Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
حسن ابن صباح کی جنت
آج سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے حسن ابن صباح نامی شخص نے مشرقی وسطی کے ممالک میں ہلچل مچا دی تھی۔ موجودہ ایران سے تعلق رکھنے والے ابن صباح* غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک تھا.* اس کے پیروکار اس کی ہر بات کو من وعن تسلیم کرتے تھے. ایران پر سنی حکومت قائم تھی(شاید سلجوق خاندان کے زیر کنٹرول تھا) چونکہ ابن صباح اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتے تھے. اس لئے وہ اور اسکے پیروکار حکومت کے ہٹ لیسٹ میں تھے. ابن صباح اور اسکے ساتھی اسماعلیت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اردگرد کے علاقوں میں لوٹ مار کرکے اپنی خوف بیٹھا دیتے تھے. ابن صباح نے بادشاہ کے قتل کا منصوبہ بنایا. اس کیلئے ایک فدائی کو مہینوں کی ٹریننگ دی. کئی سال سے جاسوس بھیس بدل کر بادشاہ کے محل میں جگہ بنا چکے تھے. قتل کے دن فدائی ایک عالم دین کے روپ میں بادشاہ کے کاروان کے سامنے سے گزرا. بادشاہ کو عالموں سے بہت محبت تھی. عالم بادشاہ کے طرف بڑھا تو بادشاہ نے محافظوں کو حکم دیا کہ وہ اس عالم کو بادشاہ کے پاس آنے دے. اور یہی اسکی اخری غلطی ثابت ہوئی. شہنشاہ ایران کے قتل کے بعد اور بھی چھوٹے بڑے عہدوں والے لوگوں کو قتل کیا گیا. یہ لوگ موت سے بے خوف ہوگئے تھے. کسی بھی فوجی جنرل یا گورنر کو قتل کرنے سے ایک یا دو سال پہلے فدائین کے جاسوس محل تک رسائی حاصل کرلیتے اور پھر اس عہدے دار کی روزمرہ کی زندگی پر نظر رکھتے اور موقع ملنے پر قتل کر دیتے.
ہیسٹری چینل پر ان کی کامیابی کی ایک مثال دیتے ہوئے ایک فوجی ایکسپرٹ کہتا ہے کہ "ان فدائین نے صلاح الدین دہ گریٹ (ہم الیگزینڈر دہ گریٹ بولتے ہے وہ صلاح الدین دہ گریٹ بولتے ہے)پر بھی تین حملے کئے. پہلا حملہ پہرادروں نے ناکام بنایا دوسرا حملہ کرنے سے پہلے صلاح الدین کے محل میں ایک فدائی نے اپنی جگہ بنائی اس بار حملہ اور صلاح الدین پر وار کرنے میں کامیاب ہوا لیکن اندھیرے میں شاید وہ صلاح الدین*کی زرہ بند نہیں دیکھ سکا اور صلاح الدین کے ہاتھوں قتل ہوگیا. صلاح الدین نے اس بار فدائیوں کا قلعہ قمعہ کرنے کیلئے قلعہ الموت کا گھیراو کیا. فدائین یا حیشاشین کے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے ایک فدائی نے صلاح الدین کے خیمے میں داخل ہوکر اپنا خنجر*اور صلح نامہ چھوڑ دیا. اس کے کچھ دن بعد صلاح الدین محاصرہ اٌٹھا کر بیت المقدس واپس چلے گئے جہاں صلیبی لشکر مقابلے کیلئے تیار کھڑی تھی.
ان حشاشین نے کئی صلیبی لیڈروں کو بھی قتل کر ڈالا تھا. ان فدائیوں کو حشاشین اسلئے کہتے ہے کہ اس وقت عام خیال یہی تھا کہ یہ لوگ حشیش یعنی بھنگ پیتے تھے.* حسن ابن صباح نے قلعہ کے اندر ان کیلئے جنت جسمیں باغات اور خوبصورت لڑکیاں جو اغوا کرکے لائی گئی تھی تاکہ فدائیوں کو حالت بھنگ میں یہ جگہ واقعی "جنت" لگے. کاروائی سے پہلے انکو بھنگ اور جنت کی سیر کرائی جاتی اور ان کو بتایا جاتا کہ زندہ واپس آگئے تو یہ جنت اور مرگئے تو بھی جنت شاید اسلئے یہ بہت بے خوف تھے. آگرچہ ان کی کاروائیاں دور دراز تک پھیلی ہوئی تھی لیکن انکا مرکز ہمیشہ قلعہ الموت ہی رہا. ابن صباح کے بعد بھی یہ گروپ خاصا مصروف رہا حتی کہ منگول سردار بھی ان سے بچ نہ سکے. ہلاکو خان نے تنگ آکر قلعہ الموت کا محاصرہ کیا اور ان کی فوجی قوت بالکل ختم کردی. اس سارے قصے کا خلاصہ یہی ہے کہ آگر آپ طاقت کے نشے میں آکر ہر مخالف کو ختم کرنے کی کوشش کرینگے تو اسکے سنگین نتائج بھی نکل سکتے ہے. اس کی واضح مثال داعش اور پاکستانی طالبان ہے. عراق میں سنیوں کو اتنا تنگ کیا گیا کہ ان میں درندے پیدا ہوگئے۔ اور انہوں نے انتقام کے نام پر ایسے لرزاخیز کام کئے کہ اسلام تو ایک طرف شیطانیت بھی شرما گئی لیکن عراق کی موجودہ حکومت نے صدام کے بعد جو رویہ سنیوں کے ساتھ روا رکھا وہ کہانیاں آگرچہ پاکستان پہنچ نہ سکی لیکن کچھ آزاد میڈیا نے ایسے لرزاخیز واقعات کا ذکر کیا ہیں جو سننے اور پڑھنے کی لائق نہیں. کسی بھی اقلیت ؛ قوم اور گروپ کو اتنا بھی تنگ نہیں کرنا چاہیئے کہ وہ دشمن کے پیروکار بن جائے. بنگالی بلوچ اور قبائلی اس کی واضح مثال ہیں.
اللہ سے دعا ہے یہ فتنے ختم ہو جائے تاکہ لوگ انسانیت کی زندگی جی سکے.*
نوٹ..... تاریخ الفاظ کا گورگھ دھندہ ہوتا ہے اسلئے اس کہانی میں کئی تاریخی غلطیاں ہو سکتی ہے.*
Last edited by a moderator: