Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
وہ کہنے لگا " میرے علاقیں میں سینکڑوں چشمے ہیں. آپ نے کھبی ریت سے پانی کو نکلتے ہوئے دیکھا ہے؟ چشمے کا پانی سردی میں گرم اور گرمی میں ٹھنڈا ہوتا ہے. دریائے سوات ہمارے گھر سے دس منٹ کی فاصلے پر ہے. دریائے کے کنارے چاول کے کھیت* ہے. دریا کا پانی اتنا صاف ہے کہ آپ مچھلیوں کو کافی فاصلے سے دیکھ سکتے ہیں. چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں. ہم بچپن میں گھر والوں سے چھپ کر ان پہاڑوں کو سر کرنے جاتے تھے. اب بڑے ہوگئے ہے تو وہ پہاڑ ناقابل تسخیر لگتے ہے. دریا کے اس طرف شفتالو کے باغات ہے دوسری طرف الوچوں؛ناشپاتی اور مالٹوں کے باغات ہے. پچپن میں ہم اسکول کے دوست ان باغوں میں درخت سے گرے ہوئے الوچے اٹھانے جاتے تھے. دس منٹ میں ٹوکری بھر جاتی اور ہم مالی کو پانچ روپے دے کر واپس آجاتے . ایک بار ہم ان باغوں میں الوچے لینے گئے ایک گھر کے پاس گزرے جہاں* کتا* ٹہل رہا تھا. ہمیں دیکھ کر پہلے تو بھونکنے لگا لیکن جیسے ہی ہم نے دوڑ لگائی* وہ بھی ہمارے پیچھے دوڑنے لگا کچھ دور جانے کے بعد عبدالسمیع بھائی رکا اور رستے سے ایک پتھر اٹھا کر کتے کیطرف یہ کہہ کر لپکا کہ سالا ہمیں اور کتنے دور تک بھگائے گا. کتے نے مٌڑ کر دوڑ لگائی تو ہم نے بھی ایک دو پتھر دے مارے تا کہ کتا اٌس رفتار سے گھر پہنچے جس رفتار سے گھر چھوڑا تھا".
*اٌسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی
.
"آپ کس علاقے کے رہنے والے ہو" میں نے پوچھا.
اٌس نے میری بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ"
معلوم نہیں بچپن کے وہ خوبصورت دن یوں پلک جھپکتے کیسے گزر گئے. جیب میں ایک روپیہ نہیں ہوتا تھا لیکن مستی کے وہ دن کہ* اسکول کے چھٹیوں میں پانچ پانچ گھنٹے کرکٹ کھیلی. کھانا کھایا اور پھر کسی چشمے پر جاکر ایک دو گھنٹے وہاں گزار دیئے. کھبی دنیا کی فکر نہیں کی نا کوئی غم ادھ گھنٹے سے ذیادہ پریشان کرسکا. بارش
میں جب سارے لوگ گھروں اور دکانوں میں دبک جاتے تھے ہم اس میں میں بھیگنے باہر آجاتے تھے"
.
اسکی چہرے پرمسکراہٹ اب بھی موجود تھی.
"ان خوشیوں کو بے فکر دنیا کو میری جنت کو نا جانے کس کی نظر لگ گئی. مجھے اج بھی یاد ہے پی ٹی وی پر فوجی جوان قبضہ کر چکے تھے. سب لوگ خوش تھے کہ بے غیرت نواز سے جان چھوٹ گئی جس نے کارگل میں ٰجیتی' ہوئی جنگ ہاری تھی. کسی کو وہاں معلوم نہیں تھا کہ میرے عزیز ہموطنوں کے بعد کچھ نہیں بچے گا......
