jani1
Chief Minister (5k+ posts)
جناح کا ہسپتال
ایک بُزرگ عزیز کے ساتھ جناح ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔۔ رکشے سے قدم نیچھے رکھنے پر ایک بوسیدھا سے بورڈ پرجناح بابا کے نام کو پایا ۔۔۔ آج اگرجناح بابا ہوتے تو اُن پر کیا گُزرتی ۔۔ اپنے نام اور فوٹو کے اس بے دریغ استعمال پر۔۔۔
خیر آنکھ کے سیکشن یا ویٹنگ ہال میں قُل .تین سے چار مریل قسم کے اینرجی سیوروں کی ناتواں قسم کی روشنی کو دیکھ کر عجیب اور خُوشگوار سی حیرت ہوئی کہ آنکھوں کے مریضوں کا دروازے سے ہی علاج شُروع ہوجاتا ہے۔۔۔ اُنہیں اندھیرے میں رکھ کر۔۔۔
اور چھت کا کیا کہنا کہ آرٹیفیشیل سیلنگ (جو کہ آڑھی ترچی اور پھٹی ہوئی حالت میں موجود تھی) سے پلیٹوں والے گندے چھت کا نظارا بخُوبی کیا جاسکتا تھا۔۔۔ شاید یہ بھی کسی تھراپی کی ایک قسم تھی۔۔۔
پنکھے تھے کہ بس اپنی ذمے داری نباہ رہے تھے اپنے پروں کواتنی آہستگی سے گُھما کر کہ کوئی ہوا سے ڈسٹرب نہ ہونے پائے۔۔۔۔ جہاں بھی گئے دھول اور گرد کے علاوہ پھٹے پُرانے فرنیچراور کُرسیوں کو ہی پایا۔۔۔
باقی کاموں میں ہم ایک دُوسرے سے بھلے ہی نفرت کرتے ہوں مگر قطار کے معاملے میں ایک دُوسرے سے چھپک کے کھڑے ہوتے ہیں جس کی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہوگی۔۔۔
نام۔۔۔؟؟۔۔۔عُمر۔۔۔؟؟۔۔۔۔پتہ۔۔۔؟؟
قطار کے آخر میں ایک پٹیچرقسم کے کاونٹر پر خرانٹ نُما بندہ قطار والوں سے تیز اور با رُعب آوازمیں پُوچھے جا رہا تھا۔۔ جو کہ پرچیاں دینے پر قُدرت رکھتا تھا اورشاید خُد کو کسی شہنشاہ سے کسی طور بھی کم نہی سمجھتا تھا۔۔۔
وطن عزیز کے سسٹم کی یہی تو خُوبی ہے کہ یہاں پرسرکاری اداروں کا چپڑاسی بھی خُد کو شہنشاہ سمجھتا ہے (جبکہ عوام کو غُلام)۔۔۔
پرچی لینے کے بعد اپنے عزیز کو سہارہ دیتے ہوئے اُسی اندھیرے ہال کے ایک کونے میں موجوُد شخص کے پاس لے گیا جو کہ دو اور تین اُنگلیاں ہوا میں لہرا کر مریضوں کی نظرچیک کررہا تھا۔۔۔ ناجانے کیسے۔۔
پھراُسی ہال میں بیٹھے ڈاکٹر کی باری آئی جو کہ اپنے کام سے بیزار معلُوم ہوتا تھا اور شاید تنخواہ گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی پانا چاہتا تھا۔۔۔
اُس بیزار ڈاکٹر سے چیک اپ کے بعد ہمیں مزید دو کمروں کی طرف جانے کو کہا گیا۔۔۔
پہلے کمرے میں داخلے پر کسی کباڑ خانے کا احساس ہوا جس میں ایک ائیرکنڈیشنڑ تو تھا مگر ہوا کے لئے نہی بلکہ صرف شور مچانے کے لئے۔۔۔۔اس کے اثرات کمرے میں موجود سٹاف کے چہرے اور لہجے سے واضح تھے۔۔
دُوسرا کمرا ایک دُوسرے ڈاکٹر کا تھا جس کا کام نظر کو چیک کرنا تھا الگ الگ چشمے کی مدد سے۔۔۔
پھر ہمیں تیسرے کمرے میں جانے کو کہا گیا جہاں پر وہی ہال والا بیزار ڈاکٹر ملا۔۔۔جس کی بیزاری میں کُچھ اضافہ ہوچُکا تھا صرف دو تین گھنٹہ کام کرکے۔۔۔۔
اپنی باری آنے پر خُدا کا شُکر اور کُچھ ہمت کرکے آگے بڑھے۔۔
بُزرگ عزیزجو کہ ذرہ اُونچا سُنتے تھے کے ساتھ تھوڑی سی محنت ڈاکٹر کو گراں گُزری جس کا ثبوت اُس نے بُزرگ کو اپنے پارٹنر کے حوالے کرکے دیا۔۔۔
اللہ بھلا کرے بیچارے اُس پارٹنر کا جس نے اپنی موبائل فون کی مصروفیات چھوڑ کر بُزرگ کوچیک کیا۔۔۔
.آخر میں ہمیں فائل بنانے اور آپریشن کی ڈیٹ لینے کے لئے ایک کمرےمیں بھیجا گیا جہاں پر دو حضرات گپ شپ میں مصرُوف تھے اور ہمارے کمرے میں جانے کو پہلے تو یکسر نظر انداز کردیا پھر بُزرگ کو دیکھ کر اُن سے دو چارسوالات پُوچھے اور فائل پر ٹپہ مارا۔۔۔وہاں سے ایک کمرے پھر دُوسرے پھر تیسرے اور چوتھے کمرے سے ہوکر دوُبارہ اُسی ڈاکٹر کے پاس۔۔۔۔
ڈاکٹر نے دُوسرے وارڈ سے مزید ہدایات پانے کا کہا۔۔۔جب دُوسرے وارڈ میں پہنچے تووہاں پر موجود ذمےدار خاتُون نے کوئی نمبر دیا جہاں سے ہمیں لینس خرید کر اگلے روز آپریشن کے لئے آنا تھا (لینس خریدنے کی کہانی کے لئے ایک اور تھریڈ درکار ہوگا)۔۔.
ہسپتال چھوڑنے سے پہلے بلڈ پریشر چیک کرانے اورآنکھ کے وارڈ سے ایمرجنسی وارڈ تک کا رکشے کا سفر اور وہاں سے مزید ایک ٹپہ لگانے کی خواری کی الگ ہی داستان ہے۔۔
.
اس ساری کہانی کو شئیر کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ جتنا لمبا چھوڑا ان کا پروسیجرصرف ایک آنکھ کے لیے ہے توباقی چیزوں میں مریض راستے میں ہی جان نہ دے تو اور کیا کرے۔۔۔
یہاں بلو رانی کے نخرے اور میاں جی کی اداوں کے لیے تو پیسہ ہے مگر عام آدمی کے لئے بُنیادی سہولیات بھی نہی۔۔۔
Last edited: