ابابیل
Senator (1k+ posts)
دروس حدیث ۔۔۔ ابو کلیم فیضی
جمعہ کا قدم
حدیث نمبر :27
عن أَوْسُ بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِىُّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -صلى اللہ علیہ وسلم- یَقُولُ مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاغْتَسَلَ ثُمَّ بَکَّرَ وَابْتَکَرَ وَمَشَى وَلَمْ یَرْکَبْ وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ کَانَ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ عَمَلُ سَنَۃٍ أَجْرُ صِیَامِہَا وَقِیَامِہَا .
(أحمد، ج : ۴، ص: ۱٠، السن الأربعۃ / صحیح الترغیب، ج : ۱، ص: ۴۳۳)
ترجمہ : حضرت أوس بن أبی أوس ثقفی رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور سروغیرہ دھوکر اچھی طرح غسل کرے ، مسجد کی طرف جانے میں جلدی کرے اور خوب جلدی کرے (صبح سویرے جائے) پید ل چل کر جائے اور سوار نہ ہو، امام کے قریب ہو کر بیٹھے ، اور امام کے خطبہ کو غور سے سنے اور دوران خطبہ کوئی لغو کام نہ کرے تو ہر ہر قدم پر اسے سال بھر روزہ رکھنے اور قیام اللیل کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
(مسند أحمد اور سنن أربعہ)
تشریح : جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے بڑے فضائل سے نوازا ہے ، اسے تمام دنوں کا سردار قراردیا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کے دن ہے ، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن زمین پر بحیثیت خلیفہ بھیجا گیا، قیامت جمعہ کے دن قائم ہو گی اور میدان حشر اور جنت میں جمعہ کے دن کی نرالی شان ہو گی، نیز دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس دن کو بعض ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو کسی اور دن کو حاصل نہیں ہے ، اسے تمام دنوں سے افضل قرار دیا ہے ، اس دن کو مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے ، اس دن مسلمانوں پر جمعہ کی نماز کو فرض قرار دیا ہے ، جمعہ کی نماز کی ادائیگی پر بہت بڑے اجر کا وعدہ اور جمعہ کی نماز چھوڑنے پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے ، زیر بحث حدیث میں جمعہ اور یوم جمعہ کی ایک بڑی فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ جمعہ کے لئے جانے والوں کو ہر ہر قدم پرسال بھر روزہ رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے ،
لیکن اس اجر عظیم کے حصول کو زیر بحث حدیث میں کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے :
(۱) غسل کرنا : جمعہ کے دن غسل کو خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ بعض حدیثوں میں صراحت کے ساتھ غسل جمعہ کو واجب قرار دیا گیا ہے ، اللہ کے رسو صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے
(بخاری ومسلم)
اس لئے چاہئے کہ جمعہ کے دن غسل کا خصوصی اہتمام کیا جائے ، عام دن کے غسل سے ہٹ کر اس دن صابون، شیمپو اور سرمہ وغیرہ کا خصوصی لحاظ رکھا جائے اور حتی الامکان صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں اور جو خوشبو میسر آئے استعمال کی جائے
(صحیح البخاری)
(۲) مسجد کی طرف جلدی سے جانا : ایک مؤمن بندہ کو چاہئیے کہ جمعہ کے لئے جمعہ کا وقت ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ جس قدر ممکن ہو جلدی جانے کی کوشش کرے حتی کہ بعض سلف کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فجر سے پہلے ہی جامع مسجد کے لئے روانہ ہو جاتے تھے ، لیکن افسوس کہ آج یہ سنت مردہ ہوتی جا رہی ہے۔
(۳) جمعہ کے لئے پیدل جانا : اس حدیث میں مذکورہ فضیلت کے حصول کے لئے تیسری شرط یہ لگائی گئی ہے کہ جمعہ کے لئے جانے والا شخص جامع مسجد پیدل چل کر جائے سواری پر نہ سوار ہو، ا لا یہ کہ جامع مسجد اس قدر دور ہو کہ وہاں پیدل پہنچنا مشکل ترین کام ہو یا جانے والا چلنے سے معذور ہو توایسا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک معذور سمجھا جائے گا اور اس حدیث میں مذکور اجر کا مستحق ہو گا۔
