جوڈیشل کمیشن میں خواتین کی برابر نمائندگی کیوں نہیں؟ جسٹس محسن اختر بول پڑے

MOHSIN-AKHTAR.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے ایک اہم سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے جوڈیشل کمیشن میں خواتین کو برابری کی نمائندگی نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والے جوڈیشل کمیشن میں ایک ہی خاتون شامل ہے، جبکہ ایک موثر نمائندگی کی ضرورت ہے۔

آج اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار کے دوران انہوں نے کہا کہ "میرا پارلیمان اور عدلیہ سے گلہ ہے کہ آپ صنفی برابری کے لیے خود کچھ نہیں کر رہے۔" جسٹس کیانی نے یہ بھی ذکر کیا کہ پاکستان میں خواتین کی بااختیاری کی ثقافت ابھی تک پوری طرح نہیں بن سکی ہے اور یہ کہ ہم نے صنفی برابری کے مقصد کو اپنے رویوں میں شامل نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ "آپ ایک دن اپنی ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے بغیر رہ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے بغیر زندگی کا چلنا ممکن نہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ قومی سطح پر خواتین کے لیے مناسب ڈھانچے موجود نہیں ہیں اور ہمیں اسٹریکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے۔

جسٹس کیانی نے اس بات پر زور دیا کہ نئی ججز کی تقرری کے لیے خواتین کو برابری کی سطح پر نامزد کیا جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر اس سطح پر خواتین کی نمائندگی نہ ہو تو عوامی سطح پر کیا حال ہو گا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد میں کوئی فیملی کورٹ کی خاتون جج نہیں اور نہ ہی کوئی خاتون پراسیکیوٹر تعینات کیا جا سکا ہے۔ مزید برآں، چائلڈ پروٹیکشن کے لیے بھی موثر میکنزم کا فقدان ہے۔

انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ خواتین کو ڈیوٹی کے دوران اپنے بچوں کی دیکھ بھال کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے اور اگر کوئی خاتون میٹرنٹی کی درخواست دیتی ہے تو اس کے خلاف کوئی منفی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

جج نے سفارش کی کہ خواتین کی ترقیات اور تعیناتیوں کے حوالے سے کوٹہ مختص کیا جانا چاہیے اور ورکنگ خواتین کو چائلڈ کیئر کی سہولیات ملنی چاہئیں۔ ان کا عزم تھا کہ وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ خواتین کے حقوق کی تحفظ کے لیے موثر قانون سازی کی جائے تاکہ ان کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
 
Last edited:

Back
Top