جیل والوں کو انقلاب کے خواب دیکھنا بند کر دینے چاہئیں،سہیل وڑائچ

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
بہت ہی بڑا کنفیوژن ہے، جیل والے اور اوپر والے دونوں متضاد کونوں پر کھڑے ہیں۔ مصالحت، مفاہمت اور مذاکرات کی ہر آواز صد ابصحرا ثابت ہو رہی ہے، دونوں اپنے اپنے دلائل، تاثرات اور نتیجوں پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک سیاسی ڈیڈ لاک ہے جو حل ہونے میں نہیں آ رہا۔

جیل والوں کو ہرطرف تخریب ہی تخریب نظر آتی ہے۔ ان کے خیال میں جو کچھ ان کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، ان کا تاثر ہے کہ پوری تاریخ میں بدترین دھاندلی پچھلے الیکشن میں ہوئی اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، وہ سمجھتے ہیں جس قدر جیلیں، مقدمات اور مشکلات انہوں نے جھیلی ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جیل والے سمجھتے ہیں کہ اوپر والوں سے مصالحت ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے کئے کا مداوا نہیں کرتے۔

دوسری طرف اوپر والوں کو ہر طرف تعمیر ہی تعمیر نظر آتی ہے، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے ،اسٹاک مارکیٹ چڑھ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، عرب ممالک سے سرمایہ کاری کی توقعات ہیں، چین سے سی پیک دوئم شروع ہونے والا ہے،مستقبل میں بہتری کی خوش خبریاں ہیں ،مہنگائی بھی کم ہور ہی ہے۔

جیل والے سیاسی باتیں کر رہے ہیں اور اوپر والے معاشی اعداد و شمار بیان کر رہے ہیں،تاہم نہ جیل والے پورے سچے ہیں اور نہ اوپر والے۔ جیل والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے دو وزیراعظم قتل ہو چکے ہیں، ایک جوڈیشل مرڈر کا شکار ہو ئے، ضیاء دور میں سینکڑوں کارکنوںکو کوڑے مارے گئے، درجنوں کو پھانسیاں ہوئیں ۔سندھ میں جہازوںسے فائرنگ کرکے مظاہرین کو مارا گیا اور یہ جدوجہد پورے گیارہ سال چلی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں ہوئی ہیں مگر وہ اس شمار میں پہلے نہیں، خدا کرےکہ آخری ہوں۔ اوپر والے جو معاشی اعداد و شمار بتاتے ہیں وہ درست بھی ہوں تو 23کروڑ کے مقروض ملک کو چلانے کیلئے ہماری معیشت ہمارا ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

اس ملاکھڑے میں سب سے دلچسپ اوپر والوں کا بیانیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے اوپر والے ماضی کے اوپر والوں سے یکسر مختلف ہیں۔ پچھلے پچاس ساٹھ سال سے اوپر والے حکومتی معاملات میں سرعام مداخلت کو اپنا حق سمجھتے تھے، آج کے اوپر والے ماضی کی اس روایت سے چھٹکارا حاصل کرکے سیاسی حکومتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں، معیشت کو چلانے میں ماضی کے اوپر والے روڑے اٹکاتے تھے آج کے اوپر والے اس حوالے سے حکومت کی مدد کیلئے خودمیدان عمل میں کُودے ہوئے ہیں،ایس آئی ایف سی ہو یا بیرون ملک کے دورے، اوپر والے جان لڑا رہے ہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے۔ پہلی دفعہ ایسے اوپر والے آئے ہیں جو خود پیچھے رہتے ہیں اور دوسروں کو آگے کرتے ہیں، خود نہ میڈیا پر آتے ہیں نہ تصویریں کھنچواتے ہیں اور نہ ہی خود لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں لیکن ان اچھے ارادوں اور نیتوں کی کئی لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی وہ اتنی بڑی تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کی بجائے بے جا مخالفت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسے نرم مزاج اور شائستہ اوپر والے پچھلے پچاس سال سے نہیں آئے اور شاید ایسے اوپر والے پھر نہ ملیں۔ اوپر والوں کا شکوہ ہے کہ ہم پہلی بار چیزیں ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں ،ماضی کی غلطیوں کا مداوا کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو علامتی سزا دی، اسی طرح بھٹو کی پھانسی غلط قرار دی،فیض آباد دھرنا انکوائری چل رہی ہے آج کے اوپر والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو غلط ہواوہ اب درست ہوجائے۔ لیکن اس سوچ کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی کواجازت دے دی جائے کہ وہ ریاست کےگریبان میںہاتھ ڈالے۔

دوسری طرف جیل والے دوبارہ سے 9 مئی سے پہلے کی صورتحال میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جیل سے باہر انقلاب تیار ہے اوپر والوں کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے بس کوئی ایک واقعہ یا حادثہ ایسے انقلاب کو جنم دے گا کہ اوپر والوں کا اقتدار ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ ان کے خیال میں پھر انقلاب فرانس کی طرح گلی گلی ،محلے محلے ٹکٹکیاں اور گلوٹین لگیں گے اور انکی جماعت کو نشانہ بنانے والوں کے سر تن سے جدا ہوںگے، انکے خیال میں معاملات کا حل صرف اور صرف انقلاب ہے یا پھر حکومت کی باگ ڈور کپتان خان کو دے دی جائے ،جو واحد محب وطن لیڈر ہے۔

اوپر والوں کی بدلی سوچ اور انکے آئندہ کے معاشی عزائم کے ثمرات صرف حکومت تک محدود ہیں، اسی وجہ سے جیل والے شکوہ کناں ہیں کہ ان سے سوتیلوں جیساسلوک ہو رہا ہے، اوپر والوں کی نئی عدم مداخلت کی سیاسی اپروچ کا اطلاق جیل والوں پر بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ اوپر والوں کی سوچ ماضی کی پچاس سالہ پالیسیوں سے مختلف ہے۔

اوپر والوں کا خیال ہے کہ انکی سوچ میں نمایاں تبدیلی مارشل لا کے نفاذ کی سوچ کا مکمل خاتمہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اوپر والوں کی اس سوچ کو کسی کمٹمنٹ، کسی مشترکہ اعلامیے یا کم از کم آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی شکل میں سامنے لانا ضروری ہے۔ دوسری طرف آج کل کے جیل والوں اور ماضی میں جیل جانے والے اہل سیاست سے یہ عرض ہے کہ حکومت سے یکطرفہ طور پر سیاسی مفاہمت کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کریں۔ پارلیمان میں دونوں فریق موجود ہیں سپیکر ایاز صادق عمران خان کے کلاس فیلو رہے ہیں وہ انہیں اچھی طرح سے جانتے ہیں، دوسری طرف نون لیگ کو بھی ان پر مکمل اعتبار ہے تو انہیں ان مذاکرات کا فوکل پرسن بنایا جاسکتا ہے، اوپر والے بالآخر مفاہمت ہی چاہیں گے، کپتان کو دھاندلی کی شکایات کا ریلیف ملنے کابھی امکان ہے لیکن ریاست سے ٹکرائو کی پالیسی پر اوپر والے جھکنے کو تیار نہیں۔

اس عاجز کی رائے تو واضح ہے کہ ملک کو آگے لے جانے کا واحد راستہ مذاکرات اور مفاہمت ہے اگر اس طرف پیش رفت نہ ہوئی تو اوپر والوں کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا دوسری طرف جیل والوں کوبھی انقلاب کے خواب دیکھنا بند کردینے چاہئیں، کیا انہیں 9 مئی سے سبق نہیں ملا.....!

 

ek hindustani

Chief Minister (5k+ posts)
Bahot Harami cheez hai ye. Agar social media na hota to main isay Haji sahab hi samajhta rehta.
Doosri baat.
Jitnay inqlabi hotay hain sab k sab jail mein hi hotay hain.
Lagta hai is nay sari zindagi chamchageeri hi likhi kabhi tareèkh nahi.
 

free_man

MPA (400+ posts)
جیل والا تو کسی انقلاب کی بات نہیں کر رہا اس لیے قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں بڑی سادہ سی بات ہے کہ قانون کے سامنے سب لوگ برابر ہیں مگر سہیل صاحب کا دماغ اوجھڑی کے اندر ہے اور انہیں انقلاب کے خواب نظر اتے ہیں
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
او کالے سانڈ

آئین اور قانون کی بات کر کنجر

نہیں کر سکتا تو اپنا پرانا کام کر

دوسروں کے بیڈرومز میں گھس کر انٹرویو کر۔
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
جیل والا تو کسی انقلاب کی بات نہیں کر رہا اس لیے قانون کی حکمرانی کی بات کر رہے ہیں بڑی سادہ سی بات ہے کہ قانون کے سامنے سب لوگ برابر ہیں مگر سہیل صاحب کا دماغ اوجھڑی کے اندر ہے اور انہیں انقلاب کے خواب نظر اتے ہیں
ہاہا ہا اس کالئے کنجر مثلی میراثی چوڑے بدصورتے حرامی کالی مج کا دماغ اس کئ اوجھڑی کے اندر ہے بہت انقلابی جملہ ہے یہ اس بدصورتے کالئے کنجر کے خیالات اور مضمون بھی اس کی اوجڑھی کی طرح بدبودار ہےٗ
 

exitonce

Prime Minister (20k+ posts)
Sehda bol khotay putter, company kay chamchay tou bhee apni generalism key mout ko awaz day raha hay.
 

Azpir

Senator (1k+ posts)
بہت ہی بڑا کنفیوژن ہے، جیل والے اور اوپر والے دونوں متضاد کونوں پر کھڑے ہیں۔ مصالحت، مفاہمت اور مذاکرات کی ہر آواز صد ابصحرا ثابت ہو رہی ہے، دونوں اپنے اپنے دلائل، تاثرات اور نتیجوں پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک سیاسی ڈیڈ لاک ہے جو حل ہونے میں نہیں آ رہا۔

جیل والوں کو ہرطرف تخریب ہی تخریب نظر آتی ہے۔ ان کے خیال میں جو کچھ ان کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، ان کا تاثر ہے کہ پوری تاریخ میں بدترین دھاندلی پچھلے الیکشن میں ہوئی اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، وہ سمجھتے ہیں جس قدر جیلیں، مقدمات اور مشکلات انہوں نے جھیلی ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جیل والے سمجھتے ہیں کہ اوپر والوں سے مصالحت ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے کئے کا مداوا نہیں کرتے۔

دوسری طرف اوپر والوں کو ہر طرف تعمیر ہی تعمیر نظر آتی ہے، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے ،اسٹاک مارکیٹ چڑھ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، عرب ممالک سے سرمایہ کاری کی توقعات ہیں، چین سے سی پیک دوئم شروع ہونے والا ہے،مستقبل میں بہتری کی خوش خبریاں ہیں ،مہنگائی بھی کم ہور ہی ہے۔

جیل والے سیاسی باتیں کر رہے ہیں اور اوپر والے معاشی اعداد و شمار بیان کر رہے ہیں،تاہم نہ جیل والے پورے سچے ہیں اور نہ اوپر والے۔ جیل والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے دو وزیراعظم قتل ہو چکے ہیں، ایک جوڈیشل مرڈر کا شکار ہو ئے، ضیاء دور میں سینکڑوں کارکنوںکو کوڑے مارے گئے، درجنوں کو پھانسیاں ہوئیں ۔سندھ میں جہازوںسے فائرنگ کرکے مظاہرین کو مارا گیا اور یہ جدوجہد پورے گیارہ سال چلی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں ہوئی ہیں مگر وہ اس شمار میں پہلے نہیں، خدا کرےکہ آخری ہوں۔ اوپر والے جو معاشی اعداد و شمار بتاتے ہیں وہ درست بھی ہوں تو 23کروڑ کے مقروض ملک کو چلانے کیلئے ہماری معیشت ہمارا ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

اس ملاکھڑے میں سب سے دلچسپ اوپر والوں کا بیانیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے اوپر والے ماضی کے اوپر والوں سے یکسر مختلف ہیں۔ پچھلے پچاس ساٹھ سال سے اوپر والے حکومتی معاملات میں سرعام مداخلت کو اپنا حق سمجھتے تھے، آج کے اوپر والے ماضی کی اس روایت سے چھٹکارا حاصل کرکے سیاسی حکومتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں، معیشت کو چلانے میں ماضی کے اوپر والے روڑے اٹکاتے تھے آج کے اوپر والے اس حوالے سے حکومت کی مدد کیلئے خودمیدان عمل میں کُودے ہوئے ہیں،ایس آئی ایف سی ہو یا بیرون ملک کے دورے، اوپر والے جان لڑا رہے ہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے۔ پہلی دفعہ ایسے اوپر والے آئے ہیں جو خود پیچھے رہتے ہیں اور دوسروں کو آگے کرتے ہیں، خود نہ میڈیا پر آتے ہیں نہ تصویریں کھنچواتے ہیں اور نہ ہی خود لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں لیکن ان اچھے ارادوں اور نیتوں کی کئی لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی وہ اتنی بڑی تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کی بجائے بے جا مخالفت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسے نرم مزاج اور شائستہ اوپر والے پچھلے پچاس سال سے نہیں آئے اور شاید ایسے اوپر والے پھر نہ ملیں۔ اوپر والوں کا شکوہ ہے کہ ہم پہلی بار چیزیں ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں ،ماضی کی غلطیوں کا مداوا کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو علامتی سزا دی، اسی طرح بھٹو کی پھانسی غلط قرار دی،فیض آباد دھرنا انکوائری چل رہی ہے آج کے اوپر والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو غلط ہواوہ اب درست ہوجائے۔ لیکن اس سوچ کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی کواجازت دے دی جائے کہ وہ ریاست کےگریبان میںہاتھ ڈالے۔

دوسری طرف جیل والے دوبارہ سے 9 مئی سے پہلے کی صورتحال میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جیل سے باہر انقلاب تیار ہے اوپر والوں کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے بس کوئی ایک واقعہ یا حادثہ ایسے انقلاب کو جنم دے گا کہ اوپر والوں کا اقتدار ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ ان کے خیال میں پھر انقلاب فرانس کی طرح گلی گلی ،محلے محلے ٹکٹکیاں اور گلوٹین لگیں گے اور انکی جماعت کو نشانہ بنانے والوں کے سر تن سے جدا ہوںگے، انکے خیال میں معاملات کا حل صرف اور صرف انقلاب ہے یا پھر حکومت کی باگ ڈور کپتان خان کو دے دی جائے ،جو واحد محب وطن لیڈر ہے۔

اوپر والوں کی بدلی سوچ اور انکے آئندہ کے معاشی عزائم کے ثمرات صرف حکومت تک محدود ہیں، اسی وجہ سے جیل والے شکوہ کناں ہیں کہ ان سے سوتیلوں جیساسلوک ہو رہا ہے، اوپر والوں کی نئی عدم مداخلت کی سیاسی اپروچ کا اطلاق جیل والوں پر بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ اوپر والوں کی سوچ ماضی کی پچاس سالہ پالیسیوں سے مختلف ہے۔

اوپر والوں کا خیال ہے کہ انکی سوچ میں نمایاں تبدیلی مارشل لا کے نفاذ کی سوچ کا مکمل خاتمہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اوپر والوں کی اس سوچ کو کسی کمٹمنٹ، کسی مشترکہ اعلامیے یا کم از کم آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کی شکل میں سامنے لانا ضروری ہے۔ دوسری طرف آج کل کے جیل والوں اور ماضی میں جیل جانے والے اہل سیاست سے یہ عرض ہے کہ حکومت سے یکطرفہ طور پر سیاسی مفاہمت کیلئے اعتماد سازی کے اقدامات کریں۔ پارلیمان میں دونوں فریق موجود ہیں سپیکر ایاز صادق عمران خان کے کلاس فیلو رہے ہیں وہ انہیں اچھی طرح سے جانتے ہیں، دوسری طرف نون لیگ کو بھی ان پر مکمل اعتبار ہے تو انہیں ان مذاکرات کا فوکل پرسن بنایا جاسکتا ہے، اوپر والے بالآخر مفاہمت ہی چاہیں گے، کپتان کو دھاندلی کی شکایات کا ریلیف ملنے کابھی امکان ہے لیکن ریاست سے ٹکرائو کی پالیسی پر اوپر والے جھکنے کو تیار نہیں۔

اس عاجز کی رائے تو واضح ہے کہ ملک کو آگے لے جانے کا واحد راستہ مذاکرات اور مفاہمت ہے اگر اس طرف پیش رفت نہ ہوئی تو اوپر والوں کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا دوسری طرف جیل والوں کوبھی انقلاب کے خواب دیکھنا بند کردینے چاہئیں، کیا انہیں 9 مئی سے سبق نہیں ملا.....!

Yeh aik bharway se ziada kuch nahi.
 

KMQ

Citizen
DAALI K BACHY KO BATAO K JIS KA JO KAAM HY WO HI USS KO KARNA CHAYH. CHOKIDAR KO BANK MANAGER BANOO GAAY TU GHAR BHI VARAY GAA OAR BANK BHI. PE KIA KARIAN . IC MULK MAY JISS KUTTY KO HADDI MILTI HY WO BHOOKNA SHURU KAR DAYTA HY. BHANCHOOD. DINGA MOUN WALA KHOOTA. BHOOSRI KA
 

kwan225

Minister (2k+ posts)
پاکستان میں ایسا کون بچا ہے جس کے اس وڑائچ نے نا چوسے ہوں۔۔؟؟ شٹّے۔۔۔
 

Back
Top