Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
اچانک کسی کا ہاتھ کندھے پر محسوس کیا دیکھا تو دوست کھڑا تھا. وہ ساتھ بیٹھ گیا اور کہنے لگا "مجھے معلوم ہے کہ یوں اکیلے اکیلے بیٹھ کر کیوں اشک بہائے جا رہے ہو اب بس نام بتاؤ". میں نے اٌسے ٹالا وہ نہیں مانا اخر اسکے بہت اسرار پر نام بتا دیا اور ساتھ میں وعدہ بھی لیا کہ کسی سے ذکر نہیں کرنا کیونکہ اٌس کے تین عدد "شریف" بھائی ہے.
کچھ دن بعد پتا چلا کے اٌس کی امی کو میرے محبت کا پتا چل چکا ہے. اٌس نے کمال ہوشیاری سے بات دبا دی تھی لیکن وہ تعلیم* جاری نہیں رکھ سکی کہ لڑکی کے پاس "عزت" ہی سب کچھ ہوتا ہے.
میں خوف اور محبت میں ناکامی کے میلے جلے احساس کے ساتھ پڑھتا رہا. معاشرے کا خوف تھا کہ راز کھلا تو نا اپنی گھر میں جگہ ملے گی اور نا اسکے بھائی زندہ چھوڑے گے. اور دل تھا کہ مجھے موت کی منہ میں ڈال کر بھی "اٌسے" بھلانے کیلئے تیار نہیں تھا. سات سال بعد میں اس قابل ہوا کہ اٌس کیلئے رشتہ بھیج سکوں. میرے والدین حیران تھے کہ اتنے تعلیم یافتہ رشتوں ٹکرا کر کیوں میں اس ان پڑھ لڑکی سے شادی کرنے پر بضد ہو لیکن جوان برسرروزگار اولاد کے سامنے والدین کی اتنی کہاں چلتی ہے. اٍس کے والد کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا. اس کے بھائی شاید مجھے بہت شریف ادمی سمجھتے تھے. اور "وہ" شاید میری انتظار میں بیٹھی تھی اور اگر نا بھی تھی اور انکار کرلیتی* بھی تو کون اسکی سنتا. اور انکار کیوں کرتی مجھ جیسا دبنگ جوان اور ساتھ میں انجئنرینگ کی جاب* کون ٹال سکتا تھا.
شادی ہوئی تو اٌس نے پہلی رات کو ہی مجھے میرے اوقات یاد دلا دئیے. اٌس کو افسوس تھا کہ اس کی ساری دوست لکھ پڑھ گئے. اس کے سارے دوست اس قابل تھے کہ کسی بھی جاب کیلئے اپلائی کر سکے. اس کے سارے دوستوں نے دنیا دیکھ لی اور وہ میری روز "تاڑنے" کیوجہ سے سات سال قید تنہائی گزار کر ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں منتقل ہو چکی تھی. اب وہ ایک اچھی کک ضرور تھی اس کو برتن* اور کپڑے دھونے پر "بہت" لکھے پڑھے لڑکیوں کی طرح کوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن اس کے سوال کا جواب بہت مشکل تھا. مجھے تو خود نہیں پتا تھا کہ میں روز ہیرو بن کر اٌسے کیوں تاڑتا تھا. بس اتنا جانتا تھا کہ اتنا لمبا انتظار کرنے کے بعد اب ساری زندگی اس احساس کے ساتھ گزارنی پڑے گی کہ میری بظاہر ایک بےضرر سی حرکت کیوجہ سے ایک انسان تعلیم کی دولت سے محروم ہوگیا. وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ" حضور آپ کی ضد پوری ہوگئی نا تم خوشی کا اظہار کیو نہیں کرہے دیکھو نا تم نے تو مجھے جہالت کی اندھیروں میں دھکیلا ہے لیکن میں پھر بھی تمہارے پاس بن سنور کے آئی ہو" اس کی ہر بات ہتھوڑا بن کر میرے سر پر برس رہے تھے.*
میں نے سر اٹھائے بغیر کہا "مجھے معاف کردو میں نے آپ کے ساتھ بہت ذیادتی کی ہے" وہ کچھ نہیں بولی کمرے میں بہت دیر تک خاموشی چھائی رہی.
"اگر بھائیوں کو پتا چل جاتا یا باقی لوگوں کو بھنک پڑ جاتی اور میرے بھائی تم مار دیتے پھر تمہاری معافی کس کام کی ہوتی؟ شادی کیلئے انتظار تو تمہیں ویسے بھی کرنا پڑا لیکن اگر تم گلی میں روز کھڑا ہوکر تماشہ نا کرتے تو اج تمہیں ایک تعلیم یافتہ بیوی ملتی. چلو سب خیر رہا لیکن تم نے اپنے خواہشات کیلئے میری عزت خطرے میں ڈال دی تھی. اگر یہ بات ایک بار لوگوں کی زبان پر آجاتی تو میری کیا عزت رہ جاتی؟ تم میں اتنی عقل نہیں تھی کے کسی دن انجام کے بارے میں سوچ لیتے.
'فلم فلم ہوتی ہے' حقیقی زندگی فلم سے بہت مختلف ہوتی ہے. تمہاری معافی میرے اس اذیت سے چٹکارا نہیں دے سکتی جو میں نے خوف میں گزارے. لوگوں کے ان باتوں سے جو رشتہ لیکر آتے اور تعلیم پوچھنے پر اٹھ کھڑے ہوتے کہ ہم نے اپنے بیٹے کو انپڑھ اور جاہل عورت کے ساتھ رشتے میں نہیں باندھنا".
میں سر جھکائے اس کی باتیں سن رہا تھا. لگ رہا تھا کوئی دل میں گھونسے مار رہا ہے. اج رات صرف باہر ہی نہیں کمرے کے اندر *اور دل و دماغ میں بھی گھٹاوٹوپ اندھیرا* تھا. اچانک باہر بجلی چمکی اور میرے جھولی پر ندامت کے قطرے گرنے لگے. مجھے اپنی بے وقوفی کا اندازا آج ہو رہا تھا حالنکہ میں بہت خوش تھا کہ تعلیم مکمل کی ڈاکٹر تو نہیں بن سکا لیکن انجنئیر تو بن گیا. سات سال اس سے یکطرفہ محبت کی اور اج وہ مجھے مل گئی تھی میں "محبت فاتح عالم" کی زندہ مثال بنے فخر سے سینہ چھوڑا کئے پھولوں کی سیج پر بیٹھ تو گیا تھا لیکن وہ نرم پھول مجھے کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے. میں نے خودغرضی کی انتہا کرتے ہوئے اس سے تعلیم کی روشنی کا حق چھین لیا تھا میں اتنا پڑھ کے بھی "ابوجہل" تھا. آج اگر آئینے میں کریہہ چہرا دیکھ لیتا تو وہ ضرور ریزہ ریزہ ہوہوجاتا.
نوٹ....کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مقصد صرف دوستوں کو یاد دلانا تھا کہ اپنی خوشی اور ضد کی خاطر دوسروں کے زندگی سے نا کھیلے شکریہ
*
کچھ دن بعد پتا چلا کے اٌس کی امی کو میرے محبت کا پتا چل چکا ہے. اٌس نے کمال ہوشیاری سے بات دبا دی تھی لیکن وہ تعلیم* جاری نہیں رکھ سکی کہ لڑکی کے پاس "عزت" ہی سب کچھ ہوتا ہے.
میں خوف اور محبت میں ناکامی کے میلے جلے احساس کے ساتھ پڑھتا رہا. معاشرے کا خوف تھا کہ راز کھلا تو نا اپنی گھر میں جگہ ملے گی اور نا اسکے بھائی زندہ چھوڑے گے. اور دل تھا کہ مجھے موت کی منہ میں ڈال کر بھی "اٌسے" بھلانے کیلئے تیار نہیں تھا. سات سال بعد میں اس قابل ہوا کہ اٌس کیلئے رشتہ بھیج سکوں. میرے والدین حیران تھے کہ اتنے تعلیم یافتہ رشتوں ٹکرا کر کیوں میں اس ان پڑھ لڑکی سے شادی کرنے پر بضد ہو لیکن جوان برسرروزگار اولاد کے سامنے والدین کی اتنی کہاں چلتی ہے. اٍس کے والد کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا. اس کے بھائی شاید مجھے بہت شریف ادمی سمجھتے تھے. اور "وہ" شاید میری انتظار میں بیٹھی تھی اور اگر نا بھی تھی اور انکار کرلیتی* بھی تو کون اسکی سنتا. اور انکار کیوں کرتی مجھ جیسا دبنگ جوان اور ساتھ میں انجئنرینگ کی جاب* کون ٹال سکتا تھا.
