CanPak2
Minister (2k+ posts)
جنرل سیسی عرف جنرل ضیا
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: اتوار 18 اگست 2013 ,* 12:28 GMT 17:28 PST
-
تین جولائی کو مصری فوج نے عوامی مظاہروں کے ردِعمل میں صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا
جنرل ضیا نے تختہ الٹنے کے چند دنوں بعد مغربی صحافیوں سے پہلی مرتبہ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو حکومت عوام کا اعتماد کھو بیٹھی تھی۔ اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو خانہ جنگی کا خطرہ تھا۔ فوج ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ بیرکوں سے باہر نہیں رہے گی۔میرا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ انتخابات نوے دن میں حسب ِ وعدہ منعقد ہوں گے۔ امریکہ سمیت کوئی بیرونی طاقت پاکستان کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔ ہمیں خود ہی ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جو جمہوری اور اسلامی اقدار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسی مثبت قیادت کے ہاتھ میں ہو جو اس ملک کی اساسی روایات کی آئینہ دار ہو۔
ا
مصر کے مردِ آہن جنرل عبدالفتح السیسی نے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے ایک ماہ بعد اخبار واشنگٹن پوسٹ کو پہلا انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مرسی حکومت منتخب ضرور تھی مگر ایک ہی سال میں عوام کا اعتماد کھو بیٹھی تھی۔ فوج مداخلت نہ کرتی تو مصر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا۔ فوج کو اقتدار پر قبضے کی کوئی خواہش نہیں۔ میرا صدارتی انتخاب لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مصر کو جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھانے کا کام شیڈول کے مطابق ہوگا۔
پہلے نئے آئین پر ریفرینڈم، پھر اگلے برس کے شروع میں پارلیمانی انتخابات اور اس کے بعد صدارتی انتخابات۔ امریکہ سمیت کوئی بیرونی طاقت مصر کے مسائل حل نہیں کر سکتی بلکہ امریکہ نے اس وقت جس طرح مصر سے پیٹھ موڑی ہے اسے ہم نہیں بھولیں گے۔ آئندہ جو بھی قیادت لوگ منتخب کریں گے وہ عظیم الشان مصری روایات اور قوم کی نمائندہ ہوگی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنرل کہیں کا ہو، ہوتا وہ جنرل ضیا ہی ہے۔
نکاراگوا میں برسرِ اقتدار سموزا خاندان کے بارے میں بیان
"یقیناً وہ حرامزادے ہیں لیکن ہمارے والے ہیں۔۔۔۔۔"
سابق امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ
ضیا الحق کے برسرِ اقتدار آنے کے ایک ماہ بعد امریکی وزیرِ خارجہ سائرس وینس نے امید ظاہر کی کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ فوج نوے دن میں انتخابات کروا کے جمہوری عمل کو دوبارہ پٹڑی پر ڈالنے کے لیے پرعزم ہے۔
جنرل عبدالفتح السیسی کی جانب سے محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے ایک ماہ بعد امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اسلام آباد میں کہا کہ مصری فوج نے تختہ نہیں الٹا بلکہ وہ جمہوریت بحال کرنے آئی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ بھلے انیس سو ستتر کا ہو کہ دو ہزار تیرہ کا۔امریکہ امریکہ ہی رہے گا۔
جب جنرل ضیا نے تختہ الٹا تو چند روز سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے حالات کو سمجھنے میں صرف کیے اور جب سمجھ میں آگئے تو پھر وہ ہنسی خوشی فوجی حکومت کے ساتھ رہنے لگے۔ جنرل ضیا کو نہ صرف خلیجی تیل بلکہ پاکستانی جمہوریت کا قبلہ درست کرنے کے لیے سعودی آئینی ماہرین بھی فراہم ہوئے۔ جب افغان جہاد شروع ہوا تو سعودی عرب نے امریکہ کے ہر ایک ڈالر کے بدلے اپنا ایک ڈالر جہادی چندے میں ڈالا اور یوں جنرل ضیا کو تاحیات اقتدار نصیب ہوا۔
جب جنرل سیسی نے محمد مرسی کا تختہ الٹا تو سعودی عرب نے پانچ ارب، کویت نے چار ارب اور متحدہ عرب امارات نے تین ارب ڈالر کی فوری امداد کا اعلان کردیا۔ (امریکہ پہلے ہی سے مصر کو سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر امداد دے رہا ہے)۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے تمام عربوں سے ابھی دو دن پہلے ہی ذاتی اپیل کی ہے کہ وہ دھشت گردی کے خاتمے کی مصری کوششوں کی یک سو ہو کر حمایت کریں۔
مصر کی عبوری حکومت اخوان المسلمین کی مذید مزاحمت سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر عمل کر رہی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ شام میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں بشار الاسد کے مخالفین کی اس لیے مدد کر رہی ہیں کیونکہ سنی اکثریت کو علوی شیعہ اقلیتی حکومت کے مظالم کا سامنا ہے۔ مگر مصر کے صدر محمد مرسی تو ایک سنی اکثریتی ملک کے منتخب سنی صدر تھے جنہیں ایک سنی جنرل نے الٹ دیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات ہم سب کے چچا زاد بھائی تھے اور رہیں گے۔نہ جنرلوں کی سوچ بدلی، نہ امریکہ اور نہ ہی خلیجی ممالک بدلے۔ بدلی ہے تو بس جماعتِ اسلامی جس نے جنرل ضیا الحق کی اندھا دھند حمایت سے یہ سبق سیکھا کہ اب کسی جنرل کی انفرادی حمایت نہیں کریں گے بھلے مصر کا ہی کیوں نا ہو۔ مگر جماعتِ اسلامی کی اکلوتی ریلیوں میں مصر میں ہونے والے مظالم کے پیچھے صرف امریکی سازش کی ہی مذمت ہو رہی ہے۔آخر برادر خلیجی ممالک نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ جماعت کی نگہہِ التفات ان پر نہیں پڑ رہی۔جب صدر امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ سے پوچھا گیا کہ نکاراگوا میں برسرِ اقتدار سموزا خاندان کی زیادتیوں کا آپ کیوں نوٹس نہیں لیتے تو روز ویلٹ نے ترنت کہا کہ یقیناً وہ حرامزادے ہیں لیکن ہمارے والے ہیں۔۔۔۔۔۔