(۴) امام کے قریب ہو کر بیٹھنا : یعنی مسجد میں پہنچ جائے تو کوشش رہے کہ امام کے قریب ترین جو جگہ بھی خالی ہے سنتوں سے فارغ ہو کر وہاں بیٹھ جائے ، لیکن اس کے لئے لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے ، کیونکہ جمعہ کے دن تاخیر سے آنا اور پھر لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے بیٹھنے کی کوشش کرنا ناجائز ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ایک شخص کو دیکھا توفرمایا : جہاں ہو وہیں بیٹھ جاؤ، ایک تو تم دیر سے آئے اور اب اس گردنیں پھلانگ کر طرح لوگوں کو تکلیف دے رہے ہو۔
(سنن ابوداؤد، سنن النسائی، بروایت عبد اللہ بن بسر)
(۵) خطبہ کو غور سے سنے : خطبہ کا معنی حاضرین کو مخاطب کرنا ہے ، اس لئے جمعہ کے لئے حاضر شخص کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ وہ خطبہ کو کان لگا کر سنے ، دوران خطبہ ادھر ادھر دیکھنا یا کسی اور چیز میں مشغول رہنا خطبہ کے آداب کے خلاف ہے ، اس لئے اب اگر کوئی شخص جمعہ کے لئے تو آتا ہے لیکن کان لگا کر خطبہ نہیں سنتا بلکہ ادھر ادھر کے خیالات میں مگن رہتا ہے توایسا شخص اس اجر عظیم کا مستحق نہ ہو گا۔
(۶) خطبہ کے دوران لغو کام نہ کرے : لغو کام سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ شخص خطیب کی طرف متوجہ نہیں ہے ، جیسے اپنے کپڑے ، بال اور مسجد کے فرش وغیرہ سے کھیلنا، اپنے پڑوس میں بیٹھے شخص سے بات کرنا یا کوئی چیز پوچھنا، حتی کہ کسی سے یہ کہنا بھی جائز نہیں ہے کہ "تم خاموش رہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دوران خطبہ جس نے اپنے بھائی سے کہا : خاموش رہو تو اس نے لغو کیا اور جس نے لغو کام کیا اس کا جمعہ نہیں ہوا۔
(مسند احمد، أبوداؤد، بروایت علی )
اب ہر شخص یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اتنے عظیم اجر کا مستحق کب اور کس وقت ہوسکتا ہے ؟
٭٭٭
جمعہ کا قدم
حدیث نمبر :27
عن أَوْسُ بْنُ أَوْسٍ الثَّقَفِىُّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ -صلى اللہ علیہ وسلم- یَقُولُ مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاغْتَسَلَ ثُمَّ بَکَّرَ وَابْتَکَرَ وَمَشَى وَلَمْ یَرْکَبْ وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ کَانَ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ عَمَلُ سَنَۃٍ أَجْرُ صِیَامِہَا وَقِیَامِہَا .
(أحمد، ج : ۴، ص: ۱٠، السن الأربعۃ / صحیح الترغیب، ج : ۱، ص: ۴۳۳)
ترجمہ : حضرت أوس بن أبی أوس ثقفی رضی اللہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے : جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور سروغیرہ دھوکر اچھی طرح غسل کرے ، مسجد کی طرف جانے میں جلدی کرے اور خوب جلدی کرے (صبح سویرے جائے) پید ل چل کر جائے اور سوار نہ ہو، امام کے قریب ہو کر بیٹھے ، اور امام کے خطبہ کو غور سے سنے اور دوران خطبہ کوئی لغو کام نہ کرے تو ہر ہر قدم پر اسے سال بھر روزہ رکھنے اور قیام اللیل کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
(مسند أحمد اور سنن أربعہ)
تشریح : جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے بڑے فضائل سے نوازا ہے ، اسے تمام دنوں کا سردار قراردیا ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کے دن ہے ، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن زمین پر بحیثیت خلیفہ بھیجا گیا، قیامت جمعہ کے دن قائم ہو گی اور میدان حشر اور جنت میں جمعہ کے دن کی نرالی شان ہو گی، نیز دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس دن کو بعض ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جو کسی اور دن کو حاصل نہیں ہے ، اسے تمام دنوں سے افضل قرار دیا ہے ، اس دن کو مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے ، اس دن مسلمانوں پر جمعہ کی نماز کو فرض قرار دیا ہے ، جمعہ کی نماز کی ادائیگی پر بہت بڑے اجر کا وعدہ اور جمعہ کی نماز چھوڑنے پر سخت عذاب کی دھمکی دی ہے ، زیر بحث حدیث میں جمعہ اور یوم جمعہ کی ایک بڑی فضیلت یہ بیان ہوئی ہے کہ جمعہ کے لئے جانے والوں کو ہر ہر قدم پرسال بھر روزہ رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب ملتا ہے ،
لیکن اس اجر عظیم کے حصول کو زیر بحث حدیث میں کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے :
(۱) غسل کرنا : جمعہ کے دن غسل کو خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ بعض حدیثوں میں صراحت کے ساتھ غسل جمعہ کو واجب قرار دیا گیا ہے ، اللہ کے رسو صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے
(بخاری ومسلم)
اس لئے چاہئے کہ جمعہ کے دن غسل کا خصوصی اہتمام کیا جائے ، عام دن کے غسل سے ہٹ کر اس دن صابون، شیمپو اور سرمہ وغیرہ کا خصوصی لحاظ رکھا جائے اور حتی الامکان صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں اور جو خوشبو میسر آئے استعمال کی جائے
(صحیح البخاری)
(۲) مسجد کی طرف جلدی سے جانا : ایک مؤمن بندہ کو چاہئیے کہ جمعہ کے لئے جمعہ کا وقت ہونے کا انتظار نہ کرے بلکہ جس قدر ممکن ہو جلدی جانے کی کوشش کرے حتی کہ بعض سلف کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فجر سے پہلے ہی جامع مسجد کے لئے روانہ ہو جاتے تھے ، لیکن افسوس کہ آج یہ سنت مردہ ہوتی جا رہی ہے۔
(۳) جمعہ کے لئے پیدل جانا : اس حدیث میں مذکورہ فضیلت کے حصول کے لئے تیسری شرط یہ لگائی گئی ہے کہ جمعہ کے لئے جانے والا شخص جامع مسجد پیدل چل کر جائے سواری پر نہ سوار ہو، ا لا یہ کہ جامع مسجد اس قدر دور ہو کہ وہاں پیدل پہنچنا مشکل ترین کام ہو یا جانے والا چلنے سے معذور ہو توایسا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک معذور سمجھا جائے گا اور اس حدیث میں مذکور اجر کا مستحق ہو گا۔
(۴) امام کے قریب ہو کر بیٹھنا : یعنی مسجد میں پہنچ جائے تو کوشش رہے کہ امام کے قریب ترین جو جگہ بھی خالی ہے سنتوں سے فارغ ہو کر وہاں بیٹھ جائے ، لیکن اس کے لئے لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے ، کیونکہ جمعہ کے دن تاخیر سے آنا اور پھر لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے بیٹھنے کی کوشش کرنا ناجائز ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ایک شخص کو دیکھا توفرمایا : جہاں ہو وہیں بیٹھ جاؤ، ایک تو تم دیر سے آئے اور اب اس گردنیں پھلانگ کر طرح لوگوں کو تکلیف دے رہے ہو۔
(سنن ابوداؤد، سنن النسائی، بروایت عبد اللہ بن بسر)
(۵) خطبہ کو غور سے سنے : خطبہ کا معنی حاضرین کو مخاطب کرنا ہے ، اس لئے جمعہ کے لئے حاضر شخص کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ وہ خطبہ کو کان لگا کر سنے ، دوران خطبہ ادھر ادھر دیکھنا یا کسی اور چیز میں مشغول رہنا خطبہ کے آداب کے خلاف ہے ، اس لئے اب اگر کوئی شخص جمعہ کے لئے تو آتا ہے لیکن کان لگا کر خطبہ نہیں سنتا بلکہ ادھر ادھر کے خیالات میں مگن رہتا ہے توایسا شخص اس اجر عظیم کا مستحق نہ ہو گا۔
(۶) خطبہ کے دوران لغو کام نہ کرے : لغو کام سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ شخص خطیب کی طرف متوجہ نہیں ہے ، جیسے اپنے کپڑے ، بال اور مسجد کے فرش وغیرہ سے کھیلنا، اپنے پڑوس میں بیٹھے شخص سے بات کرنا یا کوئی چیز پوچھنا، حتی کہ کسی سے یہ کہنا بھی جائز نہیں ہے کہ "تم خاموش رہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دوران خطبہ جس نے اپنے بھائی سے کہا : خاموش رہو تو اس نے لغو کیا اور جس نے لغو کام کیا اس کا جمعہ نہیں ہوا۔
(مسند احمد، أبوداؤد، بروایت علی )
اب ہر شخص یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ اتنے عظیم اجر کا مستحق کب اور کس وقت ہوسکتا ہے ؟
٭٭٭
Last edited by a moderator: