جمہوری کرپشن اور پاکستان.عامر ملک

جمہوری کرپشن اور پاکستان

عامر ملک

آپ یقین کریں یا نہ کریں مگراب اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں کرپشن کو جمہوری تحفظ حاصل ہے ،اس کی واضح مثالیں اتنی زیادہ ہمارے ارد گرد موجود ہیں کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کرپشن سے جمہوریت کو کیسے باہر نکالا جائے اور اگر بالفرض باہر نکال بھی لیا جائے تو کون سے ایسے پیرا میٹر ہیں جو اس با ت کو واضح کر یں گے کہ آئندہ اس ملک میں جمہورہت کے نام پر کسی قسم کی کرپشن نہیں ہو گی اور جو کرے گا اسے قرار واقعی سزا ہو گی ،اسے عبرت کا نمونہ بنایا جائے گا تو اس بات کا بھی یقین کر لیں کہ ایسا ہونے کے آثار نہیں آ رہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں

کہ گلی سے پکڑے جانے والے معمولی چور کو تو پولیس ڈاکو بنا کر معاشرے میں ایک اچھوت کی حیثیت دلا دیتی ہے مگر ہماری اعلیٰ عدالتیں اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو با عزت بری قرار دے کر انہیں جمہوری ہیرو بنا کر رکھ دیتی ہے۔ واضح رہے کہ کرپشن یا بد عنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں بلکہ اپنے عہد اور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں اور ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کے لئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بد عنوانی ہے۔ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے،

ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور تباہ کرتی جا رہی ہے مگر اس کو روکنے والے ہاتھ خود بھی کرپشن کی بہتی گنگا سے فیض یاب ہو رہے ہیں ،اس لیے یہاں نیب جیسے ادارے پھل پھول رہے ہیں ۔ کرپشن آکاس بیل کی طرح سے ہے یعنی وہ زرد بیل جو درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے، یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، یہاں تک کہ معاشرہ کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے۔

یہ جو اتنی تہمید باندھی ہے تو آپ یقین کریں کہ اس کا ایک پس منظر ہے ،گذشتہ ستر سالوں سے اس ملک کی عزت و وقار پر کرپشن کے نام کا جو بٹہ لگا ہے کہ اب پاکستان کا شمار بد عنوان ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے اگرچہ اب کچھ حد تک بہتری آ ئی ہے تاہم یہ بھی شرمناک مقام ہے کہ ہم نے جمہوریت کے نام پر ،خاندانی اور موروثی سیاست سمیت کرپشن اور بد عنوانی کو بھی آئینی اور جمہوری حیثیت دے دی ہے اور اس کے بعد غربت ،مہنگائی اور بے روز گاری کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا ہے۔ آپ یقین کریں کہ گذشتہ سال23 دسمبر کو مسٹر ٹین پرسینٹ اور سابق صدر پاکستان مسٹر آصف علی زرداری کی وطن واپسی کی خبر پر ان کے استقبال کی تیاریاں دیکھ کر عقل محو حیران تھی اور دل پاکستانی قوم خاص کر اہل سندھ کے اتنے خراب حافظے پر ماتم کر رہا تھا

جو اس بد عنوان شخص کے اعمال نامے بھول کر اس پر سرخ پھول نچھاور کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ شخصیت پرستی کے آسیب میں مبتلا اس قوم پرافسوس ہی کیا جا سکتا ہے جو گذشتہ کئی سالوں میں تھر میں بھوک اور پیاس سے آٹھ سو سے ایک ہزار بچے گنوا کر بھی بھٹو اور زرداری زادوں کی پرستش میں مصروف ہے۔ یاتو قسمت اس بندے پر بہت مہربان ہے یا پھر اس خطے کی نبض پر اس کے ہاتھ بہت گہرائی تک جاتے ہیں۔ 27 دسمبر 2007 کو بی بی کی شہادت پر واپس آئے اور کو چیئر مین پیپلز پارٹی کی سیٹ سنبھال لی اور پھر 2008کے انتخابات میں صدر پاکستان منتخب کر لئے گئے۔ واہ رے میری قوم تری قسمت ،حکمرانی کے لیے تجھے چور ،لیٹرے اور زرداری جیسے لوگ ہی ملتے ہیں۔ صدارت ملتے ہی زرداری صاحب کو یاد آ گیا

کہ بھائی پاکستان تو بی بی کے ساتھ ان کے نکاح میں آیا تھا ،چلو پھر لوٹو بلکہ اس بار تو ان کو ٹیم ہی بڑی اچھی مل گئی جن میں یوسف رضا گیلانی، ڈاکٹر عاصم ،حامد کاظمی،شرجیل میمن،راجا پرویز اشرف اور بہت سارے جو ملک وسائل کو لوٹنے کی ڈگریاں لے کر ہی اس دنیا میں آئے ہیں۔ڈاکٹر عاصم نے 471 ارب روپے کی کرپشن کی اور پچاس لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت ملی اور وہ اب ایک باعزت شہری کی زندگی گزارے گا۔ شرجیل میمن نے پانچ ارب روپے کی کرپشن کی اور پھر بیس لاکھ میں ضمانت ملی اور وہ بھی اس قوم کا لیڈر ہے اور رہے گا۔ماڈل ایان علی پانچ کروڑ روپے بیرون ملک لے جاتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ،پکڑنے والا کسٹم انسپکٹر قتل ہوااور محترمہ معصوم کی معصوم۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو سامنے ہیں۔

ارے بھائی یہاں تو کرپشن کی ایسی ایسی مثالی پڑی ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے ۔اقبال کا خواب اور قائد اعظم اور رفقاء کی محنت کو جس طرح آستین کے یہ سانپ لوٹ رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور پاکستانی عوام جس طرح ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اس سے قوم کی اخلاقی گراوٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میں کڑتا ہوں ان حالات سے ،اے میرے اہل قلم دوستوں ،اٹھو ،اٹھاو اپنے قلم اور سچ کی بوچھاڑ کر دو ۔ بتاؤ لوگوں کو کہ جس رسول ﷺ کی حرمت پر یہ جان لیتے ہیں وہ رزق حرام کی سختی سے مذمت کرتے ہیں ۔ مگر شاید ہمارا ایمان صرف جان لینا رہ گیا ہے اور ہم کرپشن کے ان خداؤں کو پوچتے چلے جا رہے ہیں۔ خالی زرداری اینڈ کو ہی نہیں موجودہ حکمران جماعت بھی اس حمام میں ویسی ہی ہے جیسا کہ زرداری اور ان کے ساتھی۔ یہ بھی ملکی خزانے کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور جس کا جتنا دا لگتا ہے وہ لگاتا چلا جاتا ہے۔تو نہیں تو ترے بچے سہی۔

پانامہ موجودہ حکمرانوں کی اولادوں کی کرپشن اور حکمرانوں کی خاموشی کی واضح مثال ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔مگر میری قوم ان سب کو سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے مگر کب تک۔ مگر جاتے جاتے ایک بات کہوں اگر بری نہ لگے تو اس ملک و قوم کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو گا کہ سیلاب متاثرین کی مدد میں دیا گیا ہار ہمارے وزیرا عظم کے گھر سے برآمد ہو ا،اور ہم نے تب ببھی کچھ نہ سمجھے اور اب بھی قوم خاموش ہے ،واہ رے ہماری بھولی قوم واہ۔ آج کے لیے اتنا ہی سہی
میرے

دوستوں، باشرط زندگی ،اس موضوع پر پھر بات ہو گی اور کھل کر ہو گی ۔انشاء اللہ

http://www.dadapota.pk/democratic-corruption-pakistan/
 
Last edited by a moderator:

Back
Top