*اٌس بے فکر دنیا کو جب آگ لگی تو کوئی اپنا دامن نہیں بچا سکا. وہ جو محبت بانٹنے آئے تھے وہ نفرتوں کی بیچ بو گئے. جنہوں نے دل جوڑنے تھے وہ دل توڑ گئے. ہاں میں اٌس وقت مجھے اچھے برے کی تمیز آگئی تھی میں* معصوم پھولوں کو بوٹوں سے مسلتے ہوئے نہیں دیکھ سکا. آگر چہ میں شدید غصے میں تھا لیکن خاکی وردی کو خاک اور خون میں ملتا ہوا نہیں دیکھ سکا. میں اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا خون کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکا. ایک دن سورج غروب ہونے سے پہلے خاموشی سے دریائے سوات پر بنے پل کے اوپر کھڑے ہوکر اٌس کے خون سے ملے ہوئے پانیوں میں کچھ انسو بہا کر محبت کے سارے خواب چھوڑ آیا. اور اپنے جلے ہوئے دل کے ساتھ اپنے دامن میں بچھی کچھی عزت* لیکر کسی کو بتائے بغیر "جلا وطن" ہو گیا.
ڈرا دھمکا کے تم ہم سے وفا کرنے کو کہتے ہو
کہیں تلوار سے بھی،، پاؤں کا کانٹا نکلتا ہے؟
اس کے چہرا انسو سے بھیگ چکا تھا. میں نے ٹیشو سے اس کے انسو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن وہ "آئینہ" پہلے سے صاف تھا.
*اٌسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی
.
"آپ کس علاقے کے رہنے والے ہو" میں نے پوچھا.
اٌس نے میری بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ"
معلوم نہیں بچپن کے وہ خوبصورت دن یوں پلک جھپکتے کیسے گزر گئے. جیب میں ایک روپیہ نہیں ہوتا تھا لیکن مستی کے وہ دن کہ* اسکول کے چھٹیوں میں پانچ پانچ گھنٹے کرکٹ کھیلی. کھانا کھایا اور پھر کسی چشمے پر جاکر ایک دو گھنٹے وہاں گزار دیئے. کھبی دنیا کی فکر نہیں کی نا کوئی غم ادھ گھنٹے سے ذیادہ پریشان کرسکا. بارش
میں جب سارے لوگ گھروں اور دکانوں میں دبک جاتے تھے ہم اس میں میں بھیگنے باہر آجاتے تھے"
.
اسکی چہرے پرمسکراہٹ اب بھی موجود تھی.
"ان خوشیوں کو بے فکر دنیا کو میری جنت کو نا جانے کس کی نظر لگ گئی. مجھے اج بھی یاد ہے پی ٹی وی پر فوجی جوان قبضہ کر چکے تھے. سب لوگ خوش تھے کہ بے غیرت نواز سے جان چھوٹ گئی جس نے کارگل میں ٰجیتی' ہوئی جنگ ہاری تھی. کسی کو وہاں معلوم نہیں تھا کہ میرے عزیز ہموطنوں کے بعد کچھ نہیں بچے گا......
*اٌس بے فکر دنیا کو جب آگ لگی تو کوئی اپنا دامن نہیں بچا سکا. وہ جو محبت بانٹنے آئے تھے وہ نفرتوں کی بیچ بو گئے. جنہوں نے دل جوڑنے تھے وہ دل توڑ گئے. ہاں میں اٌس وقت مجھے اچھے برے کی تمیز آگئی تھی میں* معصوم پھولوں کو بوٹوں سے مسلتے ہوئے نہیں دیکھ سکا. آگر چہ میں شدید غصے میں تھا لیکن خاکی وردی کو خاک اور خون میں ملتا ہوا نہیں دیکھ سکا. میں اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا خون کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکا. ایک دن سورج غروب ہونے سے پہلے خاموشی سے دریائے سوات پر بنے پل کے اوپر کھڑے ہوکر اٌس کے خون سے ملے ہوئے پانیوں میں کچھ انسو بہا کر محبت کے سارے خواب چھوڑ آیا. اور اپنے جلے ہوئے دل کے ساتھ اپنے دامن میں بچھی کچھی عزت* لیکر کسی کو بتائے بغیر "جلا وطن" ہو گیا.
ڈرا دھمکا کے تم ہم سے وفا کرنے کو کہتے ہو
کہیں تلوار سے بھی،، پاؤں کا کانٹا نکلتا ہے؟
اس کے چہرا انسو سے بھیگ چکا تھا. میں نے ٹیشو سے اس کے انسو صاف کرنے کی کوشش کی لیکن وہ "آئینہ" پہلے سے صاف تھا.
Last edited by a moderator: