maksyed
Siasat.pk - Blogger
جھوٹی تاویلوں کے سہارئے کب تک؟
اکثر میرے حلقہ احباب میں یہ بحث چھڑی رہتی ہے کے آج مسلمان علم و ترقی میں اتنا پیچھے کیوں ہیں اور کفار علم و ترقی میں اتنا آگے کیوں ہیں؟ میرے حلقہ احباب میں کثیر تعداد ایسے دوستوں کی ہے جو کسی بھی بات کا حوالہ یوں دیتے ہیں، پرسوں ہی مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔ ابھی جمعرات کو میں نے خطاب میں سنا مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔ علماء حضرات بتاتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔ ابھی پچھلے جمعہ کو میں نے وعظ میں سنا کے۔۔۔۔۔۔۔.
میں نے ان کے منہ سے کبھی بھی یہ نہیں سنا کہ میں نے فلاں کتاب میں پڑھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میں نے قرآن میں پڑھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میں نے حدیث میں پڑھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میں نے تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچا کے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے وہ رویے ہیں جنکی وجہ سے ہم اسلام کی صحیح تشریحات سے محروم ہوتے چلے گئے، دین کو مولوی حضرات پر چھوڑ دیا، پھر جیسا مولوی حضرات نے اپنے مسلک یا اپنے فرقے کے تحت تشریح کر کے بتائی تو ہم نے اسے ہی دین سمجھہ لیا، جبکہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے، میں سب سے یہ ہی کہتا ہوں کے اگر حق اور سچ تک پہنچنا ہے تو خود پڑھنے کی عادت ڈالو خود سے تحقیق کرو مسلک اور فرقہ پرستی سے بالاتر ہوکر معاملات کو پرکھنے کی کوشش کرو انشاءاللہ معاملات سمجھہ میں آنے لگیں گے۔
تحریر کے ابتدائی سوال کی طرف چلتے ہیں کہ آج مسلمان علم و ترقی میں اتنا پیچھے کیوں ہیں اور کفار علم و ترقی میں اتنا آگے کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب میرے وہ احباب کچھہ اسطرح دیتے ہیں کے کیوں کے کفار کا جنت میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا ہے اسلئیے انہیں دنیا میں ہی ہر نعمت سے نواز دیا گیا ہے، اللہ کی طرف سے انکے اچھے اعمال کا اجر انہیں دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے، دنیا مسلمان کے لئیے سرائے خانہ ہے اسلئیے مسلمان کے لئیے دنیا میں سختی رکھی گئی ہے مسلمان کے لئیے آخرت میں ابدی راحت رکھی گئی ہے, اب مجھے قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کے یہ جواب وہ پڑھہ کر دیتے ہیں یا مولوی حضرات سے سنکر دیتے ہیں۔ گو کے میں انکی اس تاویل سے ایک فیصد بھی متفق نہیں ہوتا، وقتی طور پر مان بھی لیا جائے کے انکی یہ تاویل درست ہے تو میرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آج سے تقریباَ پانچ چھہ سو سال پہلے تک دنیا میں قوموں کی حالت کیا تھی؟ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ آدھی سے زیادہ دنیا پر راج کر رہی تھی، یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر سے غیر مسلم مسلمانوں سے علم و ادب سیکھنے کے لئیے اسپین آیا کرتے تھے، یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبہ ہوا تھا، انسانیت، طریقت، طہارت، صفائی ستھرائی، معاشرتی نظام، انسانی حقوق، معاشی نظام، تعلیم و نصاب، سائنس و تحقیق سے نا بلد تھے، مفلسی کا دور دورہ تھا، غرض جو جو بھی عناصر کسی معاشرے کو مہذب بناتے ہیں یورپ ان سب عناصر سے ناآشنہ تھا، سو سو سال تک آپس میں جنگیں لڑی ہیں ان لوگوں نے، جبکہ اس وقت مسلم معاشرہ ایک آئیڈیل معاشرہ کہلاتا تھا۔
