جہاں تک مجھے یاد ہے یہ 2003 یا 2004 کا سال تھا۔ مہینہ تو یاد نہیں لیکن گرمی کے دن تھے۔۔۔ میں پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر9 کمرہ نمبر9 میں رہتا تھا۔۔۔۔۔ وہاں سے یونیورسٹی کی مسجدِ شرمسار بازار بہت قریب تھی یہاں تک مجھے مسجد کی آواز آتی تھی۔ ہم وہاں نماز کے لیے جاتے۔ تو عصر کے نماز کے وقت پتا چلا کہ تبلیغی جماعت کے لوگ آئے ہیں اور ان میں جنید جمشید بھی تھے۔ ( وہ میرے خیال میں اپنے پہلے اندرونِ ملک ایک سال کی تشکیل کے سلسلے میں پشاور آئے تھے) بس پھر کیا تھا جوش بڑھا کہ کیسے ان سے کسی طرح ملاقات ہوجائے لیکن بہت رش تھا کیونکہ ہمارے تبلیغی بھائیوں نے انکی بہت پبلسٹی کر رکھی تھی اسلیے لوگوں کا رش بہت تھا۔ اسلیے ملاقات نہ ہوسکی حالانکہ وہ مسجد خاصی بڑی ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن جنید جمشید صاحب کا بیان مغرب کو تھا اسلیے سوچا کہ مغرب کے بعد بیان بھی سُن لینگے اور ملاقات بھی کرینگے لیکن مغرب کو عصر سے بھی زیادہ رش تھا۔ بہت دھکم پھیل تھی۔۔۔۔ اسلیے مسجد میں دھکم پھیل کرنے کی بجائے میں جماعت پڑھ کے اپنے کمرے آگیا کہ اپنے کمرے میں بھی انکا بیان سُن سکتا ہوں۔ جبکہ باقی دوست اُدھر رُک گئے تھے۔ سوچا کہ عشاء کو ان سے ملاقات کرسکوں۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے یاد نہیں کہ عشاء کے وقت کیا ہوا کہ میری ان سے ملاقات نہ ہوسکی؟
پھر جب فجر کے نماز کے لیے گیا تو نماز کے بعد کوئی اور صاحب کھڑے بیان کردے رہے تھے تو میں بھی انکے قریب بیٹھ کے بیان سننے لگا۔۔۔۔۔۔۔ میں بیان میں اتنا منہمک تھا کہ پتا ہی نہیں چلا کہ دائیں طرف ایک صاحب ہاتھ میں عطر کی شیشی پکڑے میرے بازوں پہ عطر مل رہے تھے۔۔۔ دائیں دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ جنید جمشید صاحب تھے۔۔۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔۔۔ خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اگر انسان کا اخلاص سچا ہو تو جسکی وہ تمنا کرتا ہے وہ اتنی آسانی سے اسے مل جاتی ہے۔ ان سے ہاتھ ملایا اور کچھ گپ شپ کی۔ انکی ہاتھ کی ہتیلی کافی بڑی تھی (یہ بعد میں پتا چلا کہ وہ نیازی پٹھان تھے) جسمیں میرا بڑا ہاتھ بھی کئی گم گیا۔۔ انکی جسم کی جسامت بھی کافی بڑی تھی مطلب ایک بڑی جسامت والے خوبرو مرد تھے۔۔۔۔ آج جب انکی شہادت کی خبر آئی تو بہت سے آنسو کے ساتھ وہ دن یاد آگیا۔ سوچا کہ آپ سے شیئر کروں۔۔۔۔۔۔۔ اللہ انکی خطائیں معاف فرمائیں اور انکے اچھے کاموں کا صلہِ عظیم عطا فرمائیں اور انکے درجات بُلند فرمائیں۔ ثم آمین۔
لیکن جنید جمشید صاحب کا بیان مغرب کو تھا اسلیے سوچا کہ مغرب کے بعد بیان بھی سُن لینگے اور ملاقات بھی کرینگے لیکن مغرب کو عصر سے بھی زیادہ رش تھا۔ بہت دھکم پھیل تھی۔۔۔۔ اسلیے مسجد میں دھکم پھیل کرنے کی بجائے میں جماعت پڑھ کے اپنے کمرے آگیا کہ اپنے کمرے میں بھی انکا بیان سُن سکتا ہوں۔ جبکہ باقی دوست اُدھر رُک گئے تھے۔ سوچا کہ عشاء کو ان سے ملاقات کرسکوں۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے یاد نہیں کہ عشاء کے وقت کیا ہوا کہ میری ان سے ملاقات نہ ہوسکی؟
پھر جب فجر کے نماز کے لیے گیا تو نماز کے بعد کوئی اور صاحب کھڑے بیان کردے رہے تھے تو میں بھی انکے قریب بیٹھ کے بیان سننے لگا۔۔۔۔۔۔۔ میں بیان میں اتنا منہمک تھا کہ پتا ہی نہیں چلا کہ دائیں طرف ایک صاحب ہاتھ میں عطر کی شیشی پکڑے میرے بازوں پہ عطر مل رہے تھے۔۔۔ دائیں دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ جنید جمشید صاحب تھے۔۔۔۔۔ جزاک اللہ۔۔۔۔۔ خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اگر انسان کا اخلاص سچا ہو تو جسکی وہ تمنا کرتا ہے وہ اتنی آسانی سے اسے مل جاتی ہے۔ ان سے ہاتھ ملایا اور کچھ گپ شپ کی۔ انکی ہاتھ کی ہتیلی کافی بڑی تھی (یہ بعد میں پتا چلا کہ وہ نیازی پٹھان تھے) جسمیں میرا بڑا ہاتھ بھی کئی گم گیا۔۔ انکی جسم کی جسامت بھی کافی بڑی تھی مطلب ایک بڑی جسامت والے خوبرو مرد تھے۔۔۔۔ آج جب انکی شہادت کی خبر آئی تو بہت سے آنسو کے ساتھ وہ دن یاد آگیا۔ سوچا کہ آپ سے شیئر کروں۔۔۔۔۔۔۔ اللہ انکی خطائیں معاف فرمائیں اور انکے اچھے کاموں کا صلہِ عظیم عطا فرمائیں اور انکے درجات بُلند فرمائیں۔ ثم آمین۔
Last edited: