پچھلے کچھ دنوں سے کئے پوسٹ اور پوسٹر دیکھے جسمیں کئی بوٹ پالیشی بوٹ چاٹنے میں مصروف ہیں. ان میں سے ایک پوسٹ جو کسی اخبار میں چھپا تھا کچھ یوں ہے کہ "ہم جنرل باجواہ کو جس نے ایف سی سرسید کالج پنڈی سے میٹرک اور ایف ایس سی تعلیم حاصل کی کو فوج کا سربراہ بننے پر دل کے گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں. منجانب شفقت بھٹی سابقہ طالب علم سر سید کالج راولپنڈی. تو موصوف کا باجواہ سے* "محبت" کی وجہ اور "تعلق" ایک ہی کالج میں پڑھنا ہے. بڑا ہی قریبی رشتہ ہے بھٹی صاحب کا باجواہ سے.
پوسٹ دیکھنے کے بعد شدد جذبات میں آکر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہوتا اور ترقی کرتے ہوئے چار ستارہ جرنیل بن جاتا. تو آج ہزاروں لوگ اٌس ٹوٹے پھوٹے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے پر فخر کرتے اور جن ٹاٹوں* پر بیٹھ کر ٹھاٹ کی تعلیم حاصل کی اس کے ٹکڑوں کو ڈیکوریشن* پیس کے طور پر گھروں اور دکانوں پر سجاتے اور تو اور کئی بے نام مساجد میری نام کر دئے جاتے. آخروٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا. بنجاب اور سندھ کے لوگ سوات کے بجائے دیر کا رٌخ کرتے. کئی نامور محب وطن اینکر اور صحافی دیر کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ابدیدہ ہو جاتے. ہر دوسرے دن دیر کے خوبصورتی کی ڈکومینٹریاں چل رہی ہوتی..........
لیکن*پھر سوچتا ہو کہ یار میرے خاندان کے تین افراد فوج میں گئے ماموں فوج میں نرس تھے. دو تین سال گزارنے کے بعد بڑی منت سماجت کے بعد اسکو فوج سے چھٹی ملی. ایک کزن لانس نائیک کے عہدے سے آگے نہ بڑھ سکے. دوسرا کزن نائب صوبیدار تھے* اسکی خواہش تھی کہ شہادت ملے اللہ نے اسکی خواہش پوری کر دی.
حقیقت یہ ہے کہ فوج میں جاتا تو شاید ایک ستارہ بھی کندھوں پر نہ لگتا. چلو کوئی تو بات ہوگی جس پر فخر کیا جاسکے. بوٹ پالش کرنے میں ایسا کیا مزہ ہے جو لوگ باز نہیں آتے. کیوں نہ ایک تجربہ کیا جائے. میرا ایڈمن صاحبان سے گزارش ہے کہ میرے طرف سے جلی حروف میں دیر کے سب سے مشہور اور قابل سپوت جماعت اسلامی والے سراج لالا کے نام پوسٹ لگائے جسمیں درج ہو کہ " میں دیر کے مرد مومن اور اسلامی دنیا کے مایہ ناز لیڈر سراج الحق صاحب کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہونے پر دل کے اتھاہ گہرائیوں اور اخروٹ کے درخت کے اونچائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں. میں امید کرتا ہو کہ سراج صاحب میرے امیدوں پر پورا اترتے ہوئے میرا "سر" دیر کے سنگلاخ نوکیلے اور بلند پہاڑوں سے بھی ذیادہ اونچا کرینگے" شکریہ منجانب حیدر علی دیروجی
*
پوسٹ دیکھنے کے بعد شدد جذبات میں آکر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہوتا اور ترقی کرتے ہوئے چار ستارہ جرنیل بن جاتا. تو آج ہزاروں لوگ اٌس ٹوٹے پھوٹے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے پر فخر کرتے اور جن ٹاٹوں* پر بیٹھ کر ٹھاٹ کی تعلیم حاصل کی اس کے ٹکڑوں کو ڈیکوریشن* پیس کے طور پر گھروں اور دکانوں پر سجاتے اور تو اور کئی بے نام مساجد میری نام کر دئے جاتے. آخروٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا. بنجاب اور سندھ کے لوگ سوات کے بجائے دیر کا رٌخ کرتے. کئی نامور محب وطن اینکر اور صحافی دیر کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے ابدیدہ ہو جاتے. ہر دوسرے دن دیر کے خوبصورتی کی ڈکومینٹریاں چل رہی ہوتی..........
لیکن*پھر سوچتا ہو کہ یار میرے خاندان کے تین افراد فوج میں گئے ماموں فوج میں نرس تھے. دو تین سال گزارنے کے بعد بڑی منت سماجت کے بعد اسکو فوج سے چھٹی ملی. ایک کزن لانس نائیک کے عہدے سے آگے نہ بڑھ سکے. دوسرا کزن نائب صوبیدار تھے* اسکی خواہش تھی کہ شہادت ملے اللہ نے اسکی خواہش پوری کر دی.
حقیقت یہ ہے کہ فوج میں جاتا تو شاید ایک ستارہ بھی کندھوں پر نہ لگتا. چلو کوئی تو بات ہوگی جس پر فخر کیا جاسکے. بوٹ پالش کرنے میں ایسا کیا مزہ ہے جو لوگ باز نہیں آتے. کیوں نہ ایک تجربہ کیا جائے. میرا ایڈمن صاحبان سے گزارش ہے کہ میرے طرف سے جلی حروف میں دیر کے سب سے مشہور اور قابل سپوت جماعت اسلامی والے سراج لالا کے نام پوسٹ لگائے جسمیں درج ہو کہ " میں دیر کے مرد مومن اور اسلامی دنیا کے مایہ ناز لیڈر سراج الحق صاحب کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب ہونے پر دل کے اتھاہ گہرائیوں اور اخروٹ کے درخت کے اونچائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں. میں امید کرتا ہو کہ سراج صاحب میرے امیدوں پر پورا اترتے ہوئے میرا "سر" دیر کے سنگلاخ نوکیلے اور بلند پہاڑوں سے بھی ذیادہ اونچا کرینگے" شکریہ منجانب حیدر علی دیروجی
*