میری سمجھہ میں یہ بات نہیں آتی کے اگر میں اپنے دوستوں کی یہ تاویل مان بھی لوں تو پھر مسلمانوں اور کفار کے اس پیریڈ کو کہاں لے جاوں؟ اگر کفار کو دنیا میں ہی سب کچھہ ملنا ہے تو پھر مسلمانوں کے دور عروج کے وقت جو کفار کی ابتر حالت تھی اسے ہم کہاں رکھیں؟ انہیں اس وقت دنیا میں سب کچھہ کیوں نہیں ملا؟ اور اگر مسلمانوں کو سب کچھہ آخرت میں ہی ملنا ہے تو پھر مسلمانوں کے دور عروج میں دنیا کی ہر نعمت مسلمانوں کے تابع کیوں تھی؟۔
اب یہ سارا معاملہ الٹا کیسے ہوگیا؟ کیا کیا عناصر تھے اسکے الٹا ہونے میں یہ ایک بڑی لمبی بحث ہے جسے لوگ دل سے مانتے تو ہیں مگر زبان سے اقرار نہیں کرتے کیوں کے اس اقرار کے پیچھے مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں ہیں، غداریاں ہیں، علم و تحقیق سے دوری ہے، دین کو مذہب میں تبدیل کرنےکا عمل ہے، فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کے نام پر اپنی اپنی ڈیڑھہ انچ کی الگ مسجدیں بنانے جیسے گھنوونے عوامل ہیں، عبادات کو محض ثواب کا زریعہ بنانا ہے، نیکی محض جنت کی لالچ میں کرنے کا عمل ہے، خود غرضی ہے، دین کی غلط تشریحات ہیں، اور سینکڑوں عوامل ہیں جن سے ہم چشم پوشی کرتے ہیں اور اپنی ان سب ناہنجاریوں کو چھپانے کے لئیے طرح طرح کی تاویلیں گھڑتے ہیں اور حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں۔
میری ناقص عقل کے مطابق میرے دوستوں کے رہنماوں کی یہ تاویل معزور نہیں مردہ ہے۔ آپکی کیا رائے ہے اس بارے میں؟
اکثر میرے حلقہ احباب میں یہ بحث چھڑی رہتی ہے کے آج مسلمان علم و ترقی میں اتنا پیچھے کیوں ہیں اور کفار علم و ترقی میں اتنا آگے کیوں ہیں؟ میرے حلقہ احباب میں کثیر تعداد ایسے دوستوں کی ہے جو کسی بھی بات کا حوالہ یوں دیتے ہیں، پرسوں ہی مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔ ابھی جمعرات کو میں نے خطاب میں سنا مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ۔۔۔۔۔۔ علماء حضرات بتاتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔ ابھی پچھلے جمعہ کو میں نے وعظ میں سنا کے۔۔۔۔۔۔۔.
میں نے ان کے منہ سے کبھی بھی یہ نہیں سنا کہ میں نے فلاں کتاب میں پڑھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میں نے قرآن میں پڑھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میں نے حدیث میں پڑھا ہے کہ۔۔۔۔۔۔ میں نے تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچا کے۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے وہ رویے ہیں جنکی وجہ سے ہم اسلام کی صحیح تشریحات سے محروم ہوتے چلے گئے، دین کو مولوی حضرات پر چھوڑ دیا، پھر جیسا مولوی حضرات نے اپنے مسلک یا اپنے فرقے کے تحت تشریح کر کے بتائی تو ہم نے اسے ہی دین سمجھہ لیا، جبکہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے، میں سب سے یہ ہی کہتا ہوں کے اگر حق اور سچ تک پہنچنا ہے تو خود پڑھنے کی عادت ڈالو خود سے تحقیق کرو مسلک اور فرقہ پرستی سے بالاتر ہوکر معاملات کو پرکھنے کی کوشش کرو انشاءاللہ معاملات سمجھہ میں آنے لگیں گے۔
تحریر کے ابتدائی سوال کی طرف چلتے ہیں کہ آج مسلمان علم و ترقی میں اتنا پیچھے کیوں ہیں اور کفار علم و ترقی میں اتنا آگے کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب میرے وہ احباب کچھہ اسطرح دیتے ہیں کے کیوں کے کفار کا جنت میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا ہے اسلئیے انہیں دنیا میں ہی ہر نعمت سے نواز دیا گیا ہے، اللہ کی طرف سے انکے اچھے اعمال کا اجر انہیں دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے، دنیا مسلمان کے لئیے سرائے خانہ ہے اسلئیے مسلمان کے لئیے دنیا میں سختی رکھی گئی ہے مسلمان کے لئیے آخرت میں ابدی راحت رکھی گئی ہے, اب مجھے قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کے یہ جواب وہ پڑھہ کر دیتے ہیں یا مولوی حضرات سے سنکر دیتے ہیں۔ گو کے میں انکی اس تاویل سے ایک فیصد بھی متفق نہیں ہوتا، وقتی طور پر مان بھی لیا جائے کے انکی یہ تاویل درست ہے تو میرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آج سے تقریباَ پانچ چھہ سو سال پہلے تک دنیا میں قوموں کی حالت کیا تھی؟ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ آدھی سے زیادہ دنیا پر راج کر رہی تھی، یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر سے غیر مسلم مسلمانوں سے علم و ادب سیکھنے کے لئیے اسپین آیا کرتے تھے، یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبہ ہوا تھا، انسانیت، طریقت، طہارت، صفائی ستھرائی، معاشرتی نظام، انسانی حقوق، معاشی نظام، تعلیم و نصاب، سائنس و تحقیق سے نا بلد تھے، مفلسی کا دور دورہ تھا، غرض جو جو بھی عناصر کسی معاشرے کو مہذب بناتے ہیں یورپ ان سب عناصر سے ناآشنہ تھا، سو سو سال تک آپس میں جنگیں لڑی ہیں ان لوگوں نے، جبکہ اس وقت مسلم معاشرہ ایک آئیڈیل معاشرہ کہلاتا تھا۔
میری سمجھہ میں یہ بات نہیں آتی کے اگر میں اپنے دوستوں کی یہ تاویل مان بھی لوں تو پھر مسلمانوں اور کفار کے اس پیریڈ کو کہاں لے جاوں؟ اگر کفار کو دنیا میں ہی سب کچھہ ملنا ہے تو پھر مسلمانوں کے دور عروج کے وقت جو کفار کی ابتر حالت تھی اسے ہم کہاں رکھیں؟ انہیں اس وقت دنیا میں سب کچھہ کیوں نہیں ملا؟ اور اگر مسلمانوں کو سب کچھہ آخرت میں ہی ملنا ہے تو پھر مسلمانوں کے دور عروج میں دنیا کی ہر نعمت مسلمانوں کے تابع کیوں تھی؟۔
اب یہ سارا معاملہ الٹا کیسے ہوگیا؟ کیا کیا عناصر تھے اسکے الٹا ہونے میں یہ ایک بڑی لمبی بحث ہے جسے لوگ دل سے مانتے تو ہیں مگر زبان سے اقرار نہیں کرتے کیوں کے اس اقرار کے پیچھے مسلمانوں کی آپس کی لڑائیاں ہیں، غداریاں ہیں، علم و تحقیق سے دوری ہے، دین کو مذہب میں تبدیل کرنےکا عمل ہے، فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کے نام پر اپنی اپنی ڈیڑھہ انچ کی الگ مسجدیں بنانے جیسے گھنوونے عوامل ہیں، عبادات کو محض ثواب کا زریعہ بنانا ہے، نیکی محض جنت کی لالچ میں کرنے کا عمل ہے، خود غرضی ہے، دین کی غلط تشریحات ہیں، اور سینکڑوں عوامل ہیں جن سے ہم چشم پوشی کرتے ہیں اور اپنی ان سب ناہنجاریوں کو چھپانے کے لئیے طرح طرح کی تاویلیں گھڑتے ہیں اور حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں۔
میری ناقص عقل کے مطابق میرے دوستوں کے رہنماوں کی یہ تاویل معزور نہیں مردہ ہے۔ آپکی کیا رائے ہے اس بارے میں؟