یہ اوریا نامعقول جان کتنا احمق شخص ہے، کیسے کیسے چغد یہاں دانشور بنے بیٹھے ہیں، کرنسی نوٹ ختم کرکے کیا بارٹر ٹریڈ سسٹم لانا چاہتا ہے،؟
یہ اوریا نامعقول جان کتنا احمق شخص ہے، کیسے کیسے چغد یہاں دانشور بنے بیٹھے ہیں، کرنسی نوٹ ختم کرکے کیا بارٹر ٹریڈ سسٹم لانا چاہتا ہے،؟
auriya maqbol ***** hu gaya hey isey goli maar du
یہ اوریا نامعقول جان کتنا احمق شخص ہے، کیسے کیسے چغد یہاں دانشور بنے بیٹھے ہیں، کرنسی نوٹ ختم کرکے کیا بارٹر ٹریڈ سسٹم لانا چاہتا ہے،؟
اس موصوف نے چند چیزیں رٹی ہوئی ہے اور اس کا پرچار کرتا ہے - پیپر منی سے پیسا سرکولیٹ کرنے میں آسانی پیدا ہو گئی اور اب ڈیجیٹل کرنسی اس سے بھی بہترین چیز ہے
یہ اسی سٹون ایج کی ذہنیت کا شکار ، سونے سےکرنسی کا تقابل - بھائی وہ زمانہ گیا
Why do you brand somebody at once.
Barter system nahi.
True trade. Gold and silver.
That can't be created by banks.
This is what Islam teaches us.
6 currencies.
GOLD
SILVER
WHEAT
BARLEY
SALT
DATES
!کرنسی کا آغاز یہ کہہ کر کیا گیا تھا کے طلب کرنے پر حامل هذا کو اس کی مالیت کے برابر سونا فراہم کیا جائے گا. اس بنیادی قانون کا کیا ہواکرنسی جو بھی ہو، اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ کہ لین دین، خرید و فروخت میں سہولت ہو، اگر موجودہ دور میں کاغذ کی کرنسی یہ مقصد بہترین طریقے سے حل کررہی ہے تو کیا ضرورت ہے کندھوں پر بوریوں میں گندم، کھجوریں یا نمک اٹھا کر پھرنے کی؟
کرنسی جو بھی ہو، اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ کہ لین دین، خرید و فروخت میں سہولت ہو، اگر موجودہ دور میں کاغذ کی کرنسی یہ مقصد بہترین طریقے سے حل کررہی ہے تو کیا ضرورت ہے کندھوں پر بوریوں میں گندم، کھجوریں یا نمک اٹھا کر پھرنے کی؟
بھائی بات یہ نہیں کہ کرنسی نوٹ ختم کر دو۔ فرض کریں پاکستان کے پاس خزانے میں ایک کروڑ کا سونا ہے تو کرنسی نوٹ بھی ایک کروڑ کے ہی ہونے چاہیے۔اگر اسے کے برعکس دس کروڑ کے کرنسی نوٹ چھپیں گے اور سرکولیٹ ہوں گے تو انفلیشن خود بخود بڑھے گی۔ جو بھی حکومت آتی ہے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے کی بجائے مزید کرنسی نوٹ چھاپ دیتی ہے۔نتیجہ:افراط زر میں اضافہ۔ نقصان ان لوگو کو ، جو لگی بندھی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں۔جب بھی حکومت نوٹ چھاپتی ہے۔کرنسی کی ویلیو کم ہو جاتی ہے اور تنخواہ دار کی قوت خرید میں مزیدکمی آجاتی ہے۔
کرنسی جو بھی ہو، اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ کہ لین دین، خرید و فروخت میں سہولت ہو، اگر موجودہ دور میں کاغذ کی کرنسی یہ مقصد بہترین طریقے سے حل کررہی ہے تو کیا ضرورت ہے کندھوں پر بوریوں میں گندم، کھجوریں یا نمک اٹھا کر پھرنے کی؟
How amazingly stupid this logic is.
All the currencies are made and controlled by a group of filthy rich cartel members.
Federal reserve, Wallstreet.
Eye wash.
