وہ ایک غریب اور محنتی سب ایڈیٹر تھا ویسے ہی جیسے معمولی اخبارات کے سب ایڈیٹرز ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ہینڈ تو ماؤتھ انداز میں مشکل سے گذارہ ہوتا تھا اور پھر وہ نیوز ایڈیٹری چھوڑ کر کالم لکھنے لگا۔ اسکا خواب افسانہ نگار بننے کا تھا، لیکن یہ شوق اس نے اپنے کالمز میں روزانہ نئے نئے قصے گھڑ کر پورا کرنا شروع کردیا۔۔۔۔۔ نوجوان نسل کی تصوف اور بابوں میں دلچسپی دیکھ کر اس نے دوسرے تیسرے کالم میں کسی نہ کسی بابے سے اپنی ملاقات اور اسکے نتیجے میں حاصل ہونے والی دانائیوں کا تذکرہ بھی کرنا شروع کردیا۔۔۔۔اور یوں لوگ اسکی لکھی ہر بات کو معتبر سمجھنے لگے، اسکی مقبولیت یہاں تک بڑھ گئی کہ وہ جس شخص کو چاہتا، اپنے کالمز کے ذریعے مشہور کردیتا، معتبر کو نامعتبر بنادینا اور نامعتبر کو معتبر بنادینا اسکے بائیں ہاتھ کا کرتب بن گیا۔۔۔۔۔۔اور یوں اچانک اس پر دھن دولت کی بارش شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی ایک کنسٹرکشن کمپنی بنالی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ کالم لکھتے لکھتے ایک چینل پر اینکر پرسن بن گیا۔۔۔۔اور اسی دوران ایڈورٹائزنگ بزنس میں بھی قدم رکھ دئیے۔۔۔۔چنانچہ اب وہ ایک کروڑ پتی ہے اور ہر سال یورپ میں چھٹیاں گذارتا ہے، اور اس دوران پوری قوم کو کامیاب انسان بننے کے گر بھی بتاتا رہتا ہے۔۔۔یاد رہے کہ اسے قوم سے ایک ہی گلہ ہے کہ یہ قوم کسی شخص کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتی اور سب لوگ اس سے حسد کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔اگے تسی آپئی سمجھدار اوہ۔۔۔۔۔۔بقول شاعر : انکے آنگن میں دیا کرتا ہے اسپیچَِ وفا۔۔۔زاغ ہوجائے گا اک دن آنریری عندلیب
Resonant
MPA (400+ posts)
Last edited: