حاجی صاحب کی فرنیچروں کی دکان تھی کاروبار بہت اچھا تھا، گھر میں خوشحالی تھی، حاجی صاحب ہر سال حج اور عمرے کیلئے جاتے تھے۔ پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ حاجی صاحب کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ حاجی صاحب قرضے میں ڈوب گئے ۔ گھر میں فاقے رہنے لگے۔ دوست احباب ساتھ چھوڑ گئے۔ مکان، دکان، فیکٹری سب بک گئے۔ حاجی صاحب کہیں نوکری کیلئے جاتے تو انہیں انکار ملتا۔ بہت کوشش کے بعد بھی حاجی صاحب کا کاروبار کھڑا نہ ہوسکا
آخر کار حاجی صاحب نے تنگ آکر لڑکیوں کی دلالی کا دھندہ شروع کردیا۔ خوب کمائی ہونے لگی، حاجی صاحب دوبارہ خوشحال ہوگئے۔ پولیس والوں، سیاستدانوں، سرکاری افسروں میں حاجی صاحب بہت مقبول ہوگئے۔ حاجی صاحب نے پہلے کی طرح ہر سال حج کرنا شروع کردیا بلکہ اپنی ملازماؤں کو بھی ہر سال حج پر بھیجنا شروع کردیا۔
ایک دن حاجی صاحب کو ملنے اسکا پرانا دوست آیا۔ اس نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ بس اللہ کا کرم ہے۔ بہت برکت ڈالی ہے اس کام میں۔ دوست نے پوچھا کہ تمہارے بیٹوں کا کام آج کل کیسا ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ الحمداللہ! ان کا لندن میں بہت بڑا بزنس ہے، بڑے بیٹے نے ون ہائیڈ پارک میں دو درجن گوریاں رکھی ہوئی ہیں ، چھوٹے بیٹے کی بار اور کسینو ہے، اسی کام کی برکت سے انکی تین آف شور کمپنیاں ہیں ان کی، اسکے علاوہ لندن میں فلیٹس، پلازہ ہیں سب اسی کام کی برکت سے ہے۔ دوست نے کہا کہ تم لندن جاتے ہو؟ حاجی صاحب نے کہا کہ جب بھی مشکل میں ہوتا ہوں یا پریشان ہوتا ہوں تو لندن جاکر آرام کرتا ہوں۔سوچ رہا ہوں کہ اپنے بزنس کو مزید بڑھاؤں۔ دوتین گوریاں پاکستان امپورٹ کرلوں
دوست نے کہا کہ کیا تمہیں یہ کام کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ شروع شروع میں بہت ہوتی ہے لیکن اب خدا کے فضل سے شرم وحیاء ختم ہوگئی ہے۔بس کبھی کبھی ضمیر ملامت کرتا ہے لیکن خدا کا کرم ہے کام بہت زبردست چل رہا ہے۔
دوست نے جانے کی اجازت چاہی تو حاجی صاحب نے کہا کہ تم آئندہ سال حج پر چلو، اپنی زہرہ بائی اور اسکی بیٹی نازنین حج پر جارہی ہے، تم بھی اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرلو۔
آخر کار حاجی صاحب نے تنگ آکر لڑکیوں کی دلالی کا دھندہ شروع کردیا۔ خوب کمائی ہونے لگی، حاجی صاحب دوبارہ خوشحال ہوگئے۔ پولیس والوں، سیاستدانوں، سرکاری افسروں میں حاجی صاحب بہت مقبول ہوگئے۔ حاجی صاحب نے پہلے کی طرح ہر سال حج کرنا شروع کردیا بلکہ اپنی ملازماؤں کو بھی ہر سال حج پر بھیجنا شروع کردیا۔
ایک دن حاجی صاحب کو ملنے اسکا پرانا دوست آیا۔ اس نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ بس اللہ کا کرم ہے۔ بہت برکت ڈالی ہے اس کام میں۔ دوست نے پوچھا کہ تمہارے بیٹوں کا کام آج کل کیسا ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ الحمداللہ! ان کا لندن میں بہت بڑا بزنس ہے، بڑے بیٹے نے ون ہائیڈ پارک میں دو درجن گوریاں رکھی ہوئی ہیں ، چھوٹے بیٹے کی بار اور کسینو ہے، اسی کام کی برکت سے انکی تین آف شور کمپنیاں ہیں ان کی، اسکے علاوہ لندن میں فلیٹس، پلازہ ہیں سب اسی کام کی برکت سے ہے۔ دوست نے کہا کہ تم لندن جاتے ہو؟ حاجی صاحب نے کہا کہ جب بھی مشکل میں ہوتا ہوں یا پریشان ہوتا ہوں تو لندن جاکر آرام کرتا ہوں۔سوچ رہا ہوں کہ اپنے بزنس کو مزید بڑھاؤں۔ دوتین گوریاں پاکستان امپورٹ کرلوں
دوست نے کہا کہ کیا تمہیں یہ کام کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے؟ حاجی صاحب نے کہا کہ شروع شروع میں بہت ہوتی ہے لیکن اب خدا کے فضل سے شرم وحیاء ختم ہوگئی ہے۔بس کبھی کبھی ضمیر ملامت کرتا ہے لیکن خدا کا کرم ہے کام بہت زبردست چل رہا ہے۔
دوست نے جانے کی اجازت چاہی تو حاجی صاحب نے کہا کہ تم آئندہ سال حج پر چلو، اپنی زہرہ بائی اور اسکی بیٹی نازنین حج پر جارہی ہے، تم بھی اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرلو۔
عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے