Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
اسی ویب سائٹ پر "نیوز پیکج بائے آ جرنلیسٹ "کے عنوان سے ایک کلیپ لگا ہوا ہے.* جس میں ایک بوڑھا اخبار لہراتے ہوئےکہتا ہے کہ "میرا گھر بدر ہوئے بیس سال ہوگئے ہے میں اب تک در بدر کی ٹھوکرے کھا رہا ہو مجھے کوئی انصاف نہیں ملا ابھی تک"
ایک پٹھان بوڑھا سارے خاندان سمیت عدالت کے باہر اپنا دکھڑا کچھ اس طرح بیان کرتا ہے.
"میرا جان ہے یہ میرا ایمان ہے پاکستان لیکن افسوس کا بات ہے کہ پاکستان کا سارہ بات لب جب لب جب. لب جب یہ ہے کے پیسہ"
ایک ماں شاید اپنے بچے یا بچوں کے حصول کیلئے عدلیہ کی بے رحم دروازوں جس کے مکین صمٌ بکمٌ کے زندہ مثال بنے ہوئے ہیں سے دلگیر اواز میں کہتی ہے.
"میں نہیں مانتی یہاں جنگل کا قانون ہے یہاں انسان بیٹھے ہے وہ ایک ماں کا درد سمجھتے ہے".
اس ملک میں قانون پڑھانے والے بہت ہیں کچھ نازک مزاج تو تھوڑی سی تنقید پر غمگین ہو جاتے ہیں. ان لوگوں کو کھبی اندھے قانون کا "گھونسا" نہیں پڑا جس دن پڑے گا اور ان کو سانس لیتے وقت* حلق میں اپنے خون کا ذائقہ محسوس ہوگا تب ان کو ان باغیوں کی باتیں "سچی" لگی گی.
بحثیت قوم ہم دوسروں کا درد محسوس کرنے سے قاصر ہے کوئی بھی چوٹی کا دانشور قبائیلوں اور بلوچوں کیلئے نہیں بول رہا. ہمارے اکثریت کو اج تک نہیں معلوم کے پانچ لاکھ قبائلی پچھلے دو سال سے روز قطاروں میں کھڑی ہو کر" راشن" مانگتی ہے. وہ سخت جان قوم بھکاری بنا دی گئے. ان کے بازار گھر مساجد "موہن جودڑوں" میں بدل چکے ہیں لیکن دہشت گرد ہے کے ختم ہی نہیں ہو رہے.
بلوچستان میں ہم نے کیڑے مکوڑوں کو نوابوں کے سپرد کر دیا تھا وہ بیمار ہوتے تو دم درود اور مزاروں پر صحت کی دعا مانگتے. نوابوں نے اسکولوں اور ہسپتالوں جیسی خرافات کی ہوا نہ لگنے دی. جس سے تھوڑی سی غلطی ہوتی اسکو اپنے شکاری کتوں کے سامنے ڈال لیتے. انکی عورتیں نوابوں کے کنیزیں تھی. پھر ایک دن ہمیں خیال آیا کہ وہاں بھی فوجی چھاونیاں ہونی چاھئے. فوجی رہائشیں منصوبے وہاں بھی بنائی جا سکتی ہے بس وہ دن ہے اور اج کا دن ایک کشمکش جاری ہے.
ہمارے لوگ انصاف لینے کیلئے عدالتوں کے بند دروازوں پر سر ٹکرا کر چلے جاتے ہے.* ان کو اندازہ نہیں کہ "انصاف" صرف امیروں کیلئے ہوتا ہے یہ غریب بہت ڈھیٹ ہوتے ہے کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی نہیں گرمی سردی میں ایک ہی قسم کے کپڑے پہنتے ہیں. لیکن خواہشات دیکھو "انصاف" مانگ رہے ہیں. یار کوئی ان کو سمجھائے "صبر" کیوں نہیں کر لیتے صبر "کیوں" نہیں کر لیتے. ٹی وی کیمروں کے سامنے آکر ہمارے خوشی کے لمحات غارت کیوں کرتے ہو. اچھا خاصا موڈ تھا اسمیں "تلاطم" برپا کر دیا. کوئی ہے جو ان غریبوں کو سمجھا دے کہ جس کے خلاف وہ شکایت لائے ہے وہ کب کا قاضی اور کاتب دونوں کو خرید چکا ہے. جج تو کب کا فیصلہ دے چکا ہوتا لیکن آپ کے مخالف نے معاملہ لٹکانے کا کہا ہے تاکہ آپ باقی کے جمع پونجی اور عزت سے ہاتھ دھو لے. آپ کے مخالف کے پاس "قائداعظم" کی تصاویر" والے ثبوت ہے تم پتہ نہیں کتنے پرانے وقتوں کے کاغذ جج کو دیکھا رہے ہو. وہ ایسے ثبوت کیسے مانے وہ سب ثبوت جج کی "پیدائش" سے پہلے کی ہے.
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنگل کا قانون برا ہوتا ہے ان حضرات سے گزارش ہے کہ سب شکار خور جانور صرف "بھوک" سے بچنے کیلئے شکارکرتے ہیں.* جانور سے "درندہ" بننے کیلئے بھوک* شرط ہے. یہ درندے پانامہ اور سوئیس میں "بوٹیاں" جمع نہیں کرتے کیونکہ وہاں "جنگل" کا قانون موجود ہے. اب ایک نئی بحث چلے گی کہ کیا بے تکی گفتگو کرلی میں نے اور فوج کا کیا قصور. یہ تو سب نواز اور زرداری کے کارنامے ہیں وغیرہ وغیرہ
نوٹ... تنقید بڑے شوق سے پر خدا کیلئے گالیاں اور افسانے نہیں چلے گے. بوٹ پالش کرنے کیلئے کئی اور تھریڈ موجود ہیں شکریہ
ایک پٹھان بوڑھا سارے خاندان سمیت عدالت کے باہر اپنا دکھڑا کچھ اس طرح بیان کرتا ہے.
"میرا جان ہے یہ میرا ایمان ہے پاکستان لیکن افسوس کا بات ہے کہ پاکستان کا سارہ بات لب جب لب جب. لب جب یہ ہے کے پیسہ"
ایک ماں شاید اپنے بچے یا بچوں کے حصول کیلئے عدلیہ کی بے رحم دروازوں جس کے مکین صمٌ بکمٌ کے زندہ مثال بنے ہوئے ہیں سے دلگیر اواز میں کہتی ہے.
"میں نہیں مانتی یہاں جنگل کا قانون ہے یہاں انسان بیٹھے ہے وہ ایک ماں کا درد سمجھتے ہے".
اس ملک میں قانون پڑھانے والے بہت ہیں کچھ نازک مزاج تو تھوڑی سی تنقید پر غمگین ہو جاتے ہیں. ان لوگوں کو کھبی اندھے قانون کا "گھونسا" نہیں پڑا جس دن پڑے گا اور ان کو سانس لیتے وقت* حلق میں اپنے خون کا ذائقہ محسوس ہوگا تب ان کو ان باغیوں کی باتیں "سچی" لگی گی.
بحثیت قوم ہم دوسروں کا درد محسوس کرنے سے قاصر ہے کوئی بھی چوٹی کا دانشور قبائیلوں اور بلوچوں کیلئے نہیں بول رہا. ہمارے اکثریت کو اج تک نہیں معلوم کے پانچ لاکھ قبائلی پچھلے دو سال سے روز قطاروں میں کھڑی ہو کر" راشن" مانگتی ہے. وہ سخت جان قوم بھکاری بنا دی گئے. ان کے بازار گھر مساجد "موہن جودڑوں" میں بدل چکے ہیں لیکن دہشت گرد ہے کے ختم ہی نہیں ہو رہے.
بلوچستان میں ہم نے کیڑے مکوڑوں کو نوابوں کے سپرد کر دیا تھا وہ بیمار ہوتے تو دم درود اور مزاروں پر صحت کی دعا مانگتے. نوابوں نے اسکولوں اور ہسپتالوں جیسی خرافات کی ہوا نہ لگنے دی. جس سے تھوڑی سی غلطی ہوتی اسکو اپنے شکاری کتوں کے سامنے ڈال لیتے. انکی عورتیں نوابوں کے کنیزیں تھی. پھر ایک دن ہمیں خیال آیا کہ وہاں بھی فوجی چھاونیاں ہونی چاھئے. فوجی رہائشیں منصوبے وہاں بھی بنائی جا سکتی ہے بس وہ دن ہے اور اج کا دن ایک کشمکش جاری ہے.
ہمارے لوگ انصاف لینے کیلئے عدالتوں کے بند دروازوں پر سر ٹکرا کر چلے جاتے ہے.* ان کو اندازہ نہیں کہ "انصاف" صرف امیروں کیلئے ہوتا ہے یہ غریب بہت ڈھیٹ ہوتے ہے کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی نہیں گرمی سردی میں ایک ہی قسم کے کپڑے پہنتے ہیں. لیکن خواہشات دیکھو "انصاف" مانگ رہے ہیں. یار کوئی ان کو سمجھائے "صبر" کیوں نہیں کر لیتے صبر "کیوں" نہیں کر لیتے. ٹی وی کیمروں کے سامنے آکر ہمارے خوشی کے لمحات غارت کیوں کرتے ہو. اچھا خاصا موڈ تھا اسمیں "تلاطم" برپا کر دیا. کوئی ہے جو ان غریبوں کو سمجھا دے کہ جس کے خلاف وہ شکایت لائے ہے وہ کب کا قاضی اور کاتب دونوں کو خرید چکا ہے. جج تو کب کا فیصلہ دے چکا ہوتا لیکن آپ کے مخالف نے معاملہ لٹکانے کا کہا ہے تاکہ آپ باقی کے جمع پونجی اور عزت سے ہاتھ دھو لے. آپ کے مخالف کے پاس "قائداعظم" کی تصاویر" والے ثبوت ہے تم پتہ نہیں کتنے پرانے وقتوں کے کاغذ جج کو دیکھا رہے ہو. وہ ایسے ثبوت کیسے مانے وہ سب ثبوت جج کی "پیدائش" سے پہلے کی ہے.
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنگل کا قانون برا ہوتا ہے ان حضرات سے گزارش ہے کہ سب شکار خور جانور صرف "بھوک" سے بچنے کیلئے شکارکرتے ہیں.* جانور سے "درندہ" بننے کیلئے بھوک* شرط ہے. یہ درندے پانامہ اور سوئیس میں "بوٹیاں" جمع نہیں کرتے کیونکہ وہاں "جنگل" کا قانون موجود ہے. اب ایک نئی بحث چلے گی کہ کیا بے تکی گفتگو کرلی میں نے اور فوج کا کیا قصور. یہ تو سب نواز اور زرداری کے کارنامے ہیں وغیرہ وغیرہ
نوٹ... تنقید بڑے شوق سے پر خدا کیلئے گالیاں اور افسانے نہیں چلے گے. بوٹ پالش کرنے کیلئے کئی اور تھریڈ موجود ہیں شکریہ
- Featured Thumbs
- http://www.mubassir.com/ur/images/news/sher.jpg
Last edited: