tariisb
Chief Minister (5k+ posts)
زندہ بھٹو ، مردہ بھٹو
(حصہ اول)
http://www.siasat.pk/forum/showthre...5;دہ-بھٹو
(حصہ اول)
http://www.siasat.pk/forum/showthre...5;دہ-بھٹو
جیے نواز ، بھاگ نواز
(حصہ دوم)
(حصہ دوم)
مارشل لا کی باتیں کرنے والے ، احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ، ایک وفاقی وزیر نے چند دن قبل ہی کہا تھا ، بات میں کتنا وزن تھا ؟ مگر یقین دیدنی تھا ، ذوق یقین سے زنجیریں کٹ جاتی ہیں ، لیکن لیکن ؟ حکومتوں پر یلغار نہیں روکی جا سکتی ، ایوان وزیر اعظم کی دیواریں پھلانگنے والے یقین سے زیادہ حکم کے غلام ہوتے ہیں ایمان سے زیادہ ہوس کے مرید ہوتے ہیں ، آئین کیا ؟ قانون کون سا ؟ ہٹ جاؤ ، فوج پر سیاست حاوی ہے انتقام طاری ہے ، فوج ایوان وزیر اعظم میں داخل ہو چکی تھی ، سب کور کمانڈرز مشرف کی کمان مان چکے تھے ، چلو پھر سے سیاست کرتے ہیں ، نکل کر چھاؤنیوں سے ادا کر رسم (جنرل) ایوبی ، اے وطن تیرے بیٹے تیرے جانباز دوڑے چلے آتے ہیں ،
نواز شریف کو قید کر دیا گیا ، اذیت ، ابتلا کا باب پھر سے کھول دیا گیا ، منتقم مزاج مشرف نے میاں صاحبان بمعہ خاندان انتقام لینا شروع کر دیا ، حساس ادارے روز کسی نا کسی باغی کو دھر لیتے ، اذیت خانے لے جا کر حجامت و مرمت شروع کر دیتے ، اہم و معتبر شخصیات کی چیخیں سنوانے کا معقول بندوبست ہوتا ، کرنل صاحب وہیں سے کال ملاتے ، سر ، بندہ الٹا لٹکایا ہوا ، ننگ دھڑنگ ہے ، پھر ڈنڈا رسید کرتا ، ایک چیخ سنائی دیتی ، اور کال کی دوسری طرف جناب مشرف ، قہقہ لگاتے ، دلی تسکین ہوتی ، آنکھوں میں چمک کود آتی خوشی عود آتی ، کرنل صاحب اپنی اس محنت پر مزید ترقیوں کے خواب دیکھتے ، تو آنکھوں میں مزید وحشت ناچنے لگتی ، ہاتھ اور ڈنڈا دونوں ہی بے قابو ہو جاتے ، چیخوں ، قہقہوں میں مقابلہ جاری رہتا ، پاکستانی فوج ایمان ، تقویٰ جہاد فی سبیل للہ پر پھر سے عمل پیرا تھی ، اس بار ان فرائض کی ادائیگی محاذ پر نہیں شاہراہ دستور کے دائیں بائیں اداروں نما مورچوں میں تھی ، غازیوں ، مجاہدوں نے اودھم مچا رکھا تھا ،
اہل سیاست ، سیاست کا ریوڑ پہلے سٹپٹایا ، جلد ہی سنبھلا ، اور سب نے قسمت آزمائی شروع کر دی ، مشرف ، سیاست کو سبق سکھانا چاہتے تھے ، نئی سیاست کا فروغ چاہتے تھے ، نیا پاکستان بنانے خاطر ، نظر انتخاب نے چودھری شجاعت سے زیادہ مناسب کسی کو نا سمجھا ، باقی سب کو لاروں میں رکھا ، قطار میں رکھا ، عمران خان صاحب سے لے کر آج کل کے معروف داعی انقلاب جناب طاہر القادری بھی متمنی انتخاب نظر آے ، آنا جانا ، میل ملاپ ، گزارش التفات ، جو جو بس میں ہوا ، خوب کیا ، لیکن مشرف نے ساتھ ملا کر ، ریفرینڈم کا پاپ سب سے کروا کر ، سب کو داغی بنا دیا ، اور بے ابرو کر کے کوچے سے نکال دیا ، سب ہی لڑھکتے لڑھکتے نکلتے گیے ، مے خانہ وہی تھا ، مگر ساقی کی نظروں میں وہ لحاظ نا رہا ، متحدہ مجلس عمل جائز تعلق بنا نا سکی، ناجائز تعلقات ہی نبھاتی رہی ، اسی لیے آج مشرف کو برا بھلا بھی کہتے ہیں ، اور جب مشرف کا اقتدار جوان تھا اس کو لبھانے میں کوئی کسر بھی نا چھوڑی ،
پرویز مشرف کسی طور بھی ضیاء الحق سے مختلف نا تھا ، ضیاء سب سے پہلے اسلام بیچتا رہا ، مشرف نے کہا سب سے پہلے پاکستان باقی لین دین بعد کا ، اسی لیے دائیں بائیں چودھری شجاعت ، شیخ رشید اور بہت سے شوقین ، جوق در جوق جمع کیے ، محفلیں لگائیں ، سیاست میں نئی جہتیں جوڑیں ، جہاں مزاحمت ہوئی ، حساس اداروں نے دل جان سے مدد کی ، بینظیر اور نواز شریف کو پروانہ و سندیسہ بھیج دیا ، اب تم دونوں کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ، نیے چہرے ہوں گے ، احتساب بھی ہو گا ، اور نیا پاکستان ہو گا ، جلد ہی مشرف پاکستان کا طاقتور ترین حکمران تھا ، بینظیر و نواز شریف دونوں جلاوطن تھے ، میاں صاحب کے لیے مشرف نے رعایت کی ، ایک معاہدہ تحت ، آدھی رات پورے خاندان کو پاکستان سے رخصت کر دیا ، اب کی بار سعودی عرب کی سنی گئی ، ضیاء الحق نے تو شاہ کی درخوست رد کر دی تھی ہنری کسنجر زیادہ عزیز تھا ، یہودی زیادہ معتبر تھا ، مرد مومن مرد حق نے اسی کا حکم مانا ، شاہ کی درخواست نا سنی ، میاں صاحب ایک عرصۂ انکاری رہے ، بہرحال بات چھپ نا سکی ، ضمانتیں بھی تھیں اور معاہدہ بھی تھا ، اسی تحت دس سال کی جبری مگر باہم رضا مندی سے رخصت ملی ، جان بچی لاکھوں پاے
من چاہا ریفرنڈم کروانے کے بعد ، مرضی کے انتخابات ہوے ، آئ ایس آئ کے سرگرم الیکشن سیل نے خوب محنت کی ، پرانوں کو ڈرا دھمکا کر ادھر اودھر کیا ، نیے چاہنے والوں کے لیے رستہ صاف کیا ، جہاں ذرا مشکل پیش آتی ، الیکشن کمیشن باندی کی طرح معاملات درست کر دیتا ، حساس اداروں کے جن تو ہمہ وقت ہاتھ باندھے ، کیا حکم ہے میرے آقا ؟ کہتے اور حکم بجا لاتے ، سیاست میں سے بی بی اور بابو کو گھٹیا ماضی بنانے کی خاطر بہت سی محنتیں اور ہیر پھیر کیے گیے ، طویل اقتدار بتدریج ضعف کا شکار ہوا ، تمام مفرور ، مایوس اور جلاوطن سیاست دان پھر سے ایک ہونا شروع ہوے ، جمہوریت کی خاطر تحریک میں جان پڑتی گئی ، یہ وردی والے بےغیرت ، چیف تیرے جانثار بے شمار کے نعروں نے ، منتشر سیاست دانوں کو ایک کر دیا ، جواز نے پھر سے سب کو دلیر کر دیا ، وکلا نے مشرف کے اقتدار میں شدید ضربیں لگائیں ، اور سیاسی جماعتوں نے فائدہ بھی اٹھایا ، واقعات ، حادثات جاری رہے ، آخر سن ٢٠٠٨ تھا
مشرف کا ایک دھائی پر محیط عرصۂ سیاست ، بہت سے حادثات ، واقعات ، داخلی و خارجی مسائل سے بھرپور تھا ، کاروائی و کارگزاری میں اچھائی و برائی ساتھ ساتھ رہی ، مگر ؟ سیاست میں چیر پھاڑ ، اصلاح و بہتری کا دعوی بری طرح سے رسوا ہو چکا تھا ، ٢٠٠٨ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت لیے حاضر تھی ، تعاقب میں مسلم لیگ اپنے قدم جما چکی تھی ، شیخ رشید اور چودھری شجاعت اور دوسرے بری طرح رسوا ہو چکے تھے ، بھان متی کا کنبہ منتشر ہو چکا تھا ، دھوکے بازوں کی ساجھے کی ہانڈی بیچ انتخاب ٹوٹ چکی تھی ،
حاصل ؟
پرویز مشرف کی ہر ممکن کوشش باوجود ، پاکستانی قوم جیے بھٹو اور جیے نواز سے پیچھے نا ہٹی تھی ، گیارہ سالہ زور زبردستی کا جواب حق راے دہی کے آزادانہ استمال پر ٹھیک ٹھاک دیا گیا ، سفر پھر سے ١٩٩٩ اکتوبر سے شروع ہوا ، بی بی مر چکی تھی مگر بھٹو زندہ تھا ، نواز شریف پھر سے موجود تھا ، مشرف کے حواری ادھ موے تھے ، قوم کے سیاسی شعور نے فوجی جنتا کا تکبر ، دھونس ، دھاندلی کو مسترد کر دیا تھا ،
پھر ؟
:)مزید جاری ، انشاء الله
Last edited: