جہانگیر ترین اس سے قبل بھی سیاسی جماعت بنانیکی کوشش کرچکے ہیں

kajamgoajsjaoa.jpg

کیا آپ جانتے ہیں کہ جہانگیرترین نے اس سے قبل بھی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی ؟

جہانگیرترین نے 2011 میں بھی اپنی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی تھی اس مقصد کیلئے جہانگیرترین نے جنوبی پنجاب سے الیکٹبلز بھی اکٹھے کئے تھے۔ جہانگیر ترین نے کلین سیاستدانوں پر مشتمل جماعت بنانے کی کوشش کی اسکے لئے انہوں نے 30 سے زائد سیاستدانوں کو اکٹھا کیا۔

جہانگیرترین نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ وہ کلین سیاستدانوں پر مشتمل جماعت بنارہے ہیں اور عوام پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے مایوس ہوچکے ہیں۔

جب ستمبر 2011 کے مینارپاکستان جلسے کے بعد تحریک انصاف عروج پر پہنچی تو دسمبر 2011میں جہانگیر ترین نے اویس لغاری، جمال لغاری، غلام سرور خان ،جی جی جمال، غلام سرور چیمہ، سکندر حیات بوسن ، عابد حسن اور اسحاق خاکوانی ، شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی وغیرہ کے ساتھ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔

لیکن کچھ ہی عرصے بعد اویس لغاری اور سکندربوسن نے جہانگیرترین کا ساتھ چھوڑدیا اور تحریک انصاف کو چھوڑ کر ن لیگ میں چلے گئے۔غلام سرور خان نے جہانگیرترین کے دھڑے سے علیحدگی اختیارکرلی۔شاہدخاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی بھی ترین گروپ اور تحریک انصاف سے علیحدہ ہوگئیں اور آج کل ن لیگ کی سینیٹر ہیں۔

بعدازاں جہانگیرترین تحریک انصاف میں دھڑے بندیوں کی کوشش کرتے رہے اور اپنا دھڑا بنالیا اوراس میں جاوید ہاشمی، علیم خان اور دیگر رہنماشامل تھے لیکن علیم خان بھی زیادہ عرصہ جہانگیرترین کیساتھ نہ رہے۔یہ دھڑا جہانگیرترین نے شاہ محمودقریشی سے مقابلے میں بنایا تھا۔

سال 2020 میں چینی سکینڈل پر جہانگیرترین اور عمران خان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو جہانگیرترین نے منحرف اراکین پر مشتمل اپنا ایک دھڑا بنالیا اور یہ دھڑا 17 جولائی 2022 کے الیکشن میں بری طرح پٹ گیا

اس وقت حالت یہ ہے کہ جہانگیرترین کے ساتھ انکے پرانے ساتھی اسحاق خاکوانی ہی بچے ہیں۔ اگرچہ جہانگیرترین نے نئی پارٹی بنالی اور اس پارٹی میں تحریک انصاف کے 100 سے زائد رہنما شامل کرلئے ہیں لیکن جہانگیرترین کا پچھلا ریکارڈ دیکھ کرلگتا ہے کہ یہ بھی زیادہ عرصہ ساتھ نہیں رہیں گے۔

اس وقت کئی رہنما جہانگیرترین کیساتھ خود کو بے چین اورپریشان محسوس کررہے ہیں کیونکہ جہانگیرترین نے جماعت تو بنالی ہے ، 100 سے زائد لیڈرز بھی شامل ہوگئے لیکن پارٹی کے پاس نہ تو کارکن ہیں اور نہ ہی ووٹ بنک جو جس نے استحکام پاکستان پارٹی کے رہنماؤں کو پریشان کررکھا ہے اور وہ کوشش کررہے ہیں کہ جہانگیرترین کی پارٹی میں رہتے ہوئے انہیں تحریک انصاف کا ووٹ مل جائے۔