظاہرہ معنی سمجھے، ہاتھ ناپے گئے تو سب سے بڑا ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کا تھا،(طبقات ج8ص37)لیکن جب سب سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا۔ تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی بڑائی سے آپ کا مقصد سخاوت و فیاضی تھی، بہرحال واقدی نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سال وفات 54 ہجری بتایا ہے،(طبقات ابن سعدج8ص37،39) لیکن ثقات کی روایت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اخیر زمانہ خلافت میں انتقال کیا۔(اسدالغابہ واستیعاب و خلاصہ تہذیب حالات سودہ رضی اللہ تعالی عنہ)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سن 23 ہجری میں وفات پائی ہے اس لیے حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کا سال 22 ہجری ہو گا خمیس میں یہی روایت ہےاور سب س ےزیادہ صحیح ہے،
(زرقانی ج3ص262) اور اسکو امام بخاری، ذہبی، جزری ابن عبدالبر اور خزرجی نے اختیار کیا ہے۔

اولاد:۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، پہلے شوہر(حضرت سکران رضی اللہ تعالی عنہ) نے ایک لڑکا یادگار چھوڑا تھا، جسکا نام عبدالرحمن تھا، انہوں نے جنگ جلولاء (فارس) میں شہادت حاصل کی۔(زرقانی ج2ص260)
حلیہ:۔
ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما میں حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ کوئی بلند بالا نہ تھا، حضرت عائشہ کا قول ہے کہ جس نے انکو دیکھ لیا، اس سے وہ چھپ نہیں سکتی تھیں۔(صحیح بخاری ج3ص707) زرقانی میں ہے کہ انکا ڈیل لانبا تھا،(زرقانی ض3ص459۔)

فضل و کمال:۔

حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ سے صرف پانچ حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے بخاری میں صرف ایک ہے، صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ، ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اور یحی بن عبدالرحمن(بن اسعد بن زرارہ) نے ان سے روایت کی ہے،
اخلاق:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں۔(طبقات ج8ص37)
"سودہ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اسکے قالب میں میری روح ہوتی۔"
اطاعت و فرمانبرداری میں وہ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما سے ممتاز تھیں، آپ نے حجة الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا،
(زرقانی ج3ص291) چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس حکم پر اس شدت سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے نہ نکلیں، فرماتی تھیں کہ میں حج و عمرہ دونوں کر چکی ہوں، اور اب خدا کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھونگی،(طبقات ج 8ص3

سخاوت و فیاضی بھی انکا ایک اور نمایاں وصف تھا، اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا وہ اس وصف میں بھی سب سے ممتاز تھیں، ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انکی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی، لانے والے سے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ بولا درہم، بولیں کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کہکر اسی وقت سبکو تقسیم کر دیا،
(اصابہ ج 8 ص 11 وہ طائف کی کھالیں بناتی تھیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی، اسکو نہایت آزادی کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں،(ایضاً ص 65 حالات خیسہ)

ایثار میں بھی وہ ممتاز حیثیت رکھتی تھیں، وہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ آگے پیچھے نکاح میں آئیں تھیں لیکن چونکہ انکا سن بہت زیادہ تھا۔ اس لیے جب بوڑھی ہو گئیں تو انکو سوءظن ہوا کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں، اور شرف صحبت سے محروم ہو جائیں، اس بنا پر انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دے دی اور انہوں نے خوشی سے قبول کر لی،
( صحیح بخاری و مسلم(کتاب النکاح جواز ہبتہ نوبہتا لصرنتہا)
مزاج تیز تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ انکی بےحد معترف تھیں، لیکن کہتی ہیں کہ وہ بہت جلد غصہ سے بھڑک اٹھتی تھیں، ایک مرتبہ قضائے حاجت کے لیے صحرا کو جا رہی تھیں، راستے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مل گئے، چونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کا قد نمایاں تھا، انہوں نے پہچان لیا، حضرت عمر کو ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہما کا باہر نکلنا ناگوار تھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پردہ کی تحریک کر چکے تھے، اس لیے بولے سودہ رضی اللہ تعالی عنہ تمکو ہم نے پہچان لیا۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سخت ناگوار ہوا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی، اسی واقعہ کے بعد آیتِ حجاب نازل ہوئی
۔(صحیح بخاری ج1ص
26
)
باایں ہمہ ظرافت اس قدر تھی کہ کبھی کبھی اس انداز سے چلتی تھیں، کہ آپ ہنس پڑتے تھے ایک مرتبہ کہنے لگیں کہ کل رات کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی، آپ نے (اس قدر دیر تک) رکوع کیا کہ مجھکو نکسیر پھوٹنے کا شبہہ ہو گیا، اس لیے میں دیر تک ناک پکڑے رہی، آپ اس جملہ کو سن کر مسکرا اٹھے،
(سعدج8ص37)


دجال سے بہت ڈرتی تھیں، ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آ رہی تھیں دونوں نے مذاق کے لہجہ میں کہا تم نے کچھ سنا؟ بولیں کیا؟ کہا دجال نے خروج کیا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ سنکر گھبرا گئیں، ایک خیمہ جس میں کچھ آدمی آگ سلگا رہے تھے، قریب تھا، فورا اسکے اندر داخل ہو گئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ ہنستی ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں، اور آپکو اس مذاق کی خبر کی، آپ تشریف لائے اور خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ ابھی دجال نہیں نکلا ہے، یہ سن کر حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہ باہر آئیں۔ تو مکڑی کا جالا بدن میں لگا ہوا تھا، اسکو باہر آ کر صاف کیا،
(اصابہ ج8ص65)
میرے نزدیک یہ روایت مشکوک اور سنداً ضعیف ہے۔
 
Last edited by a moderator:

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
ازواج مطہرات اور اصحاب رسول کی زندگیاں ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
​جزاک اللہ میرے بھائی۔ الہ تعالیٰ ہم کو اپنے حبیبﷺ کی اور انکے اہل بیت کی اور انکے اصحاب کی سچی محبت نصیب فرمائے۔