جو صیہونی حکومت کی حمایت کرتےہیں ہرگز عالم اسلام کی قیادت کے قابل نہیں |
عالمی بیداری ورلڈ فورم کے سیکریٹری ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے کہا ہے کہ علاقے کے ملکوں کے حالات اسلامی انقلاب کا تسلسل ہے۔ تہران میں علاقائي حالات کے بارے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مغرب، صیہونی حکومت اور بعض علاقائي ممالک اسلامی بیداری سے تشویش میں ہیں اسی وجہ سے وہ انقلابوں کو ناکام بنانے، انہیں منحرف کرنے یا ان کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان قوموں کی امیدیں اسلامی جمہوریہ ایران سے بندھی ہیں۔ انہوں نے مصر کو عالم عرب کا مرکز قراردیتے ہوئے کہا کہ مصر کے حالات کا اثر سارے عرب ملکوں پر ہوتا ہے لھذا مصر کے صدارتی انتخابات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر عل اکبر ولایتی نے کہا کہ وہی ملک عالم اسلام کی قیادت کرسکتا ہے جس کے قول و فعل میں صداقت ہو بنابریں وہ ممالک جو صیہونی حکومت کی حمایت کرتےہیں ہرگز عالم اسلام کی قیادت کے قابل نہیں ہوسکتے۔ شمالی افریقہ اور عالم عرب میں نمایاں حثیت کے حامل ملک مصر کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے کہ جن کی اپنی تجربہ کار فوج موجود ہے۔ مصر، عراق، لیبیا اور شام کے علاوہ کسی اور عرب ملک میں فوجی وسائل کی تو بھرمار ہے لیکن ان کو استعمال کرنے والی تجربہ کار اور قابل ذکر فوج موجود نہیں ہے۔ مصر جیسے بڑے اور طاقتور ملک کو، کہ جس کی فوجی طاقت سب سے زیادہ تھی، صہیونی حکومت کے مقابلے میں اتنا ضعیف و نحیف بنادیا گیا تھا کہ شعور و آگاہی رکھنے والا ہر انسان، خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا تھا۔ یعنی مصر کی طاقتور ترین فوج کو اس خطے میں محض صہیونی حکومت کی محافظ بنی ہوئی تھی حکام نے پوری فوج ، عوام اور جامعتہ الازھر جیسے عالم اسلام کے ایک طاقتور نظریاتی مرکز کو مکمل طور سے صہیونی حکومت کے آگے گروی رکھ چھوڑا تھا۔ یہی حال سعودی عرب کا ہے اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ صہیونی حکومت کے خلاف کسی معمولی سی بھی حرکت کو اپنے اثرو رسوخ کی بنا پر بے اثر بنا دیتا ہے جبکہ سعودی عرب کے حکام خود کو عالم اسلام کی قیادت کیا مسحق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جب تک آل سعود حکمرانی کرتے رہیں گے، اسلامی دنیا کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ امریکہ اور مغرب نواز حکمرانوں کے قدس کے غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں بلکہ ذاتی مراسم بھی ہیں۔ امریکہ اور مغربی حکومتوں کا یہ وطیرہ رہا کہ جب تک ان مفادات ساتھ دیتے ہیں وہ شطرنج کے مہروں کی طرح انہیں استعمال کرتے رہتے ہیں اور جونہی دیکھتے کہ وہ بازی ہار رہے ہیں تو پھر وہ اپنے کارندوں کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح مسل کر پھینک دیتے ہیں عصر حاضر کی تاریخ ایسے دسیوں پٹھو حکمرانوں کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہے۔ عالمی بیداری ورلڈ فورم کے سیکریٹری ڈاکٹر علی اکبر ولائتی کے بقول علاقے کے ملکوں کےحالات، اسلامی انقلاب کا تسلسل شمار ہوتے ہیں اور اگر اطراف و اکناف کا جائزہ لیا جائے تو بیداری کی اس لہر کے اثرات کا مشاہدہ مختلف کانفرنسوں اور سیمناروں کی شکل میں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی کانفرنس عالم اسلام، روشن مستقبل کی نوید'' کے موقع پر پاکستان کے مختلف دینی و سیاسی رہنماؤں، مذہبی اسکالرز، دانشوروں سمیت دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے اسلامی بیداری کو امت مسلمہ سمیت تمام انسانیت کیلئے فلاح و کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اتحاد و وحدت ہی مسلمانوں کو مسائل و بحرانوں سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ ہے۔ پشاور میں منعقدہ اس بین الاقوامی کانفرنس سے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائد علامہ ساجد علی نقوی، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل، جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر، شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے سربراہ علامہ رمضان توقیر، حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان ڈاکٹر غیرت بحیر، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ نے خطاب کیا۔ تمام مقررین نے اپنے خطاب میں امت مسلمہ کے اتحاد کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اسلامی بیداری کی یہ لہر دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، اور عالم اسلام کا مستقل روشن ہے، تاہم یہ کامیابیاں حقیقی اتحاد اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے ہی نصیب ہو سکتی ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان ایک ہو جائیں تو کوئی طاقت ان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی۔ مقررین نے ایران کے عالمی سطح پر طرز عمل کو مسلم ممالک کیلئے نمونہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کو امریکی غلام حکمرانوں سے آزادی دلوانا ہوگی، مقررین کے بقول حکمرانوں نے عوام کو مسائل اور مشکلات کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب ان باتوں پر نہیں جھگڑنا کہ کوئی نماز ہاتھ باندھ کر پڑھے یا ہاتھ کھول کر، آج حزب اللہ اور حماس کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو صہیونی دشمن کے مقابلے میں ایک ہو کر اپنا وجود منوا چکے ہیں۔ |