جنسی دہشتگردی اور جوہی
BBC Urdu اصناف: سندھ, سیاست, پاکستان
حسن مجتییٰ | 2010-05-19 ،17:19
'پاکستان میں کوئی جنسی دہشتگردی نہیں۔ میں اس کی کیسے اجازت دے سکتا ہوں؟ جبکہ میں خود دو بچیوں کا باپ ہوں۔' یہ الفاظ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ہیں جو انہوں نے ستمبر دو ہزار آٹھ میں نیویارک میں اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہے تھے۔
لیکن پاکستان میں یہ عورتوں کے خلاف جنسی دہشتگردی نہیں تو کیا ہے جو سندھ کے دادو ضلع کی تحصیل جوہی کے گاؤں بچل لغاری میں چودہ سالہ بچی زلیخا لغاری کے ساتھ ہوئی ہے۔ چودہ سالہ زلیخا لغاری کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس، حکومتی پارٹی کا ایم این اے اور وفاقی وزیر اور اس میں شامل وڈیرے، یہاں تک کہ بچی کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹرز سب کے سب مبینہ طور پر زلیخا لغاری کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والوں کو بچانے میں مصروف ہیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق زیادتی کے ملزم ایک وفاقی وزیر کے بھائی کے کارندے ہیں۔
پانچ اپریل کو ایک کسان غلام شبیر لغاری کے گھر میں درجن بھر مسلح افراد داخل ہوئے اور تمام اہلیان خانہ پر تشدد کرنے اور انہیں رسیوں سے باندھنے کے بعد وہ ان کی چودہ سالہ بیٹی زلیخا کو اغوا کرکے لے گئے۔ پولیس اطلاع کرنے پر نہیں پہنچی اور جب مقامی لوگوں کے احتجاج پر مجبوراً ایس ایچ او ان کے ہمراہ ملزمان کے تعاقب میں گيا تو کاچھو کے صحرا میں ایک پہاڑي پر سے لڑکی کی چیخیں صاف سنائی دیتی تھیں۔ ملزمان کی فائرنگ پر پولیس پارٹی ڈر کر رک گئی اور ایس ایچ او نے کہا صبح کے روشنی میں ملزمان کے پیچھے جانا بہتر ہوگا۔ بعد میں مقامی لوگوں نے ملزمان کے چنگل سے ان کے ہاتھوں اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی کو آزاد کروایا۔
وہ دادو ضلع جو ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف تحریک کے حوالے سے 'سندھ کا ویتنام' کہلاتا تھا اب جنسی زیادتیوں کا دارالخلافہ یا ریپ کیپیٹل بن گیا ہے۔ مقامی صحافی نے مجھے بذریعہ ای میل بتایا کہ جوہی میں ایک خاتون ڈاکٹر کو ڈیلیوری کے بہانے بلوا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور جہاں حال ہی میں ایک مقامی صحافی غلام رسول برہمانی کی گولیوں سے سوراخ شدہ لاش ملی ہے۔
BBC Urdu اصناف: سندھ, سیاست, پاکستان
حسن مجتییٰ | 2010-05-19 ،17:19
'پاکستان میں کوئی جنسی دہشتگردی نہیں۔ میں اس کی کیسے اجازت دے سکتا ہوں؟ جبکہ میں خود دو بچیوں کا باپ ہوں۔' یہ الفاظ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ہیں جو انہوں نے ستمبر دو ہزار آٹھ میں نیویارک میں اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہے تھے۔
لیکن پاکستان میں یہ عورتوں کے خلاف جنسی دہشتگردی نہیں تو کیا ہے جو سندھ کے دادو ضلع کی تحصیل جوہی کے گاؤں بچل لغاری میں چودہ سالہ بچی زلیخا لغاری کے ساتھ ہوئی ہے۔ چودہ سالہ زلیخا لغاری کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پولیس، حکومتی پارٹی کا ایم این اے اور وفاقی وزیر اور اس میں شامل وڈیرے، یہاں تک کہ بچی کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹرز سب کے سب مبینہ طور پر زلیخا لغاری کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے والوں کو بچانے میں مصروف ہیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق زیادتی کے ملزم ایک وفاقی وزیر کے بھائی کے کارندے ہیں۔
پانچ اپریل کو ایک کسان غلام شبیر لغاری کے گھر میں درجن بھر مسلح افراد داخل ہوئے اور تمام اہلیان خانہ پر تشدد کرنے اور انہیں رسیوں سے باندھنے کے بعد وہ ان کی چودہ سالہ بیٹی زلیخا کو اغوا کرکے لے گئے۔ پولیس اطلاع کرنے پر نہیں پہنچی اور جب مقامی لوگوں کے احتجاج پر مجبوراً ایس ایچ او ان کے ہمراہ ملزمان کے تعاقب میں گيا تو کاچھو کے صحرا میں ایک پہاڑي پر سے لڑکی کی چیخیں صاف سنائی دیتی تھیں۔ ملزمان کی فائرنگ پر پولیس پارٹی ڈر کر رک گئی اور ایس ایچ او نے کہا صبح کے روشنی میں ملزمان کے پیچھے جانا بہتر ہوگا۔ بعد میں مقامی لوگوں نے ملزمان کے چنگل سے ان کے ہاتھوں اجتماعی زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی کو آزاد کروایا۔
وہ دادو ضلع جو ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف تحریک کے حوالے سے 'سندھ کا ویتنام' کہلاتا تھا اب جنسی زیادتیوں کا دارالخلافہ یا ریپ کیپیٹل بن گیا ہے۔ مقامی صحافی نے مجھے بذریعہ ای میل بتایا کہ جوہی میں ایک خاتون ڈاکٹر کو ڈیلیوری کے بہانے بلوا کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور جہاں حال ہی میں ایک مقامی صحافی غلام رسول برہمانی کی گولیوں سے سوراخ شدہ لاش ملی ہے۔