The purpose of naturally produced currencies is that those cant be centralized
ایک بینک جہاں سے اناج ملتا ہے
بھارت کی شمال مشرقی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے پاس کے ایک گاؤں سندرپور کی خاتون گہنی مانجھی کا کہنا ہے کہ اب انھیں پیٹ بھر چاول کھانے کو مل جاتا ہے۔
جوانی کی نہ جانے کتنی راتیں خالی پیٹ گزارنے کے بعد بڑھاپے میں انھیں پہلی بار پیٹ بھر کھانا نصیب ہو رہا ہے۔
اور ان کی زندگی میں یہ تبدیلی ’اناج بینک‘ کی وجہ آئی ہے۔ اناج بینک وہ بینک ہے جہاں اناج کا لین دین ہوتا ہے۔ اس بینک سے قرض کے طور پر اناج لیا جا سکتا ہے اور یہاں اناج جمع بھی کرایا جا سکتا ہے۔ یہاں سے پانچ کلو اناج قرض لینے پر چھ کلو اناج واپس کرانا ہوتا ہے۔
گہني کہتی ہیں: ’اگر یہ بینک نہ ہوتا تو کھانے کو کچھ نہ مل پاتا۔ شوہر کو روزانہ صرف ڈیڑھ کلو چاول ہی مزدوری ملتی ہے۔ اس میں کچھ کھاتے ہیں، کچھ اناج دے کر اس کے بدلے میں تیل، مسالا، نمک، کپڑا وغیرہ لاتے ہیں۔‘
بہت سے غریبوں کو بینک کی وجہ سے پیٹ بھر کھانا نصیب ہو رہا ہے
اناج بینک کا قیام سنہ 2005 میں عمل میں آیا تھا۔ غیر سرکاری تنظیم ایکشن ایڈ نے مقامی تنظیم ’پرگتی دیہی ترقی کمیٹی‘ کے تعاون سے پٹنہ سے متصل 60 دیہات میں اناج بینک قائم کیا تھا۔
بینک قائم کرنے کے لیے ہر گاؤں کو پانچ ہزار روپے کے اناج اور اناج رکھنے کے قابل صندوق خریدنے کے لیے 2,500 روپے نقد دیے گئے تھے۔
بینک کے کام کاج دیکھنے کے لیے گاؤں کے مہادلت محلوں (جہاں ذات کے تعلق سے انتہائی پس ماندہ لوگ رہتے ہیں) میں گروپ بنائے گئے۔ ان گروپوں کو چلانے کی ذمہ داری پانچ خواتین کو دی گئی۔ اناج کا پہلا سٹاک بطور قرض تقسیم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پانچ کلو اناج قرض کی ادائیگی چھ کلو اناج ہوگی جیسا اصول بنایا گيا۔
ان کے پاس فصل کاٹنے اور دوبارہ بونے کے درمیان کوئی کام نہیں رہتا
سندرپور میں مسہر ٹولي (مسہر ذات والوں کے محلے) کی گہني نامی خاتون کے شوہر ’بندھوا مزدور‘ (رہنی مزدور) ہیں۔ انھوں نے 11 سال پہلے مہاجن سے 7,000 روپے قرض لیے تھے جس کے عوض میں انھیں ان کے یہاں کام کرنا پڑتا تھا۔
اس قرض کو ادا کے لیے وہ گذشتہ دس سال سے روزانہ ڈیڑھ کلو چاول کی اجرت پر مہاجن کے کھیت میں 12 گھنٹے کام کرنے کو مجبور تھے۔
گہني اور اس کے شوہر کے لیے اناج بینک بڑا سہارا بن کر آیا ہے۔
گہنی اور اس جیسے دوسرے لوگوں کے گزر بسر کا واحد سہارا کھیتوں میں مزدوری ہے۔ فصل بونے اور کاٹنے کے زمانے کے علاوہ درمیانی وقفے میں ان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس وقت یہ لوگ ایک ایک دانے کو محتاج ہو جاتے ہیں۔
اس بینک کو خواتین ہی چلاتی ہیں اور یہ انتہائی پسماندہ علاقوں میں قائم کیا گیا ہے
ایک دوسرے گاؤں مہجپورہ کی شانتی دیوی کہتی ہیں: ’اب ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے، تو ہاتھ میں پیسے بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں ہم اناج بینک سے چاول لے لیتے ہیں، کٹائی ہونے پر اناج واپس کر دیتے ہیں۔‘
اناج بینک کھلنے سے پہلے ان گاؤں میں ’ڈیوڑھيا‘ کا رواج تھا جس کے تحت اناج لینے کے بعد مہاجن کو اس کا ڈیڑھ گنا اناج واپس کرنا ہوتا تھا۔ اناج واپس نہیں کرنے کی صورت میں مہاجن کے کھیت میں کام کرنا پڑنا تھا۔
محمد پور کی كلاوتي دیوی کہتی ہے: ’جب کام نہیں ملتا تھا تو بھوک سے ہمارے پاؤں لڑکھڑاتے تھے، ہمیں بڑے کسانوں پر انحصار کرنا ہی پڑتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے، تو اب بڑے کسانوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ اب ہم ان سے آنکھ ملا کر بات کر سکتے ہیں۔ ہم نے لڑ کر یومیہ اجرت بھی 100 روپے سے 250 روپے کروا لی ہے۔‘
ایکشن ایڈ نے سنہ 2013 میں ہی امداد بند کر دی تھی اور اب اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ خواتین بغیر کسی بیرونی امداد کے اناج بینک چلا رہی ہیں۔
اس بینک کا قیام سنہ 2005 میں عمل میں آیا تھا
اس بینک سے مختلف محلوں کی تین ہزار خواتین منسلک ہیں۔ اناج ذخیرہ کرنا، قرض، حساب کتاب رکھنا، یہ ساری ذمہ داری ان خواتین کی ہی ہے۔ ان ناخواندہ خواتین نے بینک سے وابستہ ہونے کے بعد پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا ہے۔
پرگتی دیہی ترقی کمیٹی کے امیش کمار بتاتے ہیں: ’جب ہم نے کام شروع کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ 90 فیصد خاندان بڑے کسانوں کی غلامی کرتے ہیں۔ یہ کسان اپنے طور پر طے مزدوری پر کام کرواتے ہیں۔ ان کا کام ختم کیے بغیر آپ کہیں نہیں جا سکتے۔ اناج بینک کھلنے کے بعد اس میں بھی بہت حد تک کمی آئی ہے۔‘