شادی ہوئی تو اٌس نے پہلی رات کو ہی مجھے میرے اوقات یاد دلا دئیے. اٌس کو افسوس تھا کہ اس کی ساری دوست لکھ پڑھ گئے. اس کے سارے دوست اس قابل تھے کہ کسی بھی جاب کیلئے اپلائی کر سکے. اس کے سارے دوستوں نے دنیا دیکھ لی اور وہ میری روز "تاڑنے" کیوجہ سے سات سال قید تنہائی گزار کر ایک پنجرے سے دوسرے پنجرے میں منتقل ہو چکی تھی. اب وہ ایک اچھی کک ضرور تھی اس کو برتن* اور کپڑے دھونے پر "بہت" لکھے پڑھے لڑکیوں کی طرح کوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن اس کے سوال کا جواب بہت مشکل تھا. مجھے تو خود نہیں پتا تھا کہ میں روز ہیرو بن کر اٌسے کیوں تاڑتا تھا. بس اتنا جانتا تھا کہ اتنا لمبا انتظار کرنے کے بعد اب ساری زندگی اس احساس کے ساتھ گزارنی پڑے گی کہ میری بظاہر ایک بےضرر سی حرکت کیوجہ سے ایک انسان تعلیم کی دولت سے محروم ہوگیا. وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ" حضور آپ کی ضد پوری ہوگئی نا تم خوشی کا اظہار کیو نہیں کرہے دیکھو نا تم نے تو مجھے جہالت کی اندھیروں میں دھکیلا ہے لیکن میں پھر بھی تمہارے پاس بن سنور کے آئی ہو" اس کی ہر بات ہتھوڑا بن کر میرے سر پر برس رہے تھے.*
میں نے سر اٹھائے بغیر کہا "مجھے معاف کردو میں نے آپ کے ساتھ بہت ذیادتی کی ہے" وہ کچھ نہیں بولی کمرے میں بہت دیر تک خاموشی چھائی رہی.
"اگر بھائیوں کو پتا چل جاتا یا باقی لوگوں کو بھنک پڑ جاتی اور میرے بھائی تم مار دیتے پھر تمہاری معافی کس کام کی ہوتی؟ شادی کیلئے انتظار تو تمہیں ویسے بھی کرنا پڑا لیکن اگر تم گلی میں روز کھڑا ہوکر تماشہ نا کرتے تو اج تمہیں ایک تعلیم یافتہ بیوی ملتی. چلو سب خیر رہا لیکن تم نے اپنے خواہشات کیلئے میری عزت خطرے میں ڈال دی تھی. اگر یہ بات ایک بار لوگوں کی زبان پر آجاتی تو میری کیا عزت رہ جاتی؟ تم میں اتنی عقل نہیں تھی کے کسی دن انجام کے بارے میں سوچ لیتے.
'فلم فلم ہوتی ہے' حقیقی زندگی فلم سے بہت مختلف ہوتی ہے. تمہاری معافی میرے اس اذیت سے چٹکارا نہیں دے سکتی جو میں نے خوف میں گزارے. لوگوں کے ان باتوں سے جو رشتہ لیکر آتے اور تعلیم پوچھنے پر اٹھ کھڑے ہوتے کہ ہم نے اپنے بیٹے کو انپڑھ اور جاہل عورت کے ساتھ رشتے میں نہیں باندھنا".
میں سر جھکائے اس کی باتیں سن رہا تھا. لگ رہا تھا کوئی دل میں گھونسے مار رہا ہے. اج رات صرف باہر ہی نہیں کمرے کے اندر *اور دل و دماغ میں بھی گھٹاوٹوپ اندھیرا* تھا. اچانک باہر بجلی چمکی اور میرے جھولی پر ندامت کے قطرے گرنے لگے. مجھے اپنی بے وقوفی کا اندازا آج ہو رہا تھا حالنکہ میں بہت خوش تھا کہ تعلیم مکمل کی ڈاکٹر تو نہیں بن سکا لیکن انجنئیر تو بن گیا. سات سال اس سے یکطرفہ محبت کی اور اج وہ مجھے مل گئی تھی میں "محبت فاتح عالم" کی زندہ مثال بنے فخر سے سینہ چھوڑا کئے پھولوں کی سیج پر بیٹھ تو گیا تھا لیکن وہ نرم پھول مجھے کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے. میں نے خودغرضی کی انتہا کرتے ہوئے اس سے تعلیم کی روشنی کا حق چھین لیا تھا میں اتنا پڑھ کے بھی "ابوجہل" تھا. آج اگر آئینے میں کریہہ چہرا دیکھ لیتا تو وہ ضرور ریزہ ریزہ ہوہوجاتا.
نوٹ....کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مقصد صرف دوستوں کو یاد دلانا تھا کہ اپنی خوشی اور ضد کی خاطر دوسروں کے زندگی سے نا کھیلے شکریہ
*
Last edited by